/ Friday, 14 March,2025


وہ اسیر کاکل عنبریں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو





وہ اسیر کاکل عنبریں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ شہید غمزۂ نازنیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کسی التفات کا واسطہ تمہیں دے تو دیتا ابھی مگر
یہ لگا ہے خوف پتہ نہیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ ٹپکنا قطرۂ آتشیں کا نگاہِ حسن نواز سے
وہ ہماری سوختہ آستیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی تازیانۂ لن ترا کبھی اُدْنُ مِنّی کا گل کدہ
وہ محبتوں کا چناں چنیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مجھے عقل و ہوش کی بندگی بھلا راس آئے تو کسطرح
میں ہوں مست نرگس سرمہ گیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مئے عشق بن کے لہو مرے رگ و پا میں ایسا سماگئی
رگ جاں بنی رگ آتشیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ تمہارا شیریں کلام جو ہے بہشت سامعہ آج بھی
مجھے یاد ہے مرے دل نشیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
یہ کہیں فریب حسیں نہ ہو جسے کہہ رہے ہو وفا ،وفا
تو کہا تھا تم نے نہیں نہیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جو کبھی تھا مرکزِ لطفِ جاں وہی اخؔتر دلِ مہرباں
مرے مہ لقا مرے مہ جبیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو