وہ اسیر کاکل عنبریں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ شہید غمزۂ نازنیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کسی التفات کا واسطہ تمہیں دے تو دیتا ابھی مگر
یہ لگا ہے خوف پتہ نہیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ ٹپکنا قطرۂ آتشیں کا نگاہِ حسن نواز سے
وہ ہماری سوختہ آستیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی تازیانۂ لن ترا کبھی اُدْنُ مِنّی کا گل کدہ
وہ محبتوں کا چناں چنیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مجھے عقل و ہوش کی بندگی بھلا راس آئے تو کسطرح
میں ہوں مست نرگس سرمہ گیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مئے عشق بن کے لہو مرے رگ و پا میں ایسا سماگئی
رگ جاں بنی رگ آتشیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ تمہارا شیریں کلام جو ہے بہشت سامعہ آج بھی
مجھے یاد ہے مرے دل نشیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
یہ کہیں فریب حسیں نہ ہو جسے کہہ رہے ہو وفا ،وفا
تو کہا تھا تم نے نہیں نہیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جو کبھی تھا مرکزِ لطفِ جاں وہی اخؔتر دلِ مہرباں
مرے مہ لقا مرے مہ جبیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو