وہ کمالِ نشۂ بے خودی تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تھا جھکا جہاں سرِ آگہی تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جبیں کا جھکنا ہر اک نشاں پہ سمجھ کے نقش نشانِ پا
وہ ہمارے سجدوں کی بیکسی تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مجھے اپنی محفلِ ناز میں جو نگاہِ ناز نہ پاسکی
تو کہا تھا تم نے ہے اک کمی تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تمہیں اپنے سامنے دیکھ کر نہ رہا وضو کا خیال بھی
وہ وفور جذبۂ بندگی تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تھی تمہارے در پہ مری جبیں مرے زیر پا سردو جہاں
وہ قلندری وہ سکندری تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جو نظر نہ آئے چمن میں تم تو نگاہِ اخؔتر زار میں
بنی خار پھول کی تازگی تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو