/ Friday, 14 March,2025


وہ وفا پیکر سنا ہے محوِ ناؤ نوش ہے





وہ وفا پیکر سنا ہے محوِ ناؤ نوش ہے
کیا خبر اس کو مری شمع خوشی خاموش ہے
ہم چلے جب میکدے سے تو گھٹائیں بھی چلیں
اس میں کیا ساقی ہمارا جرم ہے کیا دوش ہے
کہہ رہی ہے رخ پہ یہ بکھری ہوئی زلف حسیں
ابر کے پیچھے کوئی برق تپاں روپوش ہے
عظمت انسانیت سمجھے کوئی ممکن نہیں
خاک کا ذرہ سہی لیکن فلک آغوش ہے
زندگی ہے بے نیازِ زندگی ہونے کا نام
موت کہتے ہیں جسے وہ زندگی کا ہوش ہے