یامحمد رُخ ِ حالات بدلنے کے لئے
آ پڑا ہوں ترے قدموں میں سنبھلنے کے لئے
درد کی لہر اٹھے درد بنا دے مجھ کو
اشک کافی نہیں آنکھوں میں مچلنے کے لئے
میں تو کیا چیز ہوں ولیوں نے دعائیں مانگیں
سایۂِ دامنِ سرکار میں پلنے کے لئے
اپنے جلوؤں کے مجھے بھیک دے ماہِ طیبہ
غم ِ ہستی کے اندھیروں سے نکلنے کےلئے
یہ کریمی ہے کہ رحمت نے چنا ہے مجھ کو
آتشِ الفتِ سرکار میں جلنے کے لئے
آپ کی یاد کو ایمان بنا رکھا ہے
بے خطر ہر رہِ دشوار میں چلنے کے لئے
اب شفا ہوگی کہ لے آئے ہیں احباب مرے
خاکِ طیبہ تنِ بیمار پہ مَلنے کے لئے
کام آجاتی ہے سرکار کی نسبت کی سپر
ورنہ طوفان تو آئے تمہیں ٹلنے کے لئے
نسبتِ صاحبِ معراج ملی ہے خاؔلد
اپنے اقبال کا سورج نہیں ڈھلنے کے لئے