یا نبی لب پہ آہ وزاری ہے
روزو شب تیری یاد گاری ہے
آستانے پہ تیرے سر رگڑیں
ایسی قسمت کہاں ہماری ہے
تیرا دربار دیکھنے کے لیے
ایک عالم کو بے قراری ہے
سارے عشاق ہیں کمر بستہ
حکم کی تیرے انتظاری ہے
عرش تافرش میں ترے محکوم
ہر جگہ تیرا حکم جاری ہے
جو ترا ہوگیا بنا مومن
تجھ سے جو پھر گیاوہ ناری ہے
ہم کو بندہ بنا دیا تیرا
واہ کیا شان کرد گاری ہے
تم ہو قاسم تمہارا رب معطی
دین رب کی عطا تمہاری ہے
کردیا تاجور جسے چاہا
واہ کیا تیری تاجداری ہے
تیرے صدقے میں یا رسول اللہ
تیری امت بھی حق کو پیاری ہے
نہ اتارا عذاب دنیا میں
حق کو تیری یہ پاسداری ہے
عقل کل بھی رہے جہاں حیراں
حق سے تیری وہ رازداری ہے
بلبل اس جاوطن بنا کہ جہاں
دائما موسم بہاری ہے
دردنداں میں ہے چمک جیسی
کس گہر میں یہ آبداری ہے
کیوں نکیرین کرتے ہو جلدی
مجھ کو آقا کی انتظاری ہے
مجھ سے پوچھیں وہ حشر میں یارب
کچھ تو کہہ کیسی بے قراری ہے
میں کروں عرض یا رسول اللہ
سر پہ گٹھری گنہ کی بھاری ہے
ٹوٹی جاتی ہے پیٹھ عصیاں سے
اس سبب سے فغان و زاری ہے
پھر تو فرمائیں یو ں شفیع امم
بحر بخشش ہمارا جاری ہے
تو ہمارا ہی نام لیوا ہے
تجھ کو ہر غم سے رستگاری ہے
شور ہو حشر میں کہ صل علیٰ
کیا غلامؤں کی غمگساری ہے
لاج رکھ لے جمیل رضوی کی
یہ بھی ادنی ٰترا بھکاری ہے
قبالۂ بخشش