یا تو یہ ہو کہ تاب رہے دید کی مجھے
یا یہ کہ چشمِ لطف سے دیکھے کوئی مجھے
یارب عطا ہو ایسا سکون دلی مجھے
غم کا ہو کوئی غم نہ خوشی کی خوشی مجھے
شاید کہ راس آگئی کوئی خوشی مجھے
میں زندگی کو روتا ہوں اور زندگی مجھے
طے ہورہا ہے قصۂ طو لانئی حیات
اب تو نہ دے فریب، غمِ زندگی مجھے
مِل مِل کے رو رہے ہیں جو تاب و توانِ دل
اے آرزوئے دید کہاں لے چلی مجھے
غربت کی راہ میں جو بڑھایا کبھی قدم
کچھ دور روتی آئی مری بیکسی مجھے
کیا کیا نہ گل کھلائے غم روزگار نے
تم ہی بتاؤ تم نے بھی پوچھا کبھی مجھے
سب کچھ بھلا دیا ستم روزگار نے
بھر بھی تمھاری یاد ستاتی رہی مجھے
رکھتا جو جسم زار پہ دو چار دھجیاں
دستِ جنوں نے اتنی بھی مہلت نہ دی مجھے
غربت میں اب تو عیش بھی بھاتا نہیں خلیؔل
ہائے وطن کی یاد کہاں آگئی مجھے