/ Friday, 14 March,2025


یاد ہے اب تک مجھے وہ زندگی کی سرد شام





آزاد نظم

 

یاد ہے اب تک مجھے وہ زندگی کی سرد شام
ادھ جلے پیڑوں کے پیچھے  چاند گہنایا ہُوا
سرد بر فیلی ہُوا
پیڑ، جیسے تھر تھراتے جسم
اور ہر جھونکے پہ اُکھڑی اُکھڑی سانسوں کا گماں
اک قیامت کا سماں!
اور جیسے میں بھی اک آوارہ جونکے کی طرح
اِس فضا پرچھا گیا!
اور پھر اک بار وہ سرما کا سورج
تیز کرنوں کو جِلو میں لے کے نکلا شرق سے
لمحہ لمحہ سرخ لاوے کی طرح
پھیلتا، بڑھتا ہوا!
کونپلیں پھوٹیں تو دُلہن کی طرح سجنے لگا ہر شا خسار
ہر روش پر اک بہار
کاروانِ شوق اک  منزل پر آکر رُک گیا!
چُپکے چُپکے پھر وہی بر فیلی راتوں کے قدم
وادیوں نے کو ہساروں نےسُنی اُن کی دھمک
یُورشِ دورِ خزاں کو بادوباراں کی کُمک
اور پھر آنکھوں نے دیکھا
پتّہ پتّہ ٹُوٹ کر بکھر ہُوا ہے خاک پر
پھول مرُجھانے لگے
ننگی شاخوں نے فضا کو اور ویراں کردیا
سرد راتیں  اور اُس کے بعد چمکیلی سحر
موسمِ گُل اور پھر فصلِ خزاں
زندگی کے راز ِ سر بستہ کی ہیں مُہلک خبر!

واضح ہو کہ یہ نظم بعض احباب کے اصرار پر کہی  گئی ورنہ مانیودیم بدیں مرتبہ راضی غاؔلب      (نصؔیر)

(عرشِ ناز)