/ Friday, 14 March,2025


یہ فیض دیکھا ہے سرکار کی نگاہوں کا





یہ فیض دیکھا ہے سرکار کی نگاہوں کا

سکوں میں ڈھل گیا سیلاب غم کی آہوں کا

 

مہک اٹھی ہیں وہ گلیاں جہاں سے وہ گزرے

چمک اٹھا ہے ستارا اندھیری راہوں کا

 

ہم آپ کے ہیں سرِ حشر لاج رکھ لینا

اِسی پہ ناز ہے سرکار روسیا ہوں کا

 

نقاب اٹھاؤ کہ دیکھیں خدانما صورت

قرار آپ ہیں حسرت بھری نگاہوں کا

 

ہے ایک ذرّۂ ناچیز وسعتِ کونین

بہت وسیع ہے حلقہ نبی کی باہوں کا

 

زہے نصیب کہ اس کی گلی کا منگتا ہوں

گزارا جس کی عطا پر ہے کج کلا ہوں کا

 

گناہ گار ہوں لیکن یہ ناز ہے خاؔلد

کہ رحمتوں سےہے رِشتہ مرے گنا ہوں کا