یہ گلستانِ تمامی ظہورِ کثرت کا
خدائے پاک کی شمّہ ہے ایک صنعت کا
ہر ایک سبزۂ نو خیز باغِ امکاں میں
زبانِ حال سے شاہد ہے اس کی قدرت کا
وہ ایسا صاحبِ اکبر ہے صاحبِ وسعت
کہ ہے حباب ِ فلک جس کی بحرِ قدرت کا
اُسی کے قہر سے جلتی ہے آتش ِ دوزخ
اُسی کے مہر سے روشن ہے قصر جنّت کا
خصوص ہم پہ کیا اس طرح کا ایک کرم
کہ ہو ادا نہ کبھی شکر اُس عنایت کا
بنایا اُمتی اپنے حبیب کا ہم کو
دیا شرف شرفِ انبیا کی امّت کا
وہ شاہِ کشورِ لَوْلَاک وہ حبیبِ خدا
کہ جن کے فیض سے ہے تازہ باغ رحمت کا
مہِ سپہر شرفِ ذاتِ مصطفائی ہے
فروغِ عارضِ رحمت ہے نور حضرت کا
ولادتِ شہِ خیر الورا کی برکت سے
گریز کر گیا دنیا سے دن نحوست کا
جہاں میں خیرِ سعادت کی دھوم دھام ہوئی
ظہور کون و مکاں میں ہے اس بشارت کا
نہ ہوئے کیوں کہ زماں و زمین میں تسکین
جہاں میں آیا قدم صاحبِ شفاعت کا
دیا خدا نے اُنھیں جو مراتبِ عالی
بیاں ہو ہم سے کب اس بے عدد فضیلت کا
بغیرِ امّت مرحومۂ شہِ لَوْلَاک
مِلا خطاب بھلا کسی کو ’’خیرِ امّت‘‘ کا
عجب وسیلہ کافؔی ہے واسطے اپنے
جنابِ سیّدِ سادات شانِ رحمت کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(دیوانِ کافؔی)