/ Friday, 14 March,2025


یہ مانا کہ شایانِ قاتل نہیں ہوں





یہ مانا کہ شایانِ قاتل نہیں ہوں
فریب محبت سے غافل نہیں ہوں
سر حشر مجھ پر نظر ایسی ڈالی
یہ کہنا پڑا ان کا بسمل نہیں ہوں
جو دونیم ہوجائے اے تیغ ابرو
لئے اپنے پہلو میں وہ دل نہیں ہوں
بھٹکنے میں ہے لطف ائے خضر ورنہ
میں ناواقف راہ منزل نہیں ہوں
ہے یہ ناروا مذہب عاشقی میں
ستم سہہ کے کہنا کہ خوش دل نہیں ہوں
مرے دل کی آہوں کا اخؔتر کرم ہے
کہ منت کشِ شمع محفِل نہیں ہوں