اُن کی بخشش کا ٹھکانا ہی نہیں ہے کوئی
ہر گنہ گار پہ رحمت کی نظر رکھتے ہیں
کون کس حال میں ہے کس نے پکارا ان کو
میرے سرکار دو عالم کی خبر رکھتے ہیں
یہ نوازشیں یہ عنائتیں غمِ دو جہاں سے چھڑا دیا
غمِ مصطفیٰ ترا شکریہ مجھے مرنا جینا سکھا دیا
وہ خدا ہے جس کا خیال بھی مری ہر پہنچ سےبلند ہے
وہ نبی کا حسن و جمال ہے کہ خدا کا جس نے پتہ دیا
مرا سوز لذت ِ زندگی مرے اشک میری بہار ہیں
یہ کرم ہے عشقِ رسول کا مجھے درد نے بھی مزادیا
کہاں میں کہاں تری آرزو کہاں میں کہاں تری جستجو
تو قریب تھا تو قریب ہے جو حجاب تھا وہ اٹھا دیا
تو کریم کتنا عظیم ہے تو رؤف ہے تو رحیم ہے
کوئی بھیک مانگنے آگیا تو ضرورتوں سے سوا دیا
جو ملال میرا ملال تھا تمہیں اس کا کتنا خیال تھا
کہ اجڑ گیا تھا دیارِ دل اسے تم نے آکے بسا دیا
وہ نگاہ کتنی حسین تھی جو تجلیوں کی امین تھی،
کہ جہاں پہ حسنِ بلال کا نیا نقش جس نے جمادیا
میں ہوں اپنے حال میں مطمئن میں کسی کو کیسے بتاؤں گا
یہ معاملات ہیں راز کے مجھے ان کے عشق نے کیا دیا
ترے ذکر و فکر سے زندگی بہر اعتبار ہے بندگی
یہ کرم ہے مری نگاہ میں مرا اعتبار بڑھا دیا
وہ گھڑی بھی آئے کہ خواب میں وہ دکھائیں اپنی تجلیاں
میں کہوں کہ آج حضور نے مرا بختِ خفتہ جگا دیا
یہ تمہارا خاؔلد ِ بینوا ہے سرور و کیف کا واسطہ
اسے ڈھونڈنے لگے میکدے اسے کیسا جام پلا دیا