جمعہ , 14 جمادى الآخر 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Friday, 05 December,2025


یہ میری خوبی قسمت مجھے جس سے محبت ہے






یہ میری خوبیِ قسمت مجھے جس سے محبّت ہے
محبّت نام ہی سے اُس ستم گر کو عداوت ہے

نہ تم میرے ہوئے نہ ہو سکو گے یہ قیامت ہے
یہ سب کچھ جانتا ہوں کیا کروں تم سے محبّت ہے

 تسلّی سے ذرا بیٹھو کہ اب ہنگامِ رُخصت ہے
لو اب ہم جارہے ہیں اب تمھیں فرصت ہی فرصت ہے

 نہ اب ہم تم کو چھیڑیں گے نہ اب تم کو ستائیں گے
نہ اب تم کہہ سکو گے کیا بُری یہ تیری عادت ہے

 تِرے عارض مِرے گُل ہیں مِری کلیاں تِرے لب ہیں
مِرے پہلو میں تو  کب ہے مِرے پہلو میں جنّت ہے

 تِری آنکھوں سے پی کر جامِ اُلفت مست و بے خود ہوں
 میں جس دنیا میں رہتا ہوں اُسی کا نام جنّت ہے

یہ دنیا پوچھتی ہے نام تیرا لے نہیں سکتا
مگر اِتنا بتا دوں گا اگر تیری اجازت ہے

 مِرے محبوب کی پہچان کو اتنا ہی کافی ہے
حسینانِ جہاں میں کب کسی کی ایسی صورت ہے
 

غزالی آنکھ گورا رنگ اور مہتاب سا چہرہ
تو اس کے گیسوؤں سے بھی لجائی شب کی ظلمت ہے

 لہو سے اپنے سینچا تھا صَنادِل نے گلستاں کو
اُنھیں کو اب گلستاں میں سکوں ہے اور نہ راحت ہے

 گلوں کو روند کر بلبل سے یہ صیاد کہتا ہے
یہ تیرے خوں کی قیمت ہے یہ تیرے خوں کی قیمت ہے
 

ہزاروں بار اپنا خون دیکھا اُن کے دامن پر
مگر ہر بار ہم سمجھے اُنھیں ہم سے محبّت ہے

تمھی سے تھا کبھی سرسبز اور شاداب یہ ریحاؔں
نظر تم نے جو بدلی ہے تو ریحؔاں کی یہ حالت ہے