یہ میری خوبی قسمت مجھے جس سے محبت ہے
محبت نام ہی سے اس ستم گر کو عداوت ہے
نہ تم میرے ہوئے نہ ہو سکو گے یہ قیامت ہے
یہ سب کچھ جانتا ہوں کیا کروں تم سے محبت ہے
تسلی سے ذرا بیٹھو کہ اب ہنگامِ رخصت ہے
لو اب ہم جارہے ہیں اب تمہیں فرصت ہی فرصت ہے
نہ اب ہم تم کو چھیڑیں گے نہ اب تم کو ستائیں گے
نہ اب تم کہہ سکو گے کیا بری یہ تیری عادت ہے
تیرے عارض میرے گل ہیں میری کلیاں تیرے لب ہیں
میرے پہلو میں تو کب ہے میرے پہلو میں جنت ہے
تیری آنکھوں سے پی کر جامِ الفت مست و بے خود ہوں
میں جس دنیا میں رہتا ہوں اسی کا نام جنت ہے
یہ دنیا پوچھتی ہے نام تیرا لے نہیں سکتا
مگر اتنا بتادوں گا اگر تیری اجازت ہے
میرے محبوب کی پہچان کو اتنا ہی کافی ہے
حسینانِ جہاں میں کب کسی کی ایسی صورت ہے
غزالی آنکھ گورا رنگ اور مہتاب سا چہرہ
تو اس کے گیسوؤں سے بھی لجائی شب کی ظلمت ہے
لہو سے اپنے سینچا تھا صنادل نے گلستان کو
انہیں کو اب گلستان میں سکوں ہے اور نہ راحت ہے
گلوں کو روند کر بلبل سے یہ صیاد کہتا ہے
یہ تیرے خوں کی قیمت ہے یہ تیرے خوں کی قیمت ہے
ہزاروں بار اپنا خون دیکھا ان کے دامن پر
مگر ہر بار ہم سمجھے انہیں ہم سے محبت ہے
تم ہی سے تھا کبھی سر سبز اور شاداب یہ ریحاں
نظر تم نے جو بدلی ہے تو ریحؔاں کی یہ حالت ہے