/ Friday, 14 March,2025


زخم بھر جائیں گے سب چاک گریبانوں کے





زخم بھر جائیں گے سب چاک گریبانوں کے

سوئے طیبہ تو چلیں قافلے ارمانوں کے

 

جن کو سرکار پلاتے ہیں نظر سے اپنی

وہ تو محتاج نہیں دہر میں پیمانوں کے

 

روضۂِ پاک کے پُر کیف نظاروں کی قسم

رنگ پھیکے ہوئے فردوس کے ایوانوں کے

 

دینے والے ہیں اگرآپ تو کس بات کا غم

حوصلے بڑھتے رہیں گے مرے ارمانوں کے

 

سوزِ الفت غمِ سرکار متاعِ نسبت

سرو ساماں ہیں یہی بےسرو سامانوں کے

 

اس طرح آپ کے قدموں نے ضیا بار کیا

ذرّے فردوس ِ نظر بن گئے ویرانوں کے

 

ایک میں کیا مری جھولی میں ہے وسعت کتنی

تم نے دامن بھرے پھولوں سے بیابانوں کے

 

وہ تو وہ ان کے غلاموں کا ہے یہ حال کہ اب

رُخ بدل دیتے ہیں اک آن میں طوفانوں کے

 

آپ کی یاد کو اللہ سلامت رکھے

کام بگڑے ہوئے بن جاتے ہیں انسانوں کے

 

ہوگئی قلب کی تطہیر ملا کیف و سرور

دور جس وقت چلے نعت کے پیمانوں کے

 

غیر کا در کبھی دیکھا نہ کبھی دیکھیں گے

آپ جو پالنے والے ہوئے دیوانوں کے

 

چل پڑے شمع نبوت پہ فدا ہونے کو

حوصلے دیکھنا خاؔلد ذرا پروانوں کے