/ Friday, 14 March,2025


زمیں پر نازش خلد بریں معلوم ہوتی ہے





مخمس

برغزل حضرت محدث اعظم ہند ﷫و﷜

زمیں پر نازش خلد بریں معلوم ہوتی ہے
جھکی ہر اک بلندی کی جبیں معلوم ہوتی ہے
بزیر چرخ‘ چرخ ہفتیمں معلوم ہوتی ہے
مدینے کی زمیں بھی کیا زمیں معلوم ہوتی ہے
لئے آغوش میں عرش بریں معلوم ہوتی ہے
نہیں ہے کوئی تم سادوسرا میں یارسول اللہﷺ
ہے تیرا عکس روئے مہر و مہ میں یارسول اللہﷺ
نہ کیوں عالم ہو تیرے آسرا میں یا رسول اللہﷺ
ترے جودوکرم کی ہر ادا میں یارسول اللہﷺ
نمود شان ربُّ العالمین معلوم ہوتی ہے
خدا تک ہے پہنچنے کا تو زینہ تیرا کیا کہنا
شراب معرفت سے پُر ہے سینہ تیرا کیا کہنا
تری ہر اک گلی ہے رشک سینا تیرا کیا کہنا
تعالیٰ اللہ اے ارض مدینہ تیرا کیا کہنا
بلندی عرش کی زیر زمیں معلوم ہوتی ہے
کبھی تیری پلک میں ہوگئی جنبش اگر آقا
کلیجہ چاند نے چیرا تو سورج ڈوب کر نکلا
مکاں سے لامکاں تک ہے فقط اک گام کا رستہ
سراپا حق سراپا نور بے سایہ ز سرتاپا
بشر کہنے کی کچھ صورت نہیں معلوم ہوتی ہے
بتائے اخؔتر نادان کیا؟ منزل ہے کیا ان کی
خدا ان کا دو عالم کی ہر اک شی باخدا ان کی
سراپا رحمت ربّ العلا ہے ہر نگہ ان کی
سیہ کاران امت کے لئے زلفِ سیہ ان کی
سراسر رحمت اللعالمیں معلوم ہوتی ہے
ہر اک لب پر رہے گا حشر میں چرچا محمدﷺ کا
لب محشر پہ بھی ہوگا فقط خطبہ محمدﷺ کا
تمہیں معلوم کیا ہے مرتبہ ہے کیا محمدﷺ کا
گنہگاروں سے پوچھو زاہد و رتبہ محمدﷺ کا
انھیں قدر شفیع المذنبیں معلوم ہوتی ہے
محبت تیری زینہ ہے ترے رب کی محبت کا
کلام اللہ بھی قائل ہے تیری افضلیت کا
کرے سارا زمانہ لاکھ دعویٰ ہمسریت کا
ہر احمق خواب ہی دیکھا کرے اپنی نبوت کا
اسی میں شان ختم المرسلیں معلوم ہوتی ہے
خدا خود مدح خواں ہے جس مقدس آستانے کا
جہاں سر ہوگیا خم خودبخود سارے زمانے کا
جہاں پر سلسلہ ہے رحمتوں کے آنے جانے کا
نتیجہ یہ ہوا اس آستاں پر سر جھکانے کا
بجائے سنگ در میری جبیں معلوم ہوتی ہے
نگاہِ ناز نے ہل چل مچادی ہے مرے دل میں
کہاں اب فرق باقی مجھ میں ہے اور مرغ بسمل میں
بتاؤں کیسے اخؔتر کیا ملا ہے ان کی محفل میں
خدا جانے کے سودا سرمیں ہے یا درد ہے دل میں
مگر اک چوٹ سی مجھ کو کہیں معلوم ہوتی ہے