ضیا پیر و مرشِد مِرے رہ نما ہیں
سُرورِ دل و جاں مِرے دِل رُبا ہیں
کلی ہیں گلستانِ غوثُ الوریٰ کی
یہ باغِ رضا کے گُلِ خوش نما ہیں
شریعت، طریقت ہو یا معرفت ہو
یہ حق ہے حقیقت میں حق آشنا ہیں
سہارے ہیں بے کس کے، دکھیوں کے والی
سخا کے ہیں مخزن تو کانِ عطا ہیں
خُدا کی محبّت سے سرشار ہیں وُہ
دل و جان سے مصطفیٰﷺ پر فدا ہیں
ملا سبز گنبد کا قسمت سے سایہ
دیارِ محمد میں جلوہ نما ہیں
بلا لو مجھے اپنے قدموں میں اب تو
کہ ایّامِ فرقت بڑے بے مزا ہیں
مجھے رُوئے زیبا ذرا پھر دکھا دو
زیارت کے لمحے بڑے جاں فزا ہیں
تصوّر جماؤں تو موجود پاؤں
کروں بند آنکھیں تو جلوہ نما ہیں
نہ کیوں اہلِ سنّت کریں ناز اُن پر
کہ وہ نائبِ غوث و احمد رضا ہیں
منوّر کریں قلبِ عؔطار کو بھی
شہا آپ دینِ مبیں کی ضیا ہیں