ولادت
باسعادت :
۱۱؍ صفر
المظفر۱۴۱۴، مطابق۱ ؍اگست
۱۹۹۳ ء
القاب:
مظہر حجت الاسلام،سرمایہ افتخار فیض
الرسول(لقب دہندہ صاحب سجادہ براؤں شریف)،چشم و چراغ خاندان رضا
شجرۂ
نسب:
اسم
گرامی مفتی محمد ارسلان رضا خان ابن مولانا عثمان رضا خان عرف
(انجم میاں) ابن ریحان ملت حضرت علامہ ریحان رضا خان عرف(رحمانی میاں )ابن مفسر
اعظم ہند حضرت علامہ ابراہیم رضا خان عرف (جیلانی میاں) ابن حجت الاسلام حضرت
علامہ حامد رضا خان ابن امام اہل سنت شاہ احمد رضا خان قدست اسرارھم۔
تعلیم
و تربیت:
قرآن مجید ناظرہ
اور اردو کی ابتدائی تعلیم گھر ہی پر اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کی اور انہی کی
آغوش محبت اور سایہ عاطفت میں اسلامی تہذیب و تمدن اور ادب شناشی جیسے اوصاف
حمیدہ سے بچپن ہی سے آراستہ و پیراستہ ہو گئے پھر عصری تقاضوں کے پیش نظر کئ سال
اسکول کالج میں عصری تعلیم حاصل کی، اس کے بعد عالم اسلام کی عظیم دینی درسگاہ
یادگار اعلی حضرت مرکز اہل سنت جامعہ رضویہ منظر اسلام میں داخل ہو کر درس نظامی
کی ابتدائی کتابیں حضرت مولانا نعیم اللہ خان صاحب قبلہ سابق صدر المدرسین جامعہ
رضویہ منظر اسلام سے پڑھیں۔ پھر چونکہ
یہاں خانقاہ میں عقیدت مندوں کی بھیڑ اور ملنے والوں کی کثرت رہتی جس کے سبب پڑھنے
لکھنے میں خلل ہوتا اور تعلیم متاثر ہوتی لہذا تعلیم میں یک سوئی اور دلجمعی حاصل
کرنےکے لیے گھر کے بڑوں کے ایماء و اشارے پر بریلی شریف سے براؤں شریف کا سفر کیا
اور وہاں ہندوستان کی مشہور دینی درسگاہ دار العلوم فیض الرسول میں داخلہ لے کر
باضابطہ تعلیم دینی شروع کر دی اور وہاں متعدد علمائے کرام سے علوم مروجہ مثلاً
نحو و صرف، عربی ادب، منطق و فلسفہ، بلاغت و معانی و بیان، حدیث و اصول حدیث، فقہ
و اصول فقہ، تفسیر و اصول تفسیر و غیرہ کی کتب متداولہ کا درس لیا اور بالاخر ۲۲؍
محرم الحرام۱۴۳۹ ھ مطابق ۱۳
اکتوبر ۲۰۱۷ ء بروز جمعہ کو سالانہ جلسہ دستار بندی میں
علمائے اسلام و مشائخ کرام کے مقدس ہاتھوں سے فضیلت کے تاج زریں سے نوازے گئے۔
اساتذہ
کرام :
آپ نے درس نظامی از ابتدا تا انتہا جن
علماء کرام سے پڑھا ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
· حضرت
مولانا مفتی نعیم اللہ خان صاحب سابق صدر المدرسین جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی
شریف،
· حضرت
مولانا مفتی محمد مستقیم صاحب قبلہ مصطفوی (رحمة اللہ تعالی علیہ) سابق
مفتی و مدرس دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف
حضرت مفتی شہاب الدین صاحب قبلہ مد ظلہ العالی مدرس دار العلوم فیض الرسول
براؤں شریف،
· حضرت
مفتی نظام الدین صاحب قبلہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ سابق استاذ دار العلوم فیض الرسول
براؤں شریف،
· شہزادئہ
حضور بدر ملت حضرت مولانا رابع نورانی صاحب قبلہ ، استاذ دار العلوم فیض الرسول
براؤں شریف،
· حضرت
مولانا محمد اسماعیل صاحب قبلہ شیخ الحدیث دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف ،
· حضرت
مولانا قاری خلق اللہ صاحب قبلہ خلیق فیضی سابق استاذ دار العلوم فیض الرسول
براؤں شریف۔
·حضور
تاج الشریعہ قدس سرہ سے علمی استفادہ: چھٹیوں و دیگر مواقع پر جب بھی موقع ملتا تو
سرکار تاج الشریعہ قدس سرہ سے علمی استفادہ فرماتے اور گاہے بگاہے مشکل عبارات،
دقیق معانی و مفاہیم، پر پیچ مسائل حضرت کی بارگاہ میں پیش کر تے اور ان کا
اطمینان بخش جواب و حل پاتے، تو اس طرح اساتذہ میں خصوصی استاد کی حیثیت سے حضور
تاج الشریعہ قدس سرہ کا نام نامی اسم گرامی بھی سر فہرست ہے۔
مصر
کا تعلیمی سفر:
مادر علمی
دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف سے فراغت کے معا ًبعد اعلی تعلیم کے حصول اور
فکر و تدبر کی نوک و پلک سنوارنے کے لیے ۲۰۰۷ء کے
اختتامی ایام میں آپ نے عالم اسلام کی قدیم اسلامی دینی یونیورسٹی جامعہ ازہر مصر
کا طویل سفر کیا اور۲۰۱۸ءکے
آغاز سے لے کر۲۰۲۳ء کے وسط تک با استثنائے ۲۰۲۰ء (جو کورونا کال کی نذر ہو گیا) تقریبا پانچ سال
جامعہ ازہر مصر سے منسلک رہ کر پوری محنت اور لگن کے ساتھ وہاں کا تعلیمی نصاب
مکمل کیا اور کلیہ اصول الدین میں قسم الحدیث و علومہ سے بی۔اے کر کے فارغ ہوئے،
یوں تو ہندو پاک و دیگر ممالک سے بہت سارے طلبہ جامعہ ازہر جاتے ہیں اور وہاں سے
اخذ و تعلم کرتے ہیں ، مگر ازہر کے حوالہ سے موصوف کا طرز عمل اور روش عام طلبہ سے
جدا اور ممتاز تھی ،بلکہ فی زماننا کچھ طلبہ تو ایسے بھی نظر آتے ہیں جو یہاں سے
صحت عمل و درستگی نظر و فکر اور تصلب و استقامت جیسی دولت لے کر جاتے ہیں مگر وہاں
کی چکا چوند، روشن خیالی، آزاد ذہنیت وغیرہ برائیوں میں ملوث ہو کر اپنے فکر و
عمل، تصلب و استقامت کی دولت وگنج گراں مایہ کو گوا دیتے ہیں ،مگر موصوف اپنے
خاندان کی جو امانت، زہد و تقوی، تصلب و استقامت لے کر جس طرح گئے تھے اسی طرح ان
کنوزہائے بے بہا کو لے کر واپس لوٹے (جس طرح حضور تاج الشریعہ لوٹے تھے) وہاں کی
چکا چوند آپ کی انکھوں کو خیرہ نہ کر سکی، ذالک من فضل اللہ، آپ
کی ایک خصوصیت و امتیاز یہ بھی ہے کہ آپ نے دوسرے طلبہ کی طرح وہاں کے ہر ایک
دکتور کے سامنے زانوئے تلمذ طے نہ کر لیا، بلکہ جس کے ظاہر و باطن کو سنت سے مزین
پایا صرف اسی سے رشتہ تلمذی جوڑا۔یہی وجہ ہے کہ عام طور پر طرز تعلیم یہ رکھا کہ
سال کا اکثر حصہ اپنے وطن عزیز میں رہ کر مطالعہ کتب، فتوی نویسی، درس و تدریس،
تصنیف و تالیف، دعوت و تبلیغ وغیرہ امور میں مشغول رہتے، امتحانات سے کچھ ایام قبل
مصر جاتے ،جامعہ سے علیحدہ روم لے کر تنہائی میں متعینہ نصاب اور سلیبس کا بہ نظر
غائر مطالعہ فرماتے اور اوقات مقررہ پر امتحان دے کر وطن واپس چلے آتے، ادھر ادھر
کے رحلات، سیر و سیاحت،اور گھومنے گھامنے سے ذرا مطلب نہ رکھا، یہی سلسلہ پورے
تعلیمی سفر میں جاری رہا، اس کی وجہ یہ تھی کہ چونکہ وہاں کے موجودہ دکاترہ میں
اکثر سنت سے منحرف، آزاد خیال، مغربی ثقافت و تمدن سے متاثر بلکہ ملوث، مغاربہ
فجار کے لباس میں ملبوس، روشن خیالی سے محظوظ ہیں، موصوف کی طبیعت میں چونکہ پاک
طینتی ،زہد و تقوی، اتباع سنت و روش اسلاف، بچپن ہی سے رچی بسی تھی اور یہ اوصاف
جلیلہ آپ کو کابرا عن کابر وراثت میں ملے تھے ایسے میں آپ کے قلب نے ہرگز گوارا
نہ کیا کہ خواہی نہ خواہی سبھی کے سامنے زانوئے تلمذ طے کریں ، شاید آپ کی اسی
نیک روش کا نتیجہ تھا کہ آپ پر فضل یزدانی و کرم رسول لاثانی و فیضان علمائے
ربانی (آپ کے ابا و اجداد) اس قدر رہا کہ کلیہ کے پہلے تعلیم سال ہی میں اپنے
درجہ کے ٹاپ ٹین میں شامل ہوئے جبکہ اس سال آپ کے سوا ہندو پاک کا کوئی طالب علم
کلیہ اصول الدین میں یہ اعجاز حاصل نہ کر سکا جس پر تہنیت و حوصلہ افزائی کے لیے
اتحاد طلبۃ الہند کی جانب سے آپ کو اعزازی اوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا، اور یہ
سلسلہ سال در سال افزوں رہا یہاں تک کہ اس سال یعنی اپنے مصر کے تعلیمی سفر کے
اختتامی سال میں%92 تقدیر کے ساتھ امتیازی حیثیت سے فراغت
حاصل کی ،الحمد
للہ علی ذالک۔
درس
و تدریس:
آپ
نے ابھی تک اگرچہ باقاعدہ طور پر کسی درسگاہ سے منسلک ہو کر درس نہیں دیا مگر
بھرپور درسی صلاحیتوں کے مالک و
حامل ہیں،اور درس و تدریس کا خوب ذوق و شوق
بھی رکھتے ہیں مگر کچھ ناگفتہ بہ رکاوٹیں فی الحال باضابطہ تدریس سے مانع ہیں مگر
بہر حال (ما لا
یدرک کله لا یترک جله) اپنے
ذوق و شوق کی تسکین کی خاطر یہ انتظام کر رکھا ہے کہ گاہے بگاہے کبھی دار الافتا
میں تو کبھی اپنے گھر پر ہی جامعہ رضویہ منظر اسلام کے بعض باذوق طلبہ کو فقہ و
اصول فقہ اور حدیث و علوم حدیث کا درس دیا کرتے ہیں، جس نے بھی آپ سے درس لینے کا
شرف حاصل کیا، آپ کے انداز تفہیم، عبارات کی علمی تحقیق، شبہات و اعتراضات کے
شافی حل و جواب سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
تصنیف
و تالیف:
حضرت موصوف کی اب تک کئی کتابیں منظر عام پر
آ چکی ہیں اور کچھ آنے والی ہیں جن کے ناموں کی فہرست درج ذیل ہے۔
الوردۃ
فی شرح الفردۃ:
یہ
سرکار تاج الشریعہ قدس سرہ کی قصیدہ بردہ شریف کی عربی شرح ’’الفردۃ‘‘کے اردو
ترجمہ اور قدرے تشریح پر مشتمل ہے۔
رسالتان
رائعتان:
یہ کتاب اصل میں رد وہابیہ سے متعلق دو عظیم
رسالوں پر مشتمل ہے جن میں ایک رسالہ ’’الصواعق الالٰهية في الرد على الوہابية‘‘ہے
جو امام الوہابیہ محمد ابن عبدالوہاب نجدی کے برادر حقیقی شیخ سلیمان ابن
عبدالوہاب قدس سرہ کا ہے، جس پر موصوف کا سلیس اردو ترجمہ اور حاشیہ ہے، اور دوسرا
رسالہ ’’الدرر السنیۃ فی الرد علی الوہابیہ‘‘ ہے جو حضرت شیخ احمد زینی دحلان مکی
علیہ الرحمہ کا ہے جس پر مفسر اعظم ہند حضرت علامہ ابراہیم رضا خان قدس سرہ کا
اردو ترجمہ و تشریح ہے، حضرت موصوف نے اس پر حاشیہ رقم کیا ہے اور اس کی ترتیب
جدید فرمائی ہے۔
تربیت
لوح و قلم:
یہ
موصوف کے مختلف موضوعات پر لکھے گئے علمی و تحقیقی مضامین کا مہکتا ہوا گلدستہ ہے
جو ان کے زمانہ طالب علمی کی یادگار ہے۔
تربیت
فقہ و افتا:
زیر
نظر کتاب چشمہ دار الافتائے بریلی کے آخر میں موصوف کے جدید و قدیم مسائل سے
متعلق تقریباً ۶۰سے ۶۵ فتاویٰ
جات تربیت فقہ و افتاء کے عنوان سے درج ہیں جو کہ آپ کے تفقہ و تبحر، تحقیقی نظر،
مدققانہ فکر کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
اسلامی
تاریخ سے گہری وابستگی رکھنے والا شہر مصر بالخصوص جامعہ ازہر مصر کی ایک ہزار
سالہ تاریخ کے تناظر میں ان دس صدیوں میں ان دیار و امصار میں ہونے والے تغیرات و
تبدلات، آزاد خیالی، بے راہ روی اور اسلامی ثقافت کی انحطاط و زوال سے متعلق ایک
تجزیاتی مطالعہ و تجرباتی مشاہدہ کو کتابی شکل میں لانے پر موصوف سرگرم عمل ہیں،
عنقریب ہی قارئین اس کتاب کی زیارت و مطالعہ سے مشرف ہوں گے۔
اور
ان کے علاوہ بھی موصوف کے مختلف موضوعات پر کئی مطبوعہ وغیرہ مطبوعہ مضامین بھی
ہیں جن میں سے بعض مضامین ماہنامہ اعلی حضرت وغیرہ میں شائع ہو کر اہل علم و قلم
حضرات سے داد تحسین وصول کرتے رہتے ہیں۔
فی الحال موصوف فتوی نویسی کے کار عظیم میں مصروف ہیں اور اپنے بزرگوں کی
فتوی نویسی کی دو سو سالہ تاریخ کو بحسن و خوبی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ملک و بیرون
ملک سے آنے والے سوالات کے جوابات اور ان کے شرعی حل کی خدمات انجام دے رہے ہیں،
جس کے لیے موصوف نے اب سے تقریبا تین سال قبل درگاہ شریف کے بالکل سامنے رضوی دار
الافتا کے نام سے اعلی حضرت امام اہل سنت قدس سرہٗ کے قدیم رضوی دار الافتا کی
گویا نشاۃ جدیدہ فرمائی ہے جس میں متعدد مفتیان کرام مصروف عمل رہ کر خدمات دین
انجام دے رہے ہیں۔
خطابت:
اللہ
عزوجل نے موصوف کو اس فن میں بھی ملکہ کمال عطا فرمایا ہے کہ کم سنی ہی سے علمی
جواہر پارے خطابت کی شکل میں عوام و خواص اہل سنت کے ہجوم میں لٹانے لگے اور وقت
کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کمال میں اور اضافہ ہوتا گیا، فقط ۱۱
سال کی چھوٹی سی عمر میں جد امجد سیدنا سرکار اعلی حضرت قدس سرہ کے عرس مبارک کی تقریب میں ایسا لاجواب خطاب فرمایا کہ ممبر
پر بیٹھے اہل علم و خطابت حیران و انگشت بدنداں تھے اور جب اس خطاب کی کیسیٹ حضور
تاج الشریعہ قدس سرہ نے سنی تو نہ صرف یہ کہ اظہار مسرت فرمایا بلکہ آپ کو طلب
فرما کر اپنی جیب خاص سے۱۰۰ ؍ روپے کا نوٹ
نکال کر دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’یہ تمہارا انعام ہے‘‘ پھر جب دوبارہ عرس رضوی میں
خطاب کیا تو پہلے سے زیادہ پذیرائی ہوئی اور ممبر پر موجود علماء و مشائخ کرام نے
بڑھ کر سینے سے لگا کر بہت ساری دعاؤں سے نوازا، اس موقع پر جامعہ رضویہ منظر
اسلام کے سابق صدر مفتی حضرت علامہ مفتی محمد فاروق صاحب قبلہ رضوی نے ایک طویل
تہنیتی کلام منظوم فرمایا تھا جس کے چند اشعار قارئین کرام کی لذت و دلچسپی کے لیے
اختصارا یہاں نقل کر دینا مناسب ہوگا۔۱۔
ارسلان اے گلشن نوری رضا کے تازہ گل وہ تیری تقریر پر تنویر پیارے قبل قل۲۔
تیرا اک اک حرف تھا تقریر کا وہ دل نواز تیرے اوپر ہو رہا تھا خوب فضل کار ساز ۳۔جملہ
جملہ تھا تیری تقریر کا رحمت مآب واقعی تھا مصطفی کے فیض سے تو فیضیاب٤۔ اے میرے
مخدوم زادے وہ تیرا زور بیاں تھا کرامت غوث و خواجہ و رضا کی بے گماں۵۔
مجمع عرس رضوی اک زباں یہ بول اٹھا درحقیقت اس کو کہتے ہیں عنایت رضا اس کے بعد سے
ہر سال عرس رضوی کے پر بہار موقع پر اسلامیہ گراؤنڈ میں علماے کرام و عوام اہل
سنت کے جم غفیر میں قل شریف سے قبل معمولا تقریر فرماتے ہیں جسے ہر خاص و عام پوری
توجہ و لگن سے سنتا ہے بلکہ ان کے اشتیاق کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مجھ
( راقم السطور ) سے بہت سارے لوگوں نے کہا کہ "ہم تو حضرت ارسلان میاں صاحب
قبلہ کی تقریر سننے اور ان کے چہرے کی زیارت کرنے کے لیے ہی آگے اسٹیج کے قریب
بیٹھتے ہیں" اور عرس رضوی کے علاوہ بھی ملک کے طول و عرض میں تبلیغی و تقریری
دورے فرما کر اپنے بیانات و خطابات کے ذریعے عقائد و معمولات اہل سنت کی پرزور
تائید و اصلاح عقائد و اعمال مسلمین فرماتے ہیں، ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔
اوارڈ:
یوں تو آپ کو کئی مرتبہ مختلف مقامات پر
آپ کی صلاحیت و خدمات کے اعتراف میں اوارڈ سے نوازا جا چکا ہے، مگر ان میں
سب سے زیادہ اہمیت کا حامل "شعیب
الاولیاء اوارڈ" ہے، جس سے آپ کو اسی سال آپ کے مادر علمی دارالعلوم فیض
الرسول براؤں شریف میں ٢٢ محرم الحرام کو منعقد ہونے والے سالانہ جلسہ دستار بندی
میں نوازا گیا ہے۔
بیعت
و ارادت:
شیر
خوارگی کی عمر میں خانوادہ رضویہ کا عظیم پیر خانہ، مرجع اہل معرفت، مارہرہ مقدسہ
کے عظیم بزرگ مرشد اعظم ہند حضور احسن العلماء قدس سرہ کی بارگاہ میں آپ کو بیعت
کے لیے پیش کیا گیا، مرشد اعظم نے اسی طرح انگلی چسا کر آپ کو داخل سلسلہ کیا جس
طرح سرکار نوری میاں قدس سرہ نے حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ کو بیعت کیا تھا، مرشد
اعظم کی اس عنایت اور غایت درجہ کی توجہ اور محبت کی برکت آج پوری دنیا اپنی
آنکھوں سے دیکھ رہی ہے اور ان شاءاللہ عزوجل دیکھتی رہے گی، مرشد اعظم نے اپنی
انگلی چسا کر علم و معرفت تقوی و طہارت، فکر و تدبر کی لازوال دولت عطا فرما دی۔
فالحمد للہ علی ذلک۔
خلافت
و اجازت:
آپ
کو حضور تاج الشریعہ قدس سرہ سے نہ صرف عقیدت و شرف تلمذ بلکہ شرف اجازت و خلافت
بھی حاصل ہے، جو حضرت علیہ الرحمہ نے ۹۶؍ ویں
میں عرس رضوی کے پربہار موقع پر اپنے کاشانہ اقدس میں از خود آپ کو بلا کر علمائے
کرام و مشائخ عظام اور مخصوص حاضرین کی موجودگی میں مسلک اعلی حضرت کی پابندی کی
شرط کے ساتھ عطا فرمائی، نہ صرف خلافت عطا فرمائی بلکہ مستقبل میں خدمت مذہب و
مسلک و مرکز کے حوالے سے حضرت کو آپکی ذات سے بھی توقعات تھیں، ایک موقع پر اپنے نواسے
نبیرۂ حضور امین شریعت حضرت سفیان میاں صاحب سے خود فرمایا تھا کہ ’’ ارسلان پڑھ
لکھ گیا ہے ، اس سے کچھ امید ہے‘‘ ۔ بحمدہ تعالی مرشد اجازت کی امانت و دیانت اور
شرائط کا پورا لحاظ و خیال آپ کی روش و کردار میں موجود ہے اور حضور تاج الشریعہ
قدس سرہ ہی کے نقوش قدم کا اتباع کرتے ہوئے ’’الحب فی اللہ و البغض فی اللہ‘‘کے
جذبہ صادقہ سے سرشار ہو کر خدمت خلق، حمایت مذہب و مسلک، تبلیغ دین و سنیت اور
فروغ سلسلہ میں مشغول و مصروف ہیں۔
شادی
خانہ آبادی:
جس
سال موصوف اپنے مادر علمی دارالعلوم فیض الرسول سے درجہ فضیلت سے فارغ ہوئے اسی
سال قبل دستار بندی ٦ رمضان المبارک ١٤٣٨ہ
مطابق ٢ جون ۲۰۱۷ ء کو آپ کے عم محترم شہزادہ ریحان ملت
حضرت مولانا قاری تسلیم رضا خان صاحب قبلہ کی دختر نیک بخت سے آپ کا عقد مسنون
ہوا، اس نکاح کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ عقد بروز جمعہ مسجد نبوی شریف میں گنبد خضراء
کے سائے میں ہوا، جس نے حضرت مولائے کائنات و خاتون جنت رضی اللہ تعالی عنہما کے
نکاح کی یاد تازہ کرا دی جو مسجد نبوی شریف میں ہوا تھا۔
اولاد
امجاد:
اللہ تعالی نے آپ کو اولاد کی نعمت سے بھی
سرفراز فرمایا ہے، آپ کی دو صاحبزادیاں ہیں، بڑی صاحبزادی "اسوہ فاطمہ"
جن کی عمر ساڑھے تین سال ہے اور چھوٹی صاحبزادی "عروہ فاطمہ" جن کی عمر
٢ سال ہے، اللہ تعالی آپ کو اولاد نرینہ سے بھی سرفراز فرمائے ۔آمین بجاہ سید
المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ و صحبہ وبارک وسلم اجمعین ۔شہزادہ بالا تبار
کے حالات و کوائف زندگی میں، فقیر نے یہ چند سطریں صرف اس نیت سے تحریر کی ہیں کہ
اچھے اور رب قدیر کے نیک بندوں کے حالات زندگی مرتب کرنا بھی سعادت مندی اور نیک
بختی ہے، اللہ پاک ان سطور کو شرف قبول بخشے اور حضور بالا کے صدقے اس فقیر کو بھی
اچھا اور کسی کام کے لائق بنائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وآلہ واصحابہ وبارک وسلم اجمعین ۔
گر
قبول افتد زہے عز و شرف
گدائے
آستانہ رضویہ ۔فقیر محمد طلحہ رضوی منظری غفر لہ
خادم
رضوی دار الافتا، مرکز اہلسنت بریلی شریف
مصادر و مراجع: تذکار گل گلستان رضا از حضرت علامہ مفتی ذو
الفقار صاحب قبلہ نعیمی
حکایت ارسلانی میری زبانی از
حضرت علامہ محمد نور الدین صاحب قبلہ ازہر
مظہرحجۃالاسلام علامہ ارسلان رضا خان
علما و مشائخ کی نظر میں
مولانا
عبد القادر رضوی مصباحی ۔رضوی دار الإفتاءبریلی شریف
مظہر حجۃالاسلام ، حضرت علامہ مفتی محمد ارسلان رضا خان مدظلہالعالی کی ذات
کسی تعارف کی محتاج نہیںاورعندالعلماءآپ کی مقبولیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
آپ کے حوالے سے ہم چند اکابر علماومشائخ کرام کے تاثرات نقل کررہے ہیں ۔ملاحظہ فرمائیں:
حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد اختر
رضا خان قادریازہری جانشین مفتی اعظم ہند علیہماالرحمہ
’’ارسلان پڑھ کر آگیا ہے اور تقریر بھی اچھی کر لیتا ہے ، اب اس سے کچھ
امیدہے۔الخ‘‘ ۔
رئیسالمحققین
حضرت علامہ سید محمد مدنی اشرفی جیلانی مد ظلہ العالی
جانشین
حضور محدث اعظم ہند
’’نبیرہ مفسر اعظم ہند،
عزیز گرامیمولانامحمد ارسلان رضا خان قادریسلمہالباری ابھی جوان ہیں ، ان سے جماعت اہل سنت کو کافی امیدیں وابستہ ہیں
، مجھے قوی امید ہے کہ خانوادہ
رضویہ خصوصاً امام احمد رضا محقق بریلوی کے نقوش و خطوط پر قائم رہ کر
اکابرین اہل سنت کے افکار و نظریات کے فروغ و استحکام اور تبلیغ و اشاعت میں سرگرم اور کوشاں رہیں
گے۔‘‘
شہزادہ احسن العلماء حضرت ڈاکٹر سید امین ملت مد ظلہ
العالی ،
سجادہ نشین خانقاہ برکاتیہ
’’میرےلیےیہ بات باعث مسرت بھی
ہے اور باعث اطمینان بھی کہ دبستانِاعلیٰ
حضرت سے نوجوان صاحبانِ قلم اپنے جد کریم کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئے
علم و تحقیقکے
میدانمیں اپنا اندراج بڑے قابل اعتماد اور
علمی انداز میں کرا رہے ہیں ۔ عزیزممولاناارسلانرضا
خاں سلمہٗ نے دو علمی کارنامے انجام دیے، جن کو دیکھ کر دل خوش ہوا ۔ اصل میں ہماری نوجوان نسل
کو ایسے ہی امتیازی علمی کارنامے انجام دینےچاہئیں جن سے مسلک اعلیٰ حضرت کی تائید صحیح معنیمیں ہو ۔ مجھے یہ جان کر بڑی خوشی ہے
کہ ہماری نئی نسل علمی طور پر بے حد متحرک ، ذہین اور سلیقہ مند طریقے سے مثبت
انداز میں خود کو فعال اور متحرک بنانے کے لیےکمر بستہ ہے ۔ میری دعا ہے کہ ’’ چشم و چراغ خاندان برکات ‘‘ کے دیار سے
ایسی ہی پر نور ضیائیں ، جہالت اور غفلت کی تاریکیوں کو مٹانے کے لیےمنصہ شہود پر آتی رہیں اور امام احمد
رضاعلیہالرحمہ کی علمی وراثت کو شاد و آبادرکھیں ۔نبیرہ مفسر اعظم مولانا ارسلان رضا کو
میری دلیدعائیں اور نیک خواہشات‘‘ ۔
شہزادہ حضور ریحانملت،حضرت مولانا
سبحان رضا خاں سبحانی میاں مد ظلہ
(متولی خانقاہ رضویہ و مہتمم جامعہ رضویہ منظر اسلام ، بریلی شریف)
’’عزیزم مفتی ارسلان رضا خاں سلمہ میرے سگے بھتیجے ہیں ، تعلیم و تعلم اور دینی خدمات کی انجام دہیمیں شب و روز مصروف رہتے ہیں ، کم سنی ہی سے صوم و صلاۃ کے
پابند ہیں ، بچپن ہی سے علوم دینیہ کی تحصیل
کی سچی تڑپ و لگن رکھتے ہیں ، دینی تعلیم کے
ساتھ عصری علوم سے بھی اپنے آپ کو آراستہ کر رکھا ہے ۔ اہل سنت کی عظیم درسگاہ
دار العلوم فیضالرسولبراؤں سے سند فراغت حاصل
کرنے کے بعد جامعہ ازہر مصر میں زیر تعلیم رہے ہیں ۔ تحصیل علم کے ساتھ عملاً دینی
خدمت بھی انجام دے رہے ہیں ۔ فقہ و فتاوی جو
ہمارے خاندان کا طرہ امتیاز ہے اس فن سے بھی خصوصی
دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ان کے ان مشاغل دینیہ اور علوم و
فنون سے ان کی اس خصوصی دلچسپی کو دیکھ کر ہمیں امید ہے کہ مستقل میں یہ ہمارے خانوادہ رضویہ اور مرکز اہل سنت کا خوب نام
روشن کریں گے‘‘
مفکر اسلام
حضرت علامہ قمر الزماں اعظمی صاحب قبلہ
رضوی ،
(جنرل
سیکریٹریورڈ اسلامک مشن انگلینڈ )
’’علم کا ہتھیارخانوادہ رضاعلیہالرحمہ کا کم و بیش سات
نسلوں سے طرہ امتیاز رہا ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک رہے گا
۔ میں نے عرس چہلم آقاے نعمت مرشد گرامی
مفتی اعظم ہند علیہالرحمہ کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا تھا کہ بریلی شریف کا امتیاز اور افتخار علم
اور تفقہ ہے اور اسے قیامت تک باقی رہنا چاہیے ۔ الحمدللہ تاج الشریعہ علامہ اختر
رضا علیہالرحمہ کے بعد انہیں کے گلستان
علم کے گل ِ سرسبد حضرت علامہ ارسلان رضا قبلہ کی دو کتابیں نظر نواز ہوئیں ، مطالعے کے بعد بے پناہ مسرت ہوئی ۔ مولانا ارسلان رضا سے ملاقات کی خواہش
مجھے اس زمانے سےہے جب وہ دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف میں زیر تعلیم تھے۔ اور بعض ذرائع سے یہ معلوم ہوا
کہ وہ انتہائی ذہین ، محنتی اور باکردار طالب علم ہیں اور ان شاء اللہ وہ بریلی شریف میں اپنے عظیم اجداد کی علمی وراثت کا
تاج اپنے سر سجائیں گے اور یہ وراثت اپنی آئندہ نسلوں تک منتقل کریں گے ۔ خداےوحدہٗ قدوس کی بارگاہ میں دعا ہے کہ پروردگار عالم
انہیں اسلاف کے جملہ علوم و معارف کا
بہترین وارث بنائے ۔آمینبجاہِحبیبہ سید المرسلین ﷺ۔
جانشین شعب
الاولیاء، مفکر اسلام ، حضرت علامہ غلام عبد القادر علوی صاحب قبلہ مد ظلہ
صاحبزادہ گرامی قدر مولانا ارسلان رضا کی علمی و تصنیفی جد و
جہد کو دیکھتےہوئےیقین کی حد تک امید ہے کہ موصوف اسلاف کی روش پر چلتے ہوئے اپنے
علمی گھرانے اور مادر علمی کا خوب خوب نام روشن کریں گے۔۔الخ ‘‘۔
خلیفہ حضور
مفتی اعظم ہند ، حضرت علامہ مولانا سید محمد عارف صاحب قبلہ مد ظلہ العالی ، نان
پارہ
’’مجھے یہ دیکھ کر بڑی مسرت ہو
رہی ہے کہ نبیرہاعلیٰ حضرت قابل صد احترام علامہ الشاہ محمد
ارسلان رضا خاں صاحب زیدمجدہ و علمہ و فضلہ و برکاتہ نے
سیدنااعلیٰ حضرت عظیمالبرکت و حضور سیدنا مفتی اعظم و حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ
تعالی علیھم کی مسند افتاپر جلوہ افروز ہوکرمسندِ افتا کو رونق عطا فرمائی ۔ مجھے
بے حد خوشی ہوئی اور اس لیے اور زیادہ خوشی ہوئی کہ اس مبارک خانوادے کی انفرادیت
مسند افتا کی زینت ہے اس اعتبار سے حضرت علامہ الشاہ ارسلان میاں صاحب کا یہ اقدام اپنے آباء و اجداد کے تفقہ
فیالدین کی وراثت کو زندہ و تابندہ کرتاہے ۔ میں
حضرت کو آپ کے اس اقدام پر ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں ۔اور دعا کرتا ہوں کہ حضرت علامہ ارسلان میاں کے ذریعے رضوی فیضان کو عام تام
فرمائے۔اورانہیں افتا کی مہارت و برکت سے
مالا مال فرما ئےاور مالا مال رکھے ۔ مجھے صاحبزادہ موصوف سے اس سے بڑھ کر توقعات
ہیں ‘‘ ۔
سابق مفتی
فیضالرسول حضرت علامہ مفتی محمد مستقیم مصطفویعلیہالرحمہ
’’کافی غور و
فکر کرنے کے بعد میں یہراے قائم کرنے
میں حق بجانب ہوں کہ صاحب زادہ مولانا ارسلان رضاصاحب کو اپنے
آبا و اجداد اور اسلاف کی ذہانت و فطانت اور علمی بصیرت سے وافر حصہ ملا ہے۔۔الخ‘‘
خلیفہ تاج
الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد نظام الدین احمد نوری ، علیہالرحمہ
’’نبیرہاعلیٰ حضرت کا مستقبل ان شاء اللہ نہایت ہی تابناک
ہوگا ، ارباب اہل سنت کو موصوف سے مسلک اعلیٰ حضرت کے اشاعت و خدمت کی بہت زیادہ
امیدیں وابستہ ہیں ۔ خانقاہی شہزادوں کی عام روش سے ہٹ کر آبا و اجداد پر اترانے کے
بجاے خود نہایت محنت اور لگن سے علم دین مصطفوی کا حصول کیا ،دوران تعلیم ان کی
تمام تر توجہ تعلیم ہی پر مرکوز رہی ۔ الغرضشہزادگی کا غرور ان کی تعلیم و تعلم کی
راہ میں حارج نہ ہوسکا ، چناںچہ اب حضرت
مولانا ارسلان رضا خان اضافی اور ذاتی دونوں
خوبیوں سے آراستہہوکر ایک نہایت
کامیاب شخص ہی نہیں بلکہ شخصیت بن کر ابھر
رہے ہیں ‘‘ ۔
شہزادہ و
جانشین بدر ملت ،خلیفہ تاج الشریعہ حضرت علامہ مولانا محمد رابع نورانی صاحب قبلہ
بدری
’’خانوادہاعلیٰ حضرت کے
فرد فرید اور رکن رکین حضرت مولانا ارسلان رضا خان صاحب قبلہ کے متعلق دار العلوم فیضالرسول کی درو دیوار گواہ ہیں کہ انہوں
نے تعلیم و تعلم کے سوا کوئی مشغلہ نہ رکھا ، ایکایک لمحہ کو آئیندہ حیات کے لیے قیمتی سمجھا ، ہمیشہ غیر علمی
کاموں سے دور رہے ، جو کتاب پڑھی بڑی دل
جمعی کے ساتھ پڑھی ، بلکہ ہ اپنے اندر ایسی قوت محسوس کرتے ہیں کہ کسی فن کی کوئیکتاب برجستہ پڑھا دیں ۔ علوم متداولہ پر گہرینظررکھتے ہیں ، اپنے
آبا و اجداد کے سچے وارث و امین ہیں ،خیر خلف
لخیر سلف پر فخر نہیں ، سلف کا کامآگے
پڑھانے کا حوصلہ رکھتے ہیں ، برسوں کا سفر مہینوں میں طے
کیا، دور طالب علمی میں ان کے آبا و
اجداد امام اہل سنت حضور سیدی سرکار اعلیٰ حضرت بریلوی،حضور حجۃالاسلام ، حضور مفتی اعظم ہند ، حضور مفسر اعظم، حضور ریحان ملت
رضی اللہ تعالیعنہم اور حضور تاجالشریعہ کیعالمانہ وجاہت اور فاضلانہ تمکنت ان کے
وجود پر منعکس ہو گئی تھی‘‘
خلیفہ تاج
الشریعہ محقق عصر حضرت علامہ مفتی اختر حسین صاحب قبلہ علیمی
’’صاحب زادہ والاتبار علامہ ارسلان رضا خاں کو رب تعالی نے حسن ایمان و عمل اور حسن صورت و
کردار کا ایک خوشنما گلدستہ ، ذہانت و ذکاوت کا بہترین نمونہ اور خانقاہی
شہزادوں میں متعدد جہتوں
سے ممتاز کیا ہے ۔ خانوادہ رضویہ
میں زیر کی، دانائی اور شعور و آگاہی رب
کائنات کا عظیم عطیہ ہے اور عشق رسالت مآبﷺ ان کی گھٹی میں پلایا گیا ہے مولانا موصوف اپنے آبا و اجداد
کی خوبیوں کے امین نظر آتے ہیں ۔عنفوان شباب میں ہی علمی شباب مستقبل قریب میں امت مسلمہ کو بہت کچھ دینے کی غمازی کر رہا ہے
‘‘ ۔
شہبازدکن ،
خلیفہ مفتی اعظم ہند ، حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجیب علی قادری رضوی صاحب قبلہ
علیہالرحمہ
’’فی زمانہ حضور تاج
الشریعہ کی عربی تصنیف کا بزبان اردو ترجمہ و تشریح حضور ارسلان میاں مد ظلہ نے لکھ کر یہ ثابت کر دیا کہ حضور
اعلیٰحضرت کے علمی کارخانے کا تسلسل تا قیام قیامت جاری و ساری رہے گا۔۔الخ‘‘
مفتی شفیق
احمد شریفی صاحب قبلہ مرکزی قاضی شہر پریاگ راج
’’ خاندان اعلیٰ حضرت
عظیمالبرکت کیکرامتوں کا ظہور ان شا ء
اللہ ہوتا ہیرہےگا اور اس عظیم خاندان میں
کسی نہ کسی کو اپنے اجداد کرام کی علمی و دینی امانت کے تحفظ کے لیے مولیٰ
تعالی پیداکرتا رہے گا، اس کی مثال صاحب العلم و الفضیلۃمخدوم ابن
مخدوم علامہ مفتی ارسلان رضا خان قادریازہری زیدمجدہ ہیں ،خدا کرے موصوف کا علم و
فضل ہم اہل سنت پر باران رحمت بن کر برستا رہے اور مسلک اعلیٰ حضرت کے محافظین اسی
طرح نمودار ہوتے رہیں ، اللہ تعالیٰ موصوف
کو حضور تاج الشریعہ و حضور تحسین ملت علیھماالرحمہ کے علمی فیضان سے سرشار فرمائے
اور مستحکم علمی جواہر پاروں کی تصنیف و
تالیف کیتافیق عطا فرمائے۔آمینبجاہ سید
المرسلینعلیہ و علیٰآلہ افضل الصلوۃ و التسلیم
حضرت علامہ
مولانا مفتی محمد مطیع الرحمن رضوی صاحب قبلہ ، مظفر پوری
’’بلا شبہ عزیز گرامی علامہ
ارسلان رضاخاں ایک بہترین قلم کار ہونے کے
ساتھ میدان خطابت کے کامیاب شہسوار بھی ہیں
، صوم و صلاۃ کی پابندی اور مسجد و جماعت کی حاضری میں نمونہ اسلاف بھی ، ذوق مطالعہ وسیع ، وضع و قطع عالمانہ ، گفتگو میں مٹھاس ، سنجیدگی و متانت ، غیر ضروری باتوں سے
اجتناب ، نہایت شرمیلے ، خاموش مزاج ، خدمت افتا اور تخصص فیالحدیث کے لیے مراجعت کتب کا جذبہ صادقہ ، یہ ہیں ان
کیبارآورمصروفیات ‘‘ ۔
ڈاکٹر مجید
اللہ قادری ( صدر ادارہ تحقیقات امام احمد رضا ، کراچی )
’’حضرت مولانا مفتی محمد ارسلان
رضا قادری بریلویبریلی شریف میں
دارالافتاء کی مسند افتاپر
جلوہ افروز ہیں ، جس
کی بنیادآٹھ پشت پہلے حضرت مولانا مولانا مفتی رضا علی خاںنے (۱۲۴۶ھ؍
۱۸۳۰ء ) میں تقریباً دو صدی قبل رکھی تھی ۔ اب اس خاندان کی نظریں فاضل نوجوان محمد ارسلان رضا خاں قادری بریلوی پر مرکوز ہیں اور یہ امیدیں
کی جا رہی ہیں کہ خاندانِ رضا کے
یہ نوجوان عالم دین جلد فارغ التحصیل ہو کر مستقبل میں بڑے علمی اور قلمی کارنامے انجام دیں گے جس کی ابتدا انہوں نے کر دی ہے۔ امام احمد رضا خاں قادری محدث بریلوی کی پانچویں پشت کے فاضل نوجوان علامہ محمد ارسلان رضا جن
کے قلم میں اپنے جد امجد امام احمد رضا کی
جھلک نمایاں نظر آ رہی ہے ۔۔
ما شاء اللہ ارسلان
میاں بھی اسی خاندان کی ایک عالم فاضل
شخصیت ہیں اور ان دنوں جامعۃالازہر
سے اپنی تعلیم مکمل کر
رہے ہیں ، یقیناً اگلے ۵۰ سال تک اللہ کی ذات
سے امید ہے کہ ارسلان میاں
اس خاندان کے وقار کو بحال رکھیں گے ۔ اللہ تعالی اس فاضل نوجوان کی عمر ، صحت ،
علم و عرفان میں برکتیں عطا فرمائے اور امام احمد رضا کے مشن کو جاری و
ساری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین‘‘۔
خلیفہ مفتی
اعظم حضرت علامہ حسن علی رضوی صاحب قبلہ میلسی پاکستان
’’حضرت صاحب زادہ والا جاہ فاضل
نوجوان حضرت مولانا محمد ارسلان رضا خان صاحب قادری رضویاطال اللہ عمرہ کی تالیف
’’الفردہ ‘‘ قصیدہ بردہ شریف کے ترجمہ و شرح پر مشتمل کتاب
’’ الفردہ فی شرح
الفردۃ ‘‘ کے چند اوراق دیکھنے کا موقعہ ملا مسرور و شاد کام ہوا ، روحانی سرور
وکیف حاصل ہوا ۔ یہ سرکار اعلیٰ حضرت قدس سرہ کی زندہ تابندہ درخشندہ کرامت ہے کہ
آج پانچ چھ نسلوں کے بعد بھیماشاء اللہ
آپ کی اولاد میں عالم و فاضل ہیں اور اسلام و سنیت و علم دین کی درخشاں و نمایاں
خدمات انجام دے رہے ہیں ‘‘ ۔
خلیفہ تاج
الشریعہ حضرت علامہ مولانا مختار احمد قادری صاحب قبلہ
’’یہ صرف میرے لیے ہی نہیں بلکہ تمام اہل سنت کے لیے بہت بڑی خوش خبری ہے
کہ اس خانوادہ میں کئی
صدیوں سے فتوینویسی کا سلسلہ جاری تھا ،
اسے خانوادہ رضا کے اس عظیم شہزادے (حضرت علامہ ارسلان
رضا خان صاحب قبلہ )نے منقطع ہونے نہیں
دیا اور اپنے بزرگوں کی
روایتوں کے امین بن کر مسند افتا پر رونق
افروز ہیں ۔‘‘
شیخ ابو
بکر احمد القادریالملباری ، رئیسالجامعہ مرکز الثقافۃالسنیۃ کالی کٹ کیرالا
’’مجھےیہ جان کر بڑی خوشی ہو رہی ہے کہ عزیزم مولانا محمد ارسلان رضا خان قادریالازہری بن مولانا عثمان رضا خان القادری عرف انجم میاں زیدمجدہالسامی نے اپنے پر دادا اعلیٰ حضرت امام اہل سنت الشاہالمفتی امام احمد رضا خان قادری بریلویرحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات و فتاوید وسعت دینے کے لیے ’’رضوی دار الافتاء‘‘ کی تاسیس (نشاۃجدیدہ)کی ہے ۔ اللہ اسے مقبول عام و خاص بنائے،خدمت علم دین بالخصوص خدمت علم الفقہووالحدیث کی خوب توفیق عطا فرمائے۔