اختر رضا خاں ازہری، تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد
اسمِ
گرامی: محمد اسماعیل رضا۔
عرفیت:
اختر رضا۔
تخلص: اختر۔
لقب: تاج الشریعہ۔
نسب:
تاج الشریعہ حضرت
علامہ مولانا مفتی محمد اختر رضا خاں ازہری بریلوی کا سلسلۂ
نسب اِس طرح ہے:
تاج الشریعہ مفتی
محمد اختر رضا خاں بن مفسراعظم ہند مولانا محمد ابراہیم رضا خاں بن حجۃ الاسلام
مولانا محمد حامد رضا خاں بن شیخ الاسلام اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بن رئیس الاتقیا مولانا نقی
علی خاں بن امام العلما مولانا رضا علی خاں بن مولانا شاہ محمد اعظم خاں بن مولانا
حافظ کاظم علی خاں بن محمد سعادت یار خاں بن شجاعت جنگ سعید اللہ خاں قندھاری۔(مفتی اعظم اوراُن کے خلفاء، ص145)
حضرت تاج الشریعہ مفسرِ اعظم مولانا محمد ابراہیم رضا جیلانی میاںکے صاحبزادے،حجۃ الاسلام مولانا محمد حامد رضا خاں کےپوتے، مفتیِ اعظم
ہند مولانا شاہ مصطفیٰ رضاخاں کے نواسے اور
شیخ الاسلام اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاںکے
پڑپوتے تھے۔
ولادت:
آپ کی تاریخِ ولادت
میں مختلف اقوال ہیں:
·
14؍ ذوالقعدہ 1361ھ مطابق23؍نومبر1942ء، بروزمنگل۔
·
24؍ ذوالقعدہ
1362ھ مطابق 23؍نومبر 1943ء۔
·
25؍محرم الحرام
1362ھ مطابق یکم فروری 1943ء۔
·
25؍ صفر 1361ھ
/1942ء۔
صاحبِ سوانحِ تاج
الشریعہ کے بقول اوّل الذکر راجح ہے۔(سوانحِ تاج الشریعہ، ص18)
تحصیلِ علم:
حضرت تاج الشریعہ کی عمر شریف جب 4 ؍سال، 4؍ماہ اور 4؍ دن ہوئی تو آپ کے والدِ ماجد مفسر اعظم ہند مولانا ابراہیم رضا خاں
جیلانی نے تقریب
بِسْمِ اللہ خوانی منعقد فرمائی۔اِس تقریبِ سعید میں
دارالعلوم منظر الاسلام کے تمام طلبہ کو دعوت دی گئی۔رسم بِسْمِ اللہ
ناناجان حضرت مفتیِ اعظم ہند نے
کرائی۔قرآنِ مجید والدۂ ماجدہ سے گھر پر مکمل کیا۔ والدِ ماجد سے ابتدائی اردو کتب پڑھیں، اس کے بعد والدِ
ماجد نے دارالعلوم منظرِ اسلام میں داخل کرادیا۔ درسِ نظامی کی تکمیل دارالعلوم
منظر ِ اسلام سےکی۔ تاج الشریعہ بچپن ہی سے ذہانت و فطانت اور قوتِ حافظہ کے مالک
، اور عربی ادب کے دل دادہ تھے۔ درسِ نظامی کی تکمیل کےبعد 1963ءمیں جامعۃ الازہر
قاہرہ تشریف لے گئے۔وہاں آپ نے ’’کلیۃ اصول الدین‘‘ میں داخلہ لیااور مسلسل تین
سال تک جامعۃ الازہر مصر میں فن تفسیر و حدیث کے ماہر اساتذہ سے اکتسابِ علم کیا۔ جامعہ
ازہر مصر میں داخلے کے بعد جب آپ کی جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ سے گفتگو ہوتی تو وہ
آپ کی بے تکلف فصیح وبلیغ عربی سن کرمحوِ حیرت ہوجاتے اور کہتے کہ ایک عجمی النسل
ہندوستانی عربی النسل اہلِ علم حضرات سے
گفتگو کرنے میں کوئی تکلّف محسوس نہیں کرتا۔ حضرت تاج الشریعہ 1966ء /1386ھ کو
جامعۃ الازہر سے فارغ ہوئے۔جامعۃ الازہر میں پہلی
پوزیشن حاصل کرنے پر ’’جامعۃ الازہرایوارڈ‘‘سے نوازے گئے۔آپ تمام علوم
ِقدیمہ اور جدیدہ پر مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔قراءاتِ عشرہ کےماہر تھے،بالخصوص جب
مصری لہجے میں تلاوت فرماتےتو سامعین جھوم جھاتے،حضرت تاج الشریعہ کو چھتیس علوم پر
مہارت، اور عربی، اردو، فارسی، اور انگلش زبانوں پرمکمل عبور حاصل تھا۔ان کے علاوہ،
علاقائی زبانوں میں بھی بات چیت فرمایا
کرتےتھے۔آپ کے اساتذہ میں قابلِ ذکر اساتذۂ کرام یہ ہیں: مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ
رضا خاں،بحر العلوم مفتی سیّد محمد افضل حسین مونگیری، مفسر اعظم ہند مولانا محمد
ابراہیم رضا خاں جیلانی،فضیلۃالشیخ علامہ محمد سماحی، شیخ الحدیث والتفسیر جامعہ
ازہر حضرت علامہ محمود عبدالغفار، استاذ الحدیث جامعہ ازہر ، ریحانِ ملّت مولانا
محمد ریحان رضا خاں رحمانی میاں،استاذ الاساتذہ مولانا مفتی محمد احمد عرف جہانگیر
خاں اعظمی۔(مفتیِ اعظم ہند اور آپ کے خلفاء،
ص150)
بیعت و خلافت:
حضور تاج الشریعہ کو بیعت و خلافت کا شرف سرکارمفتیِ اعظم سے حاصل ہے۔ حضرت مُفتیِ اعظم
ہندنے بچپن میں آپ کو بیعت کاشرف عطا فرمادیا
تھا، اور صرف 19؍ سال کی عمر میں 15؍جنوری 1962ء/1381ھ کو تمام سلاسل کی اجازت و
خلافت سے نوازا۔ علاوہ ازیں خلیفۂ اعلیٰ حضرت برہانِ ملّت مفتی برہان الحق جبل
پوری، سیّد العلماء شاہ آلِ مصطفیٰ برکاتی، احسن العلماء سیّد حیدر حسن میاں برکاتی، والدِ ماجدمفسر اعظم مفتی ابراہیم رضاخاں سے جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت حاصل تھی۔(مفتیِ اعظم ہند اور آپ کے خلفاء، ص160)
حضور تاج الشریعہ پر بچپن میں آثارِسعادت و ولایت ظاہر تھے۔یہی وجہ
ہے کہ مفتی اعظم کو آپ کے بچپن سے ہی بے
انتہاتوقعات وابستہ تھیں، جس کااندازہ آپ کےان ارشادات عالیہ سےلگایا جاسکتاہےجو
مختلف مواقع پر آپ نے ارشاد فرمائے:
’’اس لڑکے(حضرت تاج
الشریعہ) سے بہت امید ہے۔‘‘(تذکرہ تاج الشریعہ،
ص4)
سیرت
و خصائص:
سراج المفسرین،
فخر المحدثین، زبدۃ العارفین، فقیہ الاسلام، تاج الاسلام، نبیرۂ اعلیٰ حضرت،
وارثِ علوم ِ مجددِ دین و ملّت، مظہر حجۃ الاسلام، شہزداۂ مفسرِ اعظم، جانشینِ مفتیِ اعظم،قاضی
القضاۃ فی الہند، شیخ العربِ والعجم، تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا
خاں قادری ازہری محدث بریلوی اہلِ سنّت
وجماعت کے ممتاز ترین صاحبِ علم و بصیرت، اورباقیاتِ صالحین میں سے ایک تھے۔آپ
حقیقتاً امامِ اہلِ سنّت شیخ الاسلام اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاںکے خلفِ صادق، جانشینِ کامل،حجۃ الاسلام کے عکسِ جمیل،
مفتیِ اعظم
ہند اور مفسر اعظم ہند کے علوم و معارف کے وارثِ اکمل تھے۔ ذکاوتِ طبع اور قوتِ
اتقان، وسعتِ مطالعہ میں اپنی مثال آپ تھے۔ درس و تدریس، فقہ و افتاء، قراءت و
تجوید، منطق و فلسفہ، ریاضی، علم جفر و تکسیر،اور علم ہیئت و توقیت میں یدِ طولیٰ
رکھتے تھے۔
مفتی
عبدالرحیم بستوی فرماتے ہیں:
’’سب ہی (خاندانی)
حضرات ِ گرامی کے کمالات ِ علمی و عملی سے آپ کو گراں قدر حصہ ملاہے۔فہم و ذکا،
قوتِ حافظہ و تقویٰ سیّدی اعلیٰ حضرت سے، جودتِ طبع و مہارتِ تامّہ (عربی ادب)
حضور حجۃ الاسلام سے، فقہ میں تبحر و اصابت سرکار مفتی اعظم ہند سے،قوتِ خطابت و
بیان والدِ ذی وقار مفسر اعظم ہند سے۔یعنی وہ تمام خوبیاں آپ کو وراثتاً حاصل ہیں
جن کی رہبرِ شریعت و طریقت کو ضرورت ہوتی ہے۔(سوانح
تاج الشریعہ)
آپ
کثیر کتب کے مصنّف تھے۔فنی موضوعات پر علمی
زبان استعمال کرتے، لیکن اس کے باوجود آپ کی تحریرات سےثقالت و اکتاہٹ پیدا نہیں
ہوتی،آپ ہر موضوع پر ادیبانہ اُسلوب اختیار کرنے پر قدرت رکھتے تھے۔آپ کی تحریروں
میں سلاست و روانی،ایجاز و اختصار،تشبیہات و استعارات، فصاحت و بلاغت، پائی جاتی
ہے؛بالخصوص فقہ و افتاء میں خصوصی مہارت حاصل تھی،فقہی جزئیات ،اور علمی استدلال میں
اعلیٰ حضرت امام اہل سنّت کی جھلک
پائی جاتی تھی۔آپ کے فتاوٰی علم کے خزینے،
اور مجتہدانہ بصیرت کے حامل ہیں۔اسی طرح آپ کو
عربی، فارسی،اردو، ہندی،ادب پر دسترس حاصل تھی۔اعلیٰ حضرت کی طرح جس زبان میں
سوال کیا جاتا تھا، اسی میں جواب دیتے تھے ۔ آپ کی
تدریسی اور بحیثیت مفتی دارالافتاء منظر اسلام میں اکیاون (51) سالہ خدمات ہیں،جس
میں دنیا بھر سے ہزاروں فتاوٰی جات کے جوابات، مختلف موضوعات اور مختلف زبانوں پر
علمی تحریرات اس کے علاوہ ہیں۔
یہ
سب مفتی اعظم ہند کا فیضان تھا، حضرت مفتی
اعظم نے دارالافتاء کی عظیم ذمّے داری آپ کوسونپتے ہوئے ارشاد فرمایاتھا:
’’اختر میاں! اب گھر میں بیٹھنے کا وقت نہیں، یہ لوگ جن کی
بھیڑ لگی ہوئی ہے، کبھی سکون سے نہیں بیٹھنے دیتے، اب تم اس کام کوانجام دو، میں
تمھارے سپرد کرتاہوں۔‘‘
پھر لوگوں سے
مخاطب ہوکرفرمایا:
’’آپ لوگ اب اخترمیاں
سَلَّمَہٗ سےرجوع کریں، انہیں کو میراقائم مقام اور جانشیں جانیں۔‘‘
تاج الشریعہ نے اس مسند افتاء کاایسا حق اداکیا کہ اعلیٰ حضرت
مجددِ اسلام اور مفتی اعظم ہند کی یاد تازہ
ہوگئی، اور دنیامیں ’’تاج الشریعہ‘‘ کےلقب سے ملقب ہوئے، اوریہ لقب ایسا سجا کہ
جیسے اعلیٰ حضرت سنتے ہی ذہن فوراً امام
احمد رضا خاں کی طرف منتقل ہوجاتا ہے،اسی طرح ’’تاج الشریعہ‘‘
سے ذہن مفتی اختررضاخاں کی طرف منتقل ہوجاتا
ہے۔ اللہ جَلَّ
شَانُہٗ
نے
آپ کوذوقِ سخن سے بھی وافر حصّہ عطا فرمایاتھا۔عربی، فارسی، اور اردو تینوں زبانوں
میں آپ کی نعتیہ شاعری موجود ہے۔آپ کا مجموعۂ کلام ’’سفینۂ بخشش‘‘ کے نام سے متعدد
بار شائع ہوکر اَرباب ِ سخن سے دادِ تحسین حاصل کرچکا ہے۔جہاں آپ کے نثری شہ پارے
ادبی حیثیت کے حامل ہیں،وہیں آپ کی شاعری بھی آپ کی قادر الکلامی پر شاہد و عادل
ہے۔
اللہ
ربّ العزّت نے جانشینِ مفتیِ اعظم رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو جن گوناگوں صفات سے متصف کیا تھا، اُن صفات میں
سے ایک حق گوئی اور بے باکی بھی ہے۔ آپ نے کبھی بھی صداقت و حقانیت کا دامن ہاتھ
سے نہیں چھوڑا۔ چاہے کتنے ہی مصلحت کے تقاضے کیوں نہ ہوں، چاہے کتنے ہی قیدو بند،
مصائب وآلام اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہننا پڑیں کبھی کسی کو خوش کرنے کے لیے اس
کی منشا کے مطابق فتویٰ تحریر نہیں فرمایا۔ جب کبھی کوئی فتویٰ تحریر فرمایا تو
اپنے اَسلاف، اپنے آبا و اَجداد کے قدم بَہ قدم ہوکرتحریر فرمایا۔ جس طرح جدِّ امجد امام احمد رضا فاضل بریلوی اور مفتی اعظم
مولانا مصطفیٰ رضا نوری نے بے خوف و خطر فتاوٰی تحریر فرمائےاُسی طرح اپنے اَجداد
کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جانشینِ مفتیِ اعظم نظر آتے ہیں۔ اِس حق گوئی کے شواہد آج آپ
کے ہزاروں فتاوٰی ہیں جو ملک اور بیرونِ ملک میں پھیلےہوئے ہیں۔
اسی
طرح تصلّب فی الدین اور مسلکِ اعلیٰ حضرت، اور تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھے۔آپ پوری دنیا میں تبلیغی دورے فرماتے تھے، لیکن صلح کلیت کے بالکل خلاف تھے۔امّت ِ مسلمہ کی زبوں
حالی،اور بابری مسجد کی شہادت و پامالی پر لوگوں نے آنسو بہاتے دیکھا،اور اسی طرح
مسلمانانِ ہند پر ہنود کےمظالم پر کبھی خاموش نہ رہے،ساری زندگی حق کی آواز بلند
فرماتے رہے۔ہمیشہ حق کاساتھ دیا۔اس میں اپنے پرائے کی کبھی پرواہ نہ کی۔اس آواز کو منصب و عہدے کا لالچ دےکر
خاموش کرنے کی کوشش کی گئی،تو آپ نے اپنے جدِّ امجد کی آواز میں یہ جواب دیا:
؏: میں گدا ہوں اپنے
کریم کا مِرا
دین پارۂ ناں نہیں
یہ
آپ ہی تھے کہ 1995ء میں وزیرِ اعظم ہند7؍گھنٹے بریلی سرکٹ ہاؤس میں آپ کا انتظار
کرتا رہا،اور اُس کا سیکرٹری باربار حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا، لیکن حضرت نے یہ کہہ کر ملاقات سے صاف انکار کردیا:
’’میں ایسے شخص سے
ملاقات نہیں کرسکتا، جس کے ہاتھ بابری مسجد کی شہادت میں ملوث ہیں۔‘‘(سوانح تاج الشریعہ، ص 72)
اہلِ سنّت وجماعت
کی موجودہ صورتِ حال جس میں بالعموم پاک وہند کے سنّی علمائے کرام کا پوری دنیا کے سنّی علما و شیوخ سےکوئی
ربط و تعلق نہیں ہے۔ جب کہ بدمذہبوں نے پوری دنیا کے حنفی اور صوفیا کو اپنی عیاری
اور چالاکی سے متوجہ کیا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک کے علما و صوفیا کی نظر
میں ہماری کوئی ایسی شخصیت نہیں ہے، جن کا
علمی، یا ویسے ہی کسی لحاظ سے ان کے ہاں کوئی تعارف موجود ہو۔یہ حضرت تاج الشریعہ کی ذاتِ گرامی تھی کہ جن کا عرب اور مسلم دنیا میں ایک خاص مقام
تھا۔عرب کے جیّد علما و صوفیا اعلیٰ حضرت
امام احمد رضاخاں کی نسبت اور آپ کی علمی
قابلیت و صلاحیت کی بناء پر قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔عرب دنیاکے سوشل و
الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پرحضرت کےوصال کی خبرایسے ہی شائع ہوئی جس طرح پاک و ہند
میں ہوئی۔بڑے بڑے شیوخ نے تعزیتی کلمات کےساتھ لواحقین سے اظہارِ تعزیت فرمایا،جب
کہ ایصالِ ثواب کا سلسلہ پوری دنیا میں ہوتا رہا۔حضرت تاج الشریعہ نے فیضانِ علوم و معارفِ اعلیٰ حضرت کو پوری دنیامیں عام کیا۔آپ کےحلقۂ ارادت میں
ہرطبقۂ فکرکےلوگ پوری دنیامیں لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔
وصال پر ملال:
7؍ ذوالقعدہ 1439ھ
مطابق 20؍ جولائی 2018ء، بروز جمعۃ المبارک؛ بوقتِ اذانِ مغرب،واصل باللہ ہوئے۔
تدفین:
حضور تاج الشریعہ ازہری گیسٹ ہاؤس بریلی شریف(ہند) میں ابدی آرام
فرماہیں۔
قطعۂ
تاریخِ وصال
کلام: ندیم احمد
نؔدیم نورانی
جہاں میں بٹ رہا ہے فیضِ اختر
رہیں اختر رضا، جنّت کے اندر
’’چلے
فردوس کو تاج الشریعہ‘‘ (۱۴۳۹ھ)
مآخذ و مراجع:
مفتی اعظم اوراُن کے خلفا۔
سوانح تاج الشریعہ۔
تذکرۂ تاج الشریعہ۔