حضرت مولانا غلام قادر اشرفی، لالہ موسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مولانا غلام قادر اشرفی بن میاں باغ علی چشتی، ۱۴؍ محرم الحرام ۱۳۲۳ھ مطابق ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۶ میں فرید کوٹ (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد میاں باغ علی چشتی کو حضرت میاں محمد شاہ چشتی بستی نو (ضلع ہوشیار پور) سے شرفِ بیعت حاصل تھا۔
ابھی آپ کا عہدِ طفولیّت ہی تھا کہ والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ۱۹۱۱ء میں سکول میں داخل ہوئے اور ۱۹۲۲ء میں امتیازی حیثیت سے میڑک کرنے کے بعد کالج میں داخلہ لے لیا مگر طبیعت مائل نہ ہوئی۔
کالج کی فضا سے نکلے اور دینی درس گاہ سے منسلک ہوگئے مذہبی تعلیم حاصل کرنا شروع کردی اور مختلف اساتذہ سے اکتساب کرنے کے بعد سندِ فراغت جامعہ نعیمیہ مراد آباد (یوپی) سے حاصل کی۔
آپ نے جن اساتذہ کے سامنے زانوائے تلّمذ طے کیا، ان کے اسماء گرامی یہ ہیں:
۱۔ حضرت مولانا محمد سعید شبلی فرید کوٹی
۲۔ مفتی اعظم محمد مظہر اللہ خطیب و امام جامع مسجد فتح پوری دہلی (والد ماجد جناب پروفیسر مسعود احمد صاحب)
۳۔ حضرت مولانا سیّد غلام قطب الدین برہمچاری، اشرفی سہسوانی
۴۔ حضرت مولانا محمد یٰسین صاحب برہمچاری
۵۔ حضرت بابا خلیل داس ایم اے (سنسکرت) چترویدی
۶۔ حضرت مولانا عبد العزیز فتح پوری
۷۔ حضرت صدر الافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ
آپ نے مدرسہ حلقہ اشاعت الحق گشتی (مراد آباد) کا تبلیغی کورس بھی مکمل کیا، جس میں ہندی، بھاشا اور سنسکرت کی تعلیم حاصل کی، اس کے علاوہ گور مکھی اور گیانی پر بھی عبور حاصل کیا۔
دورانِ طالب علمی مراد آباد کی سنی کانفرس (منعقدہ مارچ ۱۹۲۵ء) میں ایک رضا کار کی حیثیت سے حصّہ لیا۔ اس وقت ہندو اسلام کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کر رہے تھے کہیں فتنہ ارتداد برپا تھا، تو کہیں قتل و غارت کا بازار گرم تھا۔ چنانچہ ان فتنوں کے سدِّ باب کے لیے یہ کانفرس منعقد ہوئی اور اس میں مشاہیر مشائخ و علماء اہل سنت نے شرکت کی۔
تحصیلِ علم کے بعد آپ نے ۲۸۔۱۹۲۶ء (تین سال) تک مکتسر ضلع فیروز پور میں تدریس و خطابت کے فرائض سر انجام دیے اور ساتھ ہی نواب شاہ نواز ممدوٹ کی ہدایت پر سیاسی تحریکوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔
شدھی تحریک میں آپ نے اپنے استاذ محترم حضرت مولانا برہمچاری رحمہ اللہ کے ساتھ بھر پور حصہ لیا اور مختلف بھیس بدل کر مثلاً معالج حیوانات، وید حکیم، گانے والی پارٹیوں اور سادھؤوں کی پارٹی وغیرہ بناکر شدھی تحریک کو کیفر کردار تک پہنچایا اس طرح آپ نے لاکھوں مسلمانوں کو مرتد ہونے سے بچالیا۔
۱۹۶۵ء میں آپ نے سیاست میں مکمل طور پر دلچسپی لینا شروع کردی۔ ضلع فیروز پور میں خطابت کے دوران نواب شاہ نواز ممدوٹ کی نگرانی میں مسلم لیگ کے نصب العین اور سائمن کمیشن کے بائیکاٹ کے سلسلے میں کام کرتے رہے۔ شاردا ایکٹ کو ناکام بنانے کے لیےبھی علماء و مشائخ کے شانہ بشانہ کام کیا۔
۱۹۲۹ء میں مولانا نے عملی طور پر سیاست میں حصہ لیا مغلپورہ ایجی ٹیشن میں بھر پور کام کیا ۱۹۳۱ء میں تحریکِ کشمیر میں اور ۱۹۳۲ء میں جب مسلمانانِ ریاست الور ریاستی مظالم کی تاب نہ لاکر اجمیر شریف، پھرت پور، گوڈ گانواں اور دہلی کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے تو آپ حضرت سیّد غلام بھیک نیرنگ انبالوی رحمہ اللہ (آپ کے پیر بھائی) سیکرٹری جنرل انجمن تبلیغ الاسلام کے زیرِ کمان کام کرتےرہے۔
۱۹۳۳ء میں تحریکِ قادیان اور ۱۹۳۵ء میں تحریک مسجد شہید گنج میں بھر پور حصہ لیا۔ ۱۹۳۵ء ہی میں ملک برکت علی بیرسٹر لاہور (مشہور لیگی لیڈر) کے حلقہ انتخاب قصور میں کام کرتے رہے اور ملک صاحب بفضلِ خدا کامیاب ہوئے۔
۱۹۳۸ء میں لالہ موسیٰ ضلع گجرات کے اسلامیہ ہائی سکول میں مدرّس مقرر ہوئے اور پھر مستقل طور پر یہیں رہائش اختیار کرلی اور اب تک مذہب و ملّت کی خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔
۱۹۳۸ء ہی میں تحریک آریہ سماج جو نظام حیدر آباد کے خلاف جتھہ بندی کی صورت میں چلائی گئی تھی، کے انسداد کے لیے کافی خدمات سر انجام دیں اور یومِ نظام منایا گیا۔
۱۹۳۹ء میں قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ہدایت پریومِ نجات منایا گیا، تو مولانا نے بھی مجلسِ تبلیغ الاسلام لالہ موسیٰ کے زیرِ اہتمام یہ دن منایا آپ بھر پور کوشش کر کے ضلع بھر میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں لائے اور جابجا اس کی شاخیں قائم کیں۔
۱۹۴۰ء میں خضر و زارت میں مسلم لیگ کی سول نافرمانی کی تحریک میں حصّہ لیا اور قراردادِ پاکستان کے بعد مسلم لیگ کی پبلسٹی کے لیے زندگی وقف کردی حکیم سردار خان جو اس وقت مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے۔ ان کے ساتھ مولانا ضلع بھر کا دورہ کرتے رہے اور انتخابات کے دوران ضلع بھر کے اہم مقامات پر سر فیروز خان نون اور سردار شوکت حیات خان کی معیّت میں دورہ کیا مسلم لیگ کا سبز پرچم لہراتے ہوئے صبح سے لے کر رات گئے تک گلی کوچوں میں پھرتے تھے۔
۱۹۴۵ء میں آپ نے ملک فیروز خان نون اور سردار شوکت حیات کے ساتھ مسلم لیگی امیدواروں کے لیے شب و روز کام کیا اور اسی سال مسلم لیگیوں کی طرف سے قائدِ اعظم کو مسلم لیگ کی طرف سے تھیلی پیش کی۔[۱]
[۱۔ دلچسپ تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے ’’اکابرِ تحریکِ پاکستان‘‘ مرتبہ محمد صادق قصوری ص ۱۷۹۔]
ان مجاہدانہ سرگرمیوں کی بناء پر آپ نے مختلف اوقات میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، مجموعی طور پر آپ نے ملک و ملت کے لیے تقریباً چار سال کا عرصہ جیلوں میں گزارا، مگر آپ کے عزم و حوصلے اور ولولے میں ذرّہ بھر کمی واقع نہیں ہوئی۔
۱۹۴۶ء میں علماء اہل سنت نے بنارس میں آل انڈیا سنّی کانفرنس منعقد کی جس میں ملک کے کونے کونے سے مشائخ و علماء کا جمِّ غفیر شریک ہوا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان سنیّوں نے بنانا ہے اور وہ پاکستان بنا کر رہیں گے۔ چنانچہ اس موقع پر حضرت محدّث کچھوچھوی سید محمد اشرفی جیلانی (صدر آل انڈیا سنّی کانفرنس) نے خطبہ صدارت ارشاد فرمایا جس کا ایک اقتباس مندرجہ ذیل ہے:
’’حضرات! میں نے بار بار پاکستان کا نام لیا ہے اور آخر میں صاف کہہ دیا ہے کہ پاکستان بنانا صرف سنیّوں کا کام ہے اور پاکستان کی تعمیر آل انڈیا سنّی کانفرنس کرے گی اس میں کوئی بات بھی نہ مبالغہ ہے نہ شاعری ہے اور نہ سنّی کانفرنس سے غلو کی بناء پر ہے پاکستان کا نام بار بار لینا جس قدر ناپاکوں کو باعثِ چٹر ہے اسی قدر پاکوں کا وظیفہ ہے اور اپنا اپنا وظیفہ کون سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے پورا نہیں کرتا‘‘۔[۱]
[۱۔ الخطبتہ الاشرفیہ للجمہوریہ الاسلامیہ بحوالہ اکابر تحریکِ پاکستان ص ۲۲۱۔]
[۲۔ محمد صادق قصوری: اکابر تحریکِ پاکستان، ص ۱۷۶تا ۱۸۱۔]
اس کانفرنس میں حضرت مولانا غلام قادر اشرفی اپنے ساتھیوں سمیت شریک ہوئے۔جب پاکستان معرض وجود میں آگیا، تو آپ نے زیادہ تر توجہ مذہبی امور کی طرف مبذول کردی، تاہم سیاسی تحریکات سے دلچسپی میں کوئی فرق نہ آیا۔ ۱۹۵۳ء میں تحریک ختمِ نبوّت میں حصہ لیا۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں جمعیت علماء پاکستان کے شانہ بشانہ کام کیا۔ تحریکِ نظامِ مصطفےٰ میں قید و بند کی صعوبتیں بھی اس پیرانہ سالی میں برداشت کیں۔