عطاء المصطفیٰ اعظمی، علامہ مفتی محمد
نام: محمد عطاء المصطفیٰ
نسب:
محمد عطاء المصطفیٰ بن ضیاء المصطفیٰ بن امجد علی اعظمی بن جمال الدین
والدِ ماجد:
محدثِ کبیر حضرت علامہ مفتی محمد ضیاء المصطفیٰ اعظمی دامت برکاتھم العالیۃ
جدِّ امجد (دادا حضور):
خلیفۂ اعلیٰ حضرت صاحبِ ’’بہارِشریعت‘‘ صدرالشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی
خاندانی ماحول:
آپ کے آبا و اَجداد، علما؛ بلکہ علما گر ہیں۔ آپ مفتی ابنِ مفتی ابنِ مفتی ہیں۔ آپ کا خاندان ابتدا ہی سے مذہبِ حق اہلِ سنّت وجماعت کا پاسبان رہاہے۔
تاریخِ پیدائش:
۱۴؍ رجب المرجب ۱۳۸۴ھ مطابق نومبر ۱۹۶۴ء
مقامِ ولادت:
بڑا گاؤں ،مدینۃ العلماء گھوسی، ضلع مئو سابق اعظم گڑھ(انڈیا)
حصولِ عِلم:
ناظرہ قرآنِ مجید اور اُردو فارسی قاعدے کی تعلیم قادری منزل میں اپنی دادی محترمہ سے حاصل کی۔ ۱۳۹۴ھ مطابق ۱۹۷۴ء میں شمس العلوم گھوسی میں درسِ نظامی کی ابتداء کی۔ یہاں، آپ کے اساتذۂ کرام میں مولانا سیف الدین اور مولانا محمد عاصم اعظمی قابلِ ذکر ہیں۔ شمس العلوم میں ایک برس پڑھتے رہے اس کے بعد ۱۳۹۵ھ مطابق ۱۹۷۵ء میں مصباح العلوم جامعہ اشرفیہ میں داخلہ لیا، جہاں آپ ایک سال حافظِ ملّت حضرت علامہ مفتی محمد عبدالعزیز مبارکپوری کی پاکیزہ صحبت سے سرفراز رہے۔ والدِ گرامی حضور محدثِ کبیر مدظلہ العالی کے حکم پر آپ حضور حافظِ ملّت کے گھر کا سودا سلف لاتے ،حضور حافظِ ملّت آپ پر انتہائی شفقت وکرم نوازی فرماتے اور تربیت کرتے۔ گویا آپ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ہوتی رہی۔ مصباح العلوم الجامعۃ اشرفیہ میں آپ کے اساتذۂ کرام میں والدِ گرامی حضور محدثِ کبیر مدظلہ العالی، علامہ نصیر الدین صاحب ، بحرالعلوم حضرت علامہ مفتی عبدالمنان اعظمی، علامہ عبدالشکور گیاوی، علامہ اسرارالحق مبارک پوری، علامہ عبداللہ خان عزیزی، قاری محمد عثمان گھوسوی، علامہ اعجاز مبارک پوری، علامہ یاسین اختر مصباحی ، مولانا افتخار گھوسوی، مولانا محمد شفیع اعظمی قابلِ ذکر ہیں۔ درسِ نظامی کی تعلیم سے سندِ فراغت ۱۴۰۳ھ مطابق ۱۹۸۳ء، انیس (۱۹) سال کی عمر میں حاصل کی۔ آپ کی دستاربندی جیّد علما اور والدِ ماجد نے فرمائی۔
فن قراءت :
فن قرأت کی تعلیم جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں قاری ابوالحسن سے اٹھارہ(۱۸)سال کی عمر میں مکمل کرکے یکم جمادی الآخرہ ۱۴۰۲ھ مطابق ۲۸؍مارچ ۱۹۸۲ء کو سندِ قراءت عاصم بروایت ِحفص حاصل کی۔ اس کے بعد حضرت قاری محمد عثمان گھوسوی سے قراءتِ سبعہ میں شاطبیہ اور اس کی عربی شرح وغیرہما سبقاً سبقاً پڑھی اور سندِ فراغت ۱۴۰۳ھ مطابق ۱۹۸۳ء انیس (۱۹) سال کی عمر میں حاصل کی۔
فتویٰ نویسی:
ضلع بستی جمدا شاہی دارالعلوم علیمیہ میں ۱۹؍ ستمبر ۱۹۸۴ء کو بیس (۲۰) سال کی عمر میں پہلا فتویٰ گونگے کے نکاح کے بارے میں دیا اور اپنے والدِ ماجد سے فتویٰ نویسی کی تربیت لیتے رہے۔ پھر پاکستان تشریف آوری کے بعد ۱۹۸۵ء تا ۱۹۹۳ء رئیس دارافتاء دارالعلوم امجدیہ حضرت علامہ مفتی محمد وقار الدین قادری کی زیرِ نگرانی باقاعدہ فتویٰ نویسی کرتے رہے اور ساتھ ہی تدریس کے فرائض انجام دہتے رہے۔ حضرت علامہ مفتی محمد وقارالدین کے وصال شریف کے بعد ۱۹۹۳ء تا ۲۰۰۳ء دارالعلوم امجدیہ میں منصب افتاء پر قائم رہے اور بے شمار فتاوٰی جات صادر کرکے قوم وملّت کی رہنمائی کرتے رہے۔ ۲۰۰۳ء تاحیات رئیس امجدی دارافتاء کی حیثیت سے دارالعلوم صادق الاسلام ۴۸۳/۱۰، لیاقت آباد کراچی میں فائز رہے۔ آپ کے فتاوٰی جات کی ترتیب کا کام بھی جاری ہے۔
اَسناد :
الٰہ آباد بورڈ سے غالباً ۱۹۷۹ء میں سیکنڈ ڈویژن سے عالم کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۸۲ء میں فاضل عربی فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا۔ ۱۹۸۳ء میں درسِ نظامی سے فراغت اور سندِ اجازۃ الحدیث حاصل کی۔
شرفِ بیعت :
۱۷؍ ربیع النور ۱۳۹۶ء مطابق ۱۹؍ مارچ ۱۹۷۶ءکو، حضور مُفتیِ اعظم ہندحضرت علامہ مولانا مصطفیٰ رضاخاں بریلوی کے دستِ حق پرست پر بیعت سے مشرف ہوئے۔
خلافت :
۱۸؍ ذو الحجہ ۱۴۰۹ھ کو نبیرۂ اعلیٰ حضرت تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا خاں بریلوی ازہری نے حضرت مولانا شوکت حسن خاں رضویکے دولت خانے پر عطا فرمائی اور ۳؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۱۰ھ کو، آپ کے والدِ ماجد حضور محدثِ کبیر مفتی ضیاء المصطفیٰ اعظمی دامت برکاتھم العالیۃ نے بھی خلافت سے سرفراز کیا۔
اجازتِ حدیث:
· محدثِ کبیر مفتی ضیاء المصطفیٰ اعظمی مدظلہ العالی
· تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خاں قادری بریلوی ازہری
· شہزادۂ صدرالشریعہشیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری
· بحرالعلوم علامہ عبدالمنان اعظمی
· مُفتیِ اعظم پاکستان علامہ مفتی محمد وقار الدین قادری رضوی
درس وتدریس:
تدریس کا سلسلۂ آغاز سب سے پہلے دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی سے کیا، ایک سال تک وہیں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ اس کے بعد ستمبر ۱۹۸۵ء تا ۱۵ جنوری ۲۰۱۱ء دارالعلوم امجدیہ عالمگیر روڈ کراچی میں چھبیس (۲۶) سال تک اپنے علمی جواہر پارے بکھیرتے رہے اور ایک عالم آپ کے فیضان سے فیض یاب ہوتا رہا ۔ آپ کی مصروفیت کا عالم یہ تھا کہ صبح میں دارالعلوم امجدیہ میں منصبِ افتا وتدریس پر فائز تھے۔ خواتین میں علمِ دین کی اشاعت وترویج کے لیے ایک طویل عرصے تک دن میں اپنے گھر میں اپنی زوجۂ محترمہ کے ساتھ طالبات کو بھی درسِ نظامی کی تعلیم دیتے رہے اور سیکڑوں کو فارغ التحصیل بناکر مسندِ تدریس پر فائز کیا اور ۲۰۰۳ء سے رات میں دارالعلوم صادق الاسلام ۴۸۳/۱۰، لیاقت آباد، کراچی میں درسِ نظامی کی ابتدائی کلاس کا باقاعدہ آغاز کیا۔ آپ ہی تدریس فرماتے رہے، ہر سال ایک ایک درجے کا اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ اسی دارالعلوم صادق الاسلام میں آپ شیخ الحدیث کی حیثیت سے دورۂ حدیث کی تکمیل بھی فرمانے لگے۔ دارالعلوم صادق الاسلام میں اساتذۂ کرام کا انتخاب دارالعلوم کے محنتی اور ذہین طلبہ میں سے کیا جاتا ہے۔ آپ کے علمی لگاؤ کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ دارالعلوم صادق الاسلام ۴۸۳/۱۰، لیاقت آباد، دارالعلوم صادق الاسلام ۵۷۱/۵، لیاقت آباد،کراچی میں صبح ۸تا ۱ بجے دن تدریس وافتاء وتعویذات کے کام میں مصروف پھر بعد ظہر تدریس ، عصر کے بعد اورادوظائف ، بعد مغرب پھر دارالعلوم صادق الاسلام چاندنی چوک، نزد پرانی سبزی منڈی، کراچی میں تدریس و تعویذات کا اجرا، پھر بعد عشا تا رات ۱۲ بجے دارالعلوم صادق الاسلام ۴۸۳/۱۰، لیاقت آباد، کراچی میں تدریس فرماتے اور اسی اثناء میں کتب بینی اور افتا نویسی اور کتب نویسی کا کام بھی جاری رہتا ۔
علمی شغف اور اعزاز و مناصب:
آپ کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ احقاقِ حق اور ابطالِ باطل میں کبھی پس وپیش سے کام نہ لیا اور نہ کسی مصلحت کا شکار بنے۔ بے شمار طلبہ کو علمِ دین سے آراستہ وپیراستہ کرتے رہے، ہزاروں اساتذہ آپ کے شاگرد یا شاگردوں کے شاگرد ہیں۔ اس کے علاوہ دارالعلوم امجدیہ میں ناظمِ امتحان کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔ دارالعلوم امجدیہ میں ۱۹۹۳ء تا ۱۹۹۸ء ناظمِ تعلیمات رہے۔ دارالعلوم امجدیہ میں ہی ۱۹۹۳ء تا ۲۰۰۳ء منصب افتاء پر رہے۔ جامع مسجد امجدی رضوی میں ۱۲؍ فروری ۱۹۸۶ء تا ۱۵؍ جنوری ۲۰۱۱ء امام و خطیب کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔ اس وقت (۲۰۰۳ء تاوصال) دارالعلوم صادق الاسلام ۴۸۳/۱۰ لیاقت آبادکراچی میں شیخ الحدیث ورئیس دارافتاء کے منصب پر فائزرہے۔
علمی وقلمی خدمات ومسلکِ اعلی حضرت کی ترویج و اشاعت:
دینی واصلاحی تنظیم بنام ’’فیضانِ مصطفیٰ‘‘ قائم کی؛ جس کے زیرِ اہتمام مختلف علاقوں میں جلسے، جلوس اور مختلف علمائے کرام کی تقریروں سے لوگوں کی اصلاح کی۔ گھر گھر محافل ومجالس کا انعقاد کروایا۔ آپ نہ صرف خود مسلکِ اعلی حضرت پر سختی سے قائم رہے؛ بلکہ اپنے طلبہ، مریدین، متوسلین، متعلقین کوبھی مسلکِ اعلی حضرت پر سختی سے قائم رہنے کی تلقین کرتے رہے۔ بزرگانِ دین کے اَعراس کے مواقع پر، پروگرامات منعقد کرکے عوامِ اہلِ سنّت کے دلوں میں عشقِ مصطفیٰﷺ وعشقِ اولیائے کرام علیہم الرضوان کی شمع فروزاں کرتے ہیں ۔
آپ درسِ نظامی، عقائد ومسائل اور دیگر بہت سی کتابوں کے مصنّف ومترجم ہیں۔ چند کتابیں یہ ہیں :
· ضیاء النحو
· ضیا ء الصرف
· ضیاءِ فارسی
· فارسی کی پہلی کتاب کا حاشیہ
· ضیاء المنطق
· ضیاءِ اصولِ حدیث
· ترجمہ صرفِ میر
· ترجمہ مشکوۃ المصابیح شریف
· ترجمہ منیۃ المصلی
· منہاج العارفین ترجمہ منہاج العابدین
· جنوں کی دنیا ترجمہ لقط المرجان فی احکام الجان
· جشنِ عیدِ میلاد النبی ﷺ
· فضائل سیّدنا ابوبکر صدّیق
· حُسنِ قراءت
· کفِ ثوب
· بہارِاعتکاف
· راحت القلوب
· سلام کے فضائل واہمیت
· سماعِ موتی
· نمازکا طریقہ
· فضائلِ رمضان المبارک
· فضائلِ شعبان المعظّم
· پرائز بانڈ پر انعام لینا جائز ہے
· حج وعمرہ ایک نظر میں
· سوانحِ رئیس التحریر حضرت علامہ ارشد القادری وغیرہم ۔
مدارس کا قیام وطلبہ سے محبّت:
لوگوں کی اصلاح کے لیے آپنے اپنی توجہ مدرسوں کے قیام کی طرف مبذول کی اس سلسلے میں ۱۹۹۲ء میں دارالعلوم صادق الاسلام کے نام سے ایک مدرسے کی داغ بیل ڈالی آج دارالعلوم صادق الاسلام کراچی کے مختلف مقامات پر دینِ متین کی ترویج واشاعت میں مصروفِ عمل ہے۔ تمام مدارس کی سر پرستی واہتمام اور انتظام وانصرام خود آپ ہی فرماتےتھے۔ یہاں ناظرۃ القرآن، حفظ القرآن اور درسِ نظامی کے سیکڑوں طلبہ وطالبات علم دین کے زیور سے آراستہ ہورہے ہیں ۔
آپ کی خصوصیات میں سے یہ بات بھی تھی کہ جب کسی طالب ِعلم نے کسی بھی وقت پڑھنے کی خواہش ظاہر کی تو آپ اس کو کبھی بھی رد نہیں فرماتے۔
عقدِ مسنون:
آپ کا عقد ِمسنون (نکاح) علامہ غلام ربانی کی صاحبزادی (جو رشتے میں آپ کی سگی پھوپھی زاد بھی ہیں) سے اگست ۱۹۸۴ء میں ہوا۔ آپ کا نکاح آپ کے والدِ گرامی حضور محدثِ کبیر مدظلہ العالی نے پڑھایا۔ جو لائی ۱۹۸۷ء میں رخصتی ہوئی۔
اولاد امجاد :
آپ کی اولاد میں تین صاحبزادے: ریاض المصطفیٰ اعظمی ، محمد عبدالمصطفیٰ اعظمی ، مصطفیٰ رضا اعظمی اور تین صاحبزادیاں ہیں۔
وصال باکمال:
۵؍ شوّال المکرم ۱۴۴۵ھ مطابق۱۴؍ اپریل ۲۰۲۴ء کو، حجازِ مقدّس کے وقت کے مطابق رات تقریباً 9:30 بجے، سفر ِعمرہ کے دوران ریاض / طائف ہائی وے پر ایک کار حادثے میں مفتی صاحب اپنے رفقا کے ہمراہ شہیدہو گئے۔
نمازِ جنازہ:
والدِ ماجد حضور محدثِ کبیر مفتی ضیاء المصطفیٰ اعظمی دامت برکاتھم العالیۃنے نمازِ جنازہ کی امامت فرمائی۔
تدفین:
آپ کی تدفین، مقبرہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما (طائف) میں ہوئی۔

