حشمت علی خاں لکھنوی، شیر بیشہ اہلسنت، علامہ مولانا، رحمۃ اللہ تعالی علیہ
نام ونسب:اسمِ گرامی:مولانا حشمت علی خان ۔کنیت:ابوالفتح۔القاب:شیربیشہ اہلسنت،غیظ المنافقین، مناظرِ اعظم ہند، سلطان المناظرین، معراج الواعظین ۔لکھنؤ کی نسبت سے "لکھنوی" کہلاتے تھے۔سلسلہ نسب اسطرح ہے: مولانا حشمت علی خان بن ابوالحفاظ نواب علی خان بن محمد حیات خان بن محمد سعادت خان بن محمد خاں۔علیہم الرحمۃ والرضوان۔آپ کےوالدِگرامی،حضرت مولانا ہدایت رسول رامپوری (خلیفہ اعلی حضرت علیہ الرحمہ )کے مرید تھے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1319ھ،مطابق 1901کو لکھنؤمیں ہوئی۔
تحصیلِ علم: آپ ابتدائی تعلیم اور حفظ قرآنِ کریم "مدرسہ فرقانیہ" کے اساتذہ سے دس برس کی عمر شریف میں مکمل کیا، اور تجوید کی سند بروایت حفص بارہ برس کی عمر میں حاصل کی، اور تیرہ برس کی عمر میں سند قرأت سبعہ اور چودھویں سال سند عشرہ حاصل فرمائی۔ابتداءًیہ مدرسہ اہلسنت کاتھا لیکن بعد میں مدرسین دیوبندی وغیرہ آگئے تھے،اس لئے یہ مدرسہ ان کے قبضے میں چلاگیا۔آپ پر بھی آہستہ آہستہ ان کارنگ چڑھناشروع ہواتھا کہ والدین اور مولانا ہدایت رسول علیہ الرحمہ کی دعائیں اورامام اہلسنت کےرسالہ بنام"تمہیدایمان"کے مطالعے سے ایمان محفوظ ہوا۔اس کے بعد بریلی کے"مدرسہ منظرِ اسلام "میں داخل ہوئےاور مستقل تعلیم حاصل کرنے لگے۔1340ھ میں حضرت حجۃ الاسلام نے دستار بندی فرمائی۔
اساتذۂ کرام : اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری ۔ حجۃ الاسلام حضرت مولانا حامد رضا ۔ صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی ۔مولانا رحم الٰہی منگلوری۔تاجدار اہلسنت حضور مفتئ اعظم نوری ۔(رحمۃ اللہ علیہم اجمعین)
بیعت وخلافت: صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی سے ارادت حاصل تھی۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی نے اجازت وخلافت سے سر فراز فرمایا ۔ پھر 1340ھ کے جلسۂ دستار بندی میں حجۃ الاسلام نے اجازت وخلافت سے مشرف فرمایا ۔جب شیر بیشہ اہلسنت حج وزیارت کے لیے حرمین شریفین تشریف لے گئے وہاں قطب مدینہ حضرت مولانا ضیاءالدین احمد مدنی نے بھی خلافت واجازت سے نوازا۔ حضور مفتی اعظم ہند نے خلافت عطا فرمائی ۔ ابو المساکین حضرت مولانا ضیاء الدین پیلی بھیتی سے بھی اجازت حاصل تھی ۔(رحمۃ اللہ علیہم اجمعین)
سیرت وخصائص: شیربیشہ اہلسنت،اسدالملت،ناصرِ اہلسنت،کاسرالبدعت،مظہرِ اعلیٰ حضرت ،غیظ المنافقین،مناظرِ اعظم ہند، سلطان المناظرین، معراج الواعظین حضرت علامہ مولانا حشمت علی خان لکھنوی ثم پیلی بھیتی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ کی شخصیت دنیائے اسلام میں محتاجِ تعارف نہیں ہے۔آپ ایک امتیازی شان کے مالک تھے۔یہ امام اہلسنت کا فیضان تھا کہ آپ کے انگ انگ میں عشقِ مصطفیﷺ کاجلوہ موجزن تھا۔یہی وجہ ہےکہ آپ نے گلستانِ وہابیت ودیوبندیت کو خاکستر کردیا۔نجدی قلعوں میں زلزلزہ برپا کردیا۔بڑے بڑے سورماؤں کو آپ سے مقابلے کی تاب نہ تھی۔اس شیرِ اہل سنت نے جس طرف رخ کیا حق وصداقت کے ڈنکے بجادیے اور باطل کے پرخچے اڑادیے۔
امام ِ اہلسنت علیہ الرحمہ نے آپ کوجب"ہلدوانی "مناظرہ کیلئے روانہ فرمایا تواس وقت آپ کی عمر انیس سال تھی۔جس میں دوسری جانب مخالف مولوی یٰسین خام سرائی تھے۔ اس ننھی سے عمر کے نوجوان نےاسی سال کے بوڑھے ماہرمشاق کو شکست فاش دی اور فتح ونصرت کا سہرا شیر ِاہلسنت کے سررہا۔ بریلی آکر مناظرہ کی ساری رودادجب امام اہلِ سنت علیہ الرحمہ کو سُنائی۔تو امامِ اہلسنت اپنے شیر کی اس فتحِ مبین سے بہت خوش ہوئے۔خوشی میں اپنی دستار عنایت فرمائی ،غیظ المنافقین، ولد المرافق، ابو الفتح کےعظیم القاب اور پانچ روپے بطورانعام عطاءفرمائے۔نیز اپنی طرف سے پانچ روپے ماہانہ وظیفہ مقرر فرمایا۔ اور مدرسہ منظر اسلام کا رجسٹر منگاکر خود امام اہلسنت نے اپنے دست فیض سے تحریر فرمایا کہ:" مولانا حشمت علی خاں سلمہ میرا روحانی بیٹا ہے، ان کو پانچ روپے ماہانہ وظیفہ میری طرف سے ہمیشہ دیا جائے "۔امام اہلسنت کے وصال کے بعد حضرت حجۃ الاسلام قدس سرہ اور مفسر اعظم ہند مولانا ابراہیم رضا خاں جیلانی علیہ الرحمۃ شیر بیشۂ اہلسنت کو زندگی بھر پوری پابندی کے ساتھ یہ وظیفہ ادا فرماتے رہے ۔
وصال: آپ کاوصال 8/محرم الحرام 1380ھ،مطابق جون 1960ءکو ہوا۔آپ کامزارپیلی بھیت (انڈیا) میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذومراجع: تذکرہ علمائے اہلسنت ۔تحقیقی مقالہ مولانا حشمت علی خان ۔