احمد رضا خاں بریلوی،
اعلیٰ حضرت امام اہلِ سنّت محمد
اسمِ گرامی: محمد۔
تاریخی نام: المختار۔
جدِّامجدحضرت مولانا رضاعلی خاں نے’’احمدرضا‘‘
نام رکھا،اوراسی نام سے مشہور ہوئے۔
اَلقاب: اعلیٰ
حضرت،امامِ اہلِ سنّت،مجددِ دین و ملّت، شیخ الاسلام،حامیِ سنّت،ماحیِ بدعت وغیرہ۔
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت مولانا شاہ محمد احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کاتعلّق افغانستان کے معزز قبیلہ’’بڑھیچ
پٹھان ‘‘ سے ہے۔
سلسلۂ نسب اِس طرح
ہے:
اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان بن مولانا نقی علی خاں
بن مولانا رضا علی خاں بن حافظ کاظم علی خاں بن محمد اعظم خاں بن محمد سعادت یار
خاں بن محمد سعید اﷲخاں( علیہم الرحمۃ والرضوان)۔
ولادت:
آپ کی ولادتِ باسعادت
بروزہفتہ،10؍ شوّال المکرم 1272ھ مطابق14؍
جون1856ء، بوقتِ ظہر، محلہ جسولی، بریلی شریف(انڈیا) میں ہوئی۔ خود امام ِ اہلِ سنّت نے اپنی ولادت کاسن ہجری’’1272ھ‘‘ اس آیتِ مبارکہ سے
اخذکیا ہے:
اُولٰٓئِکَ
کَتَبَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الْاِیۡمٰنَ وَ اَیَّدَہُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنْہُ (پارہ
۲۸، سورۃ المجادلۃ:22)
ترجمہ:’’یہ ہیں
جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرمادیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد کی۔‘‘(کنزالایمان)
تحصیلِ علم اور اَساتذہ کرام:
اعلیٰ حضرت کی رسمِ بِسْمِ اللہ کے بعد تعلیم کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ آپ نےچاربرس کی ننھی
سی عمر میں ناظرہ قرآنِ مجید ختم کر لیا۔ چھ سال کی عمر میں ماہِ ربیع الاوّل
شریف کی تقریب میں ایک بہت بڑے اجتماع کے سامنے ’’میلاد شریف‘‘ کے موضوع پر ایک پُر
مغز اور جامع بیان کرکےعلمائے کرام اور مشائخ عظام سےتحسین و آفرین کی دادوصول
کی۔ابتدائی اردو اور فارسی کی کتب پڑھنے کے بعد، ’’میزان‘‘ و ’’منشعب‘‘ حضرت مولانا مرزا غلام قادر بیگسے
پڑھیں۔پھر آپ نے اپنے والدِ ماجد سندالمحققین حضرت مولانا
شاہ نقی علی خانسے اکیس علوم حاصل کیے۔
’’شرحِ چغمینی‘‘ کابعض حصّہ حضرت علامہ مولانا عبدالعلی
رام پوریسے پڑھا۔ ابتدائی علمِ ’’تکسیر‘‘
و ’’جفر‘‘ شیخ المشائخ حضرت شاہ ابوالحسین احمد نوری
مارہرویسے حاصل کیے۔ علمِ تصوّف
کی تعلیم استاذ العارفین مولانا سیّد آلِ رسول مارہرویسے حاصل فرمائی۔تیرہ برس دس مہینے پانچ دن کی عمر میں
14؍شعبان المعظّم 1286ھ،مطابق 19؍نومبر 1869ء کو فارغ التحصیل ہوئے اور دستارِ
فضیلت سے نوازے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قوتِ حافظہ سے خوب نوازا تھا۔صرف مغرب اور عشا کے درمیانی وقت میں ایک
پارہ حفظ کرلیتے تھے،اور ایک ماہ میں مکمل قرآنِ مجید حفظ کر لیا۔ اعلیٰ حضرت کے
اساتذہ کی فہرست توبہت مختصر ہے،لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اس کےحبیبﷺ کی عطا سےآپ کاسینہ علم ومعرفت کا
خزینہ تھا۔یہی وجہ ہےکہ آپ بہت سے علوم کے بانی
وموجدہیں۔ ذَالِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ۔
بیعت وخلافت:
آپ1294ھ،مطابق 1877ءکو شیخ المشائخ حضرت شاہ آلِ رسول
مارہرویکے دستِ حق پرست پر سلسلۂ عالیہ قادریہ
میں بیعت ہوئے اور خلافت سے مشرف ہوئے۔
سیرت وخصائص:
آپ کے خلیفۂ اجل مبلغ
اعظم حضرت علامہ شاہ محمد عبد العلیم صدّیقی فرماتے ہیں:
تمھاری شان میں جوکچھ کہوں اُس سے سوا تم ہو
قسیمِ جامِ عرفاں، اے شہِ احمد رضا! تم ہو
اعلیٰ حضرت، امامِ
اہلِ سنّت، عظیم البرکت، عظیم المرتبت، پروانۂ شمعِ رسالت، حامیِ سنّت، ماحیِ بدعت، شیخ
الاسلام، مجددِمأۃ ماضیہ، حالیہ،آتیہ، مفسرِعدیم النظیر، محدثِ باکمال، فقیہِ
عَلَی الْاِطْلاق شاہ امام احمدرضاخاں قادری برکاتی محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ایک فرد نہیں بلکہ ایک جامعہ ہیں۔آپ
کی سیرتِ مبارکہ اور کارہائے نمایاں سے قرونِ اولیٰ کے اسلاف کی یادتازہ ہوجاتی ہے۔آپ
رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت ایسی جامع وکامل وعالی
مرتبت ہے،جن کی علمی سطوت و شوکت اور مخالفین ودشمنانِ اسلام پر ہیبت دبدبہ ان شآء اللہ العزیز آئندہ تاقیامِ قیامت
اپنی پوری آب وتاب اور شان وشوکت کے ساتھ آفتابِ نصف النہار کی طرح مطلعِ
علم وشریعت پر چھائی رہے گی۔آپ کی پھیلائی ہوئی شمعِ عشقِ مصطفیٰ ﷺکی شعاع پورے عالم
کو روشن کرتی رہے گی اور ہرآنے والے دن کےساتھ اس کی ضیا اور فیض رسانی میں اضافہ
ہوتارہےگا۔
امام احمد رضاخاں قادری مروجہ علوم
دینیہ کےعلاوہ ایسےعلوم پر بھی مہارت
رکھتےتھے جن سےعام طور پرعلما تعلق نہیں رکھتے،اور کچھ علوم کےتو بانی وموجد
ہیں،ہرفن میں قیمتی تحقیقات وتعلیقات کااضافہ کیا۔آپنےپچاس
سےزیادہ علوم وفنون میں تصانیف کایادگار ذخیرہ چھوڑا۔جدیدحساب سےان کی تعداد ایک سو
بیس کےقریب ہے۔ اسی طرح مختلف علوم وفنون پرایک ہزار سےزیادہ یادگار تصانیف چھوڑی ہیں۔صرف
فتاوٰی رضویہ کی جدید طباعت تیس جلدوں میں ہے۔ بہت سی کتب طباعت کےمراحل میں ہیں۔آپ
کی تصانیف،اور آپ پرتحقیق کی جدیدانداز میں طباعت واشاعت’’انجمن ضیائے
طیبہ‘‘کی اوّلین ترجیح ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد
رضا اس پیکرِ حق وصداقت،حاملِ علم ومعرفت
کانام ہےجسے’’عَلَّمْنَاہُ مِنْ لَّدُنَّا‘‘ کی تعبیر اور’’اِنَّمَایَخْشَی اللہَ مِنْ
عِبَادِہِ الْعُلَمَآءُ‘‘ کی تصویر اور ’’وَالرَّاسِخُوْنَ فِیْ الْعِلْم‘‘ کی تفسیرکہیں توبے جانہ ہوگا۔مدح وثناخوانی میں حافظ شیرازی،امام بوصیری وجامی
بلکہ حسان الہند کہیں تومبالغہ نہ ہوگا۔صرف ’’ترجمۂ کنزالایمان‘‘ دیکھ لیں حقائق ومعرفت
کاخزینہ ہے،اس ترجمے میں رازی کی موشگافیاں،غزالی کاتصوف،جامی کی وارفتگی،حضرت
بلال کا عشق،نعمان بن ثابت کاتفقہ ہے۔
اگریقین نہ آئے
تو اِس آیت کاترجمہ پڑھ لیں:
وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۪﴿۷﴾
ترجمہ: ’’اور
تمہیں اپنی محبّت میں خود رفتہ پایا تو اپنی راہ دی۔‘‘ (کنزالایمان)
مجھے حیرت ہے ان نام
نہاد موحدین پر جویہودونصاریٰ کےظلم وستم اورفواحش پر توخاموش رہیں اور عظمتِ خداوعشقِ
مصطفیٰﷺکے ترجمے پرپابندی لگادیں۔مزید ستم
ظریفی دیکھیں کہ جس امام نے ردوبدعات ،بے حیائی وخرافات،جاہلانہ رسوم ورواج
کے خلاف ساری زندگی جہادفرمایااور سب سے زیادہ ان جہال کے خلاف لکھا اس کی نظیر
نہیں ملتی۔جس نے شریعتِ مصطفیٰ ﷺ کی خاطر اپنی
جان کی پرواہ کیے بغیر، دن رات دین کی خدمت
کی اسے’’حامیِ بدعات‘‘ بنادیا ،اوردینِ اسلام میں تحریف کرنے والے، عظمتِ
خدا اور عزتِ مصطفیٰﷺ
پر حملے کرنے والے،کفار ومشرکین سے دوستی کرنے والے،اوران کے لیے مرمٹنے والے،
ان کو منبروں پر بٹھانےوالے، اسلام اور مسلمانوں کونقصان پہنچانےوالوں کو ’’شیخ الاسلام‘‘ اور ‘‘توحید
کا ٹھیکیدار‘‘ بنا دیا۔
حق کے آگے جتنے پروپیگنڈے کیے جائیں،پردہ ڈالنے کی کوششیں کی جائیں،حق چھپانے
سے چھپ نہیں سکتا، بلکہ حق ہوتاہی وہ جو ظاہر ہوکر رہتا ہے۔ چاہے مخالفین کچھ بھی کرلیں۔
جَآءَ
الْحَقُّ وَ زَہَقَ الْبٰطِلُ ؕ اِنَّ الْبٰطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا۔ (پارہ ۱۵، بنی اسرائیل: ۸۱)
ترجمہ: ’’اور فرماؤ کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا ؛ بے شک باطل کو مٹنا ہی تھا۔‘‘ (کنزالایمان)
یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں"مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں
سلام"کی آواز قلوب واذہان کومنوّر کررہی ہے۔پوری دنیا میں عزتِ مصطفیٰﷺ کی بدولت عظمتِ احمد رضا کے ڈنکے بج رہے ہیں۔آج پوری
دنیا کی یونیورسٹیزمیں مختلف زبانوں میں آپ کی سیرت وتصانیف پرمتعددافراد ڈاکٹریٹ
کرچکےہیں اورکئی افراد کررہےہیں،اور یہ علمی سفر جاری وساری ہے۔(الحمدللہ علٰی ذالک)
آپ کی ذات کی پہچان اور پوری حیات کاعرفان عشقِ مصطفیٰﷺہے۔آپ فنا فی الرسولﷺ
تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے دمِ آخریں اپنے عقیدت مندوں ، وارثوں ،اور تمام اہلِ
سنّت کو جووصیت فرمائی اس کوحرزِ جاں بنانے کی ضرورت ہے۔
آپ فرماتے ہیں:
’’جس سے اللہ تعالیٰ اوررسول اللہﷺ کی شان میں ادنیٰ توہین پاؤ پھر وہ تمہاراکیسا ہی پیارا کیوں
نہ ہو، فوراً اُس سےجدا ہوجاؤ،جس کوبارگاہِ رسالت مآِب ﷺمیں ذرابھی گستاخ دیکھو،پھروہ کیسا ہی بزرگ ومعظّم
کیوں نہ ہواپنےاندر سےاسے دودھ کی مکھی کی طرح نکال کرپھینک دو۔‘‘(وصایا شریف)
اَلْحَمْدُلِلہِ عَلٰی اِحْسَانِہٖ! انجمن ضیاءِ طیبہ‘‘ اعلیٰ حضرتکےفرمودات کی روشنی میں رو بہ عمل ہے۔انجمن کےتمام
معاملات میں تعلیماتِ اعلیٰ حضرت کوترجیح حاصل ہے۔فروغِ اہل سنّت کےلیے
امام ِ اہل سنّتکےنکات پر، انجمن ضیائے
طیبہ حسبِ توفیق عمل پیراہے۔
وصال:
بروزجمعۃ المبارک، 25؍ صفرالمظفر1340ھ مطابق 28؍ اکتوبر 1921ءکو ہندوستان
کے وقت کے مطابق دوپہر دوبج کر 38منٹ پر عین اذانِ جمعہ میں اُدھر’’حی علی الفلاح‘‘ کی پکارسُنی اِدھرروحِ
پُرفُتوح نے ’’دَاعِیْ الی اللہ‘‘ کولبیک کہا۔
مزارِ پُر اَنوار:
آپ کامزارِپُرانوار
بریلی شریف (انڈیا)میں مرجعِ خلائق ہے۔
اَلْحَمْدُللہ!
انجمن ضیائے طیبہ کے زیرِ اہتمام عرسِ اعلیٰ حضرت
تقریباً1970ءسےبڑےاحتشام و اہتمام سےمنعقدہوتاہے،اوراعلیٰ حضرت کی پچیسویں شریف کی ماہانہ محفل بھی پابندی کےساتھ ہوتی ہے۔
مآخذومراجع:
حیات ِ اعلیٰ حضرت۔
سوانح امام احمد رضا۔
سیرتِ اعلیٰ حضرت ۔
تاجداربریلی نمبر۔