نقی علی خان
بریلوی، تاج العلما،راس الفضلا علامہ مفتی محمد
نام: محمد نقی علی خان۔
القاب: تاج
العلما،راس الفضلا، حامیِ سنّت، ماحیِ بدعت
والدِ ماجد: حضرت علامہ مولانا محمد
رضا علی خاں بریلوی
ولادت: جمادی
الآخرہ کی آخری یا رجب المرجب کی پہلی تاریخ، 1446ھ۔
تاج
العلما،راس الفضلا حضرت علامہ مولانا محمد نقی علی خاں قادری برکاتی بریلوی نے ’’
اَلْکَلَامُ الْاَوْضَحْ فِیْ تَفْسِیْرِ سُوْرَۃِ اَلَمْ نَشْرَحْ‘‘کے نام سے سورۂ اَلَمْ نَشْرَحْ کی بڑی عمدہ و بہترین ضخیم تفسیر لکھی،
جس کے ابتدائی صفحات میں آپ کے قابلِ فخر فرزندِ دلبند یعنی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں محدث بریلوینے آپ کی
حیاتِ مبارکہ کے چند گوشے تحریر فرمائے ہیں، جو یہاں ہدیۂ قارئیں کیے جا رہے ہیں:
’’وہ جناب فضائلِ مآب
تاج العلما،راس الفضلا، حامیِ سنّت، ماحیِ بدعت،
بقیۃ السلف، حجت الخلف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ وَاَرْضَاہُ وَفِیْ اَعْلٰی غُرَفِ الْجِنَانِ
بَوَّاہُ سلخ جمادی الآخرَۃ
یا غرّۂ رجب ۱۲۴۶ ہجریہ
قدسیہ کو رونق افزائے دارِ دنیا ہوئے۔ اپنے والدِ ماجد حضرت مولائے اعظم فضائل
پناہ عارف باللہ صاحبِ کمالاتِ باہرہ وکراماتِ ظاہرہ حضرت مولانا مولوی محمد رضا علی خاں صاحب رَوَّحَ اللہُ
رُوْحَہٗ وَنَوَّرَ ضَرِیْحَہٗسے اکتسابِ
علوم فرمایا۔ بحمداللہ منصب شریف علم کا پایہ درجۂ علیا کو پہنچایا۔
راست میگویم
ویزداں نہ پسندد وجزراست
کہ
جو دقّتِ انظار، وحدتِ افکار ،وفہمِ صائب ،ورائے ثاقب ،حضرت حق جَلَّ
وَعَلَا
نے
انہیں عطا فرمائی۔ ان دیار وامصار میں اس کی نظیر نظر نہ آئی۔ فراستِ صادقہ کی یہ
حالت تھی کہ جس معاملے میں جو کچھ فرمایا، وہی ظہور میں آیا۔ عقلِ معاش ومعاد
دونوں کا بروجہِ کمال اجتماع بہت کم سنا، یہاں آنکھوں دیکھا۔ علاوہ بریں۔ سخاوت
وشجاعت، وعلوِّہمت وکرم ،ومروّت وصدقاتِ خفیہ، ومبرّات جلیہ ،وبلندیِ اقبال
،ودبدبہ وجلال ،ومولات فقراء ، اور امرِ دینی میں عدمِ مبالات باغنیاء حکام سے
عزلتِ رزقِ موروث پر قناعت وغیر ذالک فضائلِ جلیلہ وخصائلِ جمیلہ کا حال وہی کچھ
جانتا ہے جس نے اس جناب کی برکتِ صحبت سے شرف پایا ہے:
ایں نہ بحریست کہ
در کوزۂ تحریر آید
حضور اقدسﷺ کے اعدا پر شدت
مگر سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ اس ذاتِ گرامیِ
صفات کو خالق عزوجل نے حضرتِ سلطانِ رسالت علیہ افضل الصلوٰۃ
والتحیۃکی
غلامی وخدمت اور حضورِ اقدس کے اعدا پر غلظت وشدّت کے لیے بنایا تھا۔ بحمداللہ ان کے
بازوئے ہمت وطنطنۂ صولت نے اس شہر کو فتنۂ مخالفین سے یکسر پاک کردیا۔ کوئی اتنا
نہ رہا کہ سر اٹھائے یا آنکھ ملائے۔ یہاں تک کہ ۲۶؍شعبان
۱۲۹۳ھ کو مناظرۂ دینی کا عام اعلان مسمّٰی
بنامِ تاریخی ’’اصلاحِ ذات بین‘‘ طبع کرایا اور سوا مہر ِسکوت ،یا عارِ فرار،
وغوغائے جہال ،وعجز واضطرار کے کچھ جو اب نہ پایا۔ فتنہ شش مثل کا شعلہ کہ مدّت سے
سر بفلک کشیدہ تھا اور تمام اقطارِ ہند میں اہلِ علم اس کے اطفا پر عرق ریز گرویدہ
اس جناب کی ادنیٰ توجّہ میں بحمداللہ سارے ہندوستان سے
ایسا فرو ہوا کہ جب سے کان ٹھنڈے ہیں اہلِ فتنہ کا بازار سرد ہے، خود اس کے نام سے
جلتے ہیں۔ مصطفیٰ ﷺکی یہ خدمت روزِ ازل سے اس جناب کے لیے ودیعت تھی، جس کی قدرے
تفصیل رسالہ’’تنبیہہ الجہال بالہام الباسط المتعال‘‘(۱۳۹۱ھ) میں مطبوع ہوئی۔ وَذٰلِکَ
فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ۔
تصانیف:
تصانیف ِشریفہ اس جناب کی سب علومِ دینیہ
نافع مسلمین، ودافع مفسدین ،والحمدللہ رب العالمین۔ از
اں جملہ:
1۔ اَلْکَلَامُ الْاَوْضَحْ فِیْ تَفْسِیْرِ سُوْرَۃِ اَلَمْ نَشْرَحْ
کہ مجلّدِ کبیر
ہے، عُلومِ کثیرہ پر مشتمل ہے۔
2۔ ’’وسیلۃ النجاۃ‘‘ جس کا موضوع ذکرِ حالاتِ
سیّدِ کائنات ہے، ﷺ، مجلّدِ وسیط۔
3۔ سرور القلوب فی ذکر المحبوبکہ
مطبع نو لکشور میں چھپی۔
4۔ جواہر البیان فی اسرار الارکان، جس
کی خوبی دیکھنے سے تعلّق رکھتی ہے۔
؏:
ذوق ایں مے نشناسی بخداتا نہ چشی
فقیر
غَفَرَاللہُ
تَعَالٰی لَہٗنے صرف اُس کے ڈھائی صفحوں کی شرح میں ایک رسالہ مسمّٰی
بہ ’’زواہر
الجنان من جواہرالبیان‘‘
ملقب بنام تاریخی ’’سلطنۃ المصطفٰی فی ملکوت کل الورٰی‘‘
تالیف کیا۔
5۔ اصول الرشاد لقمع مباتی الفساد، جس
میں وہ قواعد ایضاح واثبات فرمائے جن کے بعد نہیں مگر سنّت کو قوت اور بدعت نجدیہ کو موتِ حسرت۔
6۔ ’’ہدایۃ البریۃ الی الشریعۃ الاحمدیۃ‘‘ کہ دس فرقوں کا رد ہے۔ یہ کتابیں مطبعِ صبحِ
صادق سیتا پور میں طبع ہوئیں۔
7۔ اذاقۃ الاٰثام لمانعی عمل المولود والقیام کہ اپنی شان میں اپنا نظیر نہیں رکھتی اور ان شاء
اللہ العزیز
عن
قریب شائع ہوگی۔
8۔ فَضْلُ الْعِلْم وَالْعُلَمَآء ایک مختصر رسالہ کہ بریلی میں طبع ہوا۔
9۔ ازالۃ الاوہام ردِّ
نجدیہ۔
10۔ تزکیۃ ایقان ردّ تقویۃ الایمان کہ یہ
عشرۂ کاملہ زمانۂ حضرت مصنف قُدِّسَ سِرُّہٗ میں تبییض پاچکا۔
11۔ الکواکب الزہراء فی
فضائل العلم وآداب العلماء، جس کی تخریج احادیث میں فقیر غَفَرَاللہُ
تَعَالٰی لَہٗ نے رسالہ ’’ نجوم الثواقب فی تخریج احادیث الکواکب ‘‘ لکھا۔
12۔ الروایۃ الرویۃ فی الاخلاق النبویۃ
13۔ النقاوۃ التقویۃ فی الخصائص النبویۃ
14۔ لمعۃ النبراس فی آداب الاکل واللباس
15۔ التمکن فی تحقیق مسائل التزین
16۔ احسن الوعاء لآداب الدعاء
17۔ خیر المخاطبۃ فی المحاسبۃ والمراقبۃ
18۔ ہدایۃ المشتاق الٰی سیر الانفس والآفاق
19۔ ارشاد الاحباب الٰی آداب الاحتساب
20۔ اجمل الفکر فی مباحث الذکر
21۔ عین المشاہدۃلحسن المجاہدۃ
22۔ تشوق الاداۃ الٰی طرق حجۃ اللہ
23۔ نہایۃ السعادۃ فی تحقیق الہمۃ والا رادۃ
24۔ اقوی الذریعۃ الٰی تحقیق الطریقۃ والشریعۃ
25۔ ترویج الارواح فی تفسیر الانشراح۔
ان پندرہ (یعنی 11تا 25) رسائل مابین وجیز وسیط کے
مسوّدات موجود ہیں، جن کی تبییض کی فرصت حضرت مصنف قُدِّسَ سِرُّہٗ نے نہ
پائی۔ فقیر غَفَرَاللہُ تَعَالٰی لَہٗ کا قصد ہے کہ
انہیں صاف کر کے ایک مجلّد میں طبع کرائے۔ ان شاء اللہ سبحانہ
وتعالٰی۔
؏: کہ حلوابہ تنہا نہ بایست خورد
ان
کے سوا اور تصانیفِ شریفہ کے مسوّدے بستوں میں، ملتے ہیں مگر منتشر جن کے اجزا
اوّل ،آخر، یا وسط سے گم ہیں۔ ان کے بارے میں حسرت و مجبوری ہے۔
غرض
عمر اس جناب کی ترویجِ دین ،وہدایتِ مسلمین ،ونکایتِ اعدا ۔و حمایتِ مصطفیٰ ﷺمیں
گزری جَزَاہُ
اللہُ مِنَ الْاِسْلَامِ وَالْمُسْلِمیْنَ خَیْرَ جَزَاءٍ جَزاء(آمین)
بیعت
وخلافت:
پنجم(۵) جمادی
الاولیٰ ۱۲۹۴ھ کو مارہرۂ مطہرہ میں دستِ حق پرست ،حضرت
آقائے نعمت، دریائے رحمت، سیّد الواصلین، سند الکاملین، قطبِ اوانہ ،وامامِ زمانہ
حضورِپر نور سیّدنا ومرشدنا مولانا وماوانا ذخرتی لیومی وغدی حضرت سیّدنا شاہ آلِ رسول احمدی تاج دار مسندِ مارہرہ رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ وَاَرْضَاہُ وَاَفَاضَ عَلَیْنَا مِنْ بَرَکَاتِہٖ
وَنْعْمَاہُ
پر شرفِ بیعت حاصل فرمایا۔ حضور پیرو مرشدِ برحق نے مثالِ خلافت واجازتِ جمیعِ
سلاسل وسندِ حدیث عطا فرمائی۔ یہ غلامِ ناکارہ بھی اسی جلسے میں اس جناب کے طفیل
ان برکات سے شرف یاب ہوا۔ والحمدللہ ربّ العالمین!
سرکار
ﷺکے حکم پر حجِ بیت اللہ:
۲۶؍شوال ۱۲۹۵ھ کو باوجود شدّتِ علالت ،وقوّتِ ضعف خود،
حضورِ اقدس سیّدِ عالمﷺ کے خاص طور پر بلانے سے کہ ’’مَن
رَاٰنِیْ فِیْ الْمَنَامِ فَقُدْ رَاٰنِیْ‘‘ عزمِ زیارت
وحجِّ مصمّم کاارادہ فرمایا۔ یہ غلام اور چند اصحاب وخدّام ہم راہِ رکاب تھے۔ ہر
چند احباب نے عرض کی کہ یہ حالت ہے آئندہ سال پر ملتوی فرمایئے۔ ارشاد فرمایا : ’’مدینۂ طیبّہ کے قصد سے قدم دروازہ سے باہر رکھ لوں۔ پھر
چاہے روح اسی وقت پرواز کرجائے‘‘۔ دیکھنے والے جانتے ہیں کہ تمام مشاہد میں
تندرستوں سے کسی بات میں کمی نہ فرمائی، بلکہ وہ مرض ہی خود نبی ﷺکے ایک آب خورے
میں دو اعطا فرمانے سے کہ’’مَنْ رَاٰنِیْ فَقَدْ رَأَی الْحَقَّ‘‘ حَدِّ
منع پر نہ رہا۔ وہاں حضرت اجلّ العلما، اکمل الفضلاء، حضرت مولانا سیّد احمد زین دحلان شیخ الحرم وغیرہ علمائے
مکۂ معظّمہ سے مکرر سندِ حدیث حاصل فرمائی۔
وصال
مبارک:
ذی القعدہ روزِ پنجشنبہ وقتِ ظہر ۱۲۹۷ ہجریہ قدسیہ کو اکیاون ۵۱برس پانچ مہینے کی عمر میں بعارضۂ اسہالِ
دموی شہادت پاکر شب ِجمعہ اپنے حضرت والدِ ماجد قُدِّسَ سِرُّہٗ کے
کنار میں جگہ پائی۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ!
روزِوصال نماز صبح پڑھ لی تھی اور ہنوز
وقتِ ظہر باقی تھا کہ انتقال فرمایا۔ نزع میں سب حاضرین نے دیکھا کہ آنکھیں بند
کیے متواتر سلام فرماتے تھے۔ جب چند انفاس باقی رہے، ہاتھوں کو اعضائے وضو پر یوں
پھیرا گویا وضو فرماتے ہیں یہاں تک کہ استنشاق بھی فرمایا۔ سبحان
اللہ! وہ
اپنےطور پر حالتِ بے ہوشی میں نمازِ ظہر بھی ادا فرماگئے۔ جس وقت روحِ پُر فُتوح
نے جدائی فرمائی۔ فقیر سرہانے حاضر تھا۔ وَاللہ الْعَظِیْم! ایک
نورِ ملیح علانیہ نظر آیا کہ سینے سے اٹھ کر برقِ تابندہ کی طرح چہرے پر چمکا، اور
جس طرح لمعانِ خورشید آئینے میں جنبش کرتا ہے، یہ حالت ہوکر غائب ہوگیا۔ اس کے
ساتھ ہی روح بدن میں نہ تھی۔ پچھلا کلمہ، کہ زبانِ فیضِ ترجمان سے نکلا، لفظِ اللہ تھا
وبس اور اخیر تحریر کہ دستِ مبارک سے ہوئی ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ تھی
کہ انتقال سے دو روز پہلے ایک کاغذ پر لکھی تھی۔ بعدہٗ فقیر نے حضور پیرومرشدِ
برحق کو رویا میں دیکھا کہ حضرتِ والدِ قُدِّسَ سِرُّہٗ
الماجد
کے مرقد پر تشریف لائے۔ غلام نے عرض کی: حضور یہاں کہاں؟ اَدْ
لَفْظاً ھٰذَا مَعَنَاہُ فرمایا آج سے یا فرمایا اب سے ہم یہیں رہا
کریں گے۔ رَحِمَھُمَا
اللہُ تَعالٰی رَحْمَۃً وَّاسِعَۃً۔
ذھب الذین یعاش فی اکنافھم
وبقیت فی ناس کجلد الاجرب
لیھن دعاء الناس ولیفرح الجھل
بعدک لا یرجوالبقا من لہ عقل
اللھم ارحمھما وارض عنھما واکرم نزلھما
واقض علینا من برکاتھما اٰمین برحمتک یا ارحم الراحمین!

