حضرت فاضل شہیر مولانا سیّد حسین الدین شاہ ضیاء، راولپنڈی
فاضل شہیر حضرت علامہ ابوالخیر سیّد حسین الدین شاہ ضیاء بن استاذ العلماء حضرت علامہ سیّد ضیاء الدین شاہ رحمہ اللہ ۱۹۳۳ء میں موضع سلطان پور ضلع اٹک (علاقہ حسن ابدال) کے ایک علمی و روحانی گھرانے میں پیدا ہوئے۔
آپ نے فارسی کی مروجہ کتب سکندر نامہ تک اپنے عم مکرم حضرت مولانا سید حسن شاہد رحمہ اللہ سے پڑھیں۔ قرآن پاک حافظ محمد صدیق (دربار شریف) اور مولانا حافظ عبدالغفور حال مہتمم جامعہ غوثیہ راولپنڈی سے حافظ کیا۔
درسِ نظامی کی تمام کتب متداولہ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۳ء تک اپنے آبائی گاؤں سلطان پور، دارالعلوم عزیزیہ بھیرہ اور دربارِ عالیہ گولڑہ شریف میں پڑھیں اور فنون میں آپ نے جن اساتذہ سے استفادہ کیا، ان کے اسماء گرامی یہ ہیں:
۱۔ حضرت مولانا سیّد ضیاء الدین شاہ رحمہ اللہ (م۱۷؍جمادی الثانی ۱۳۹۳ھ) (آپ کے والد ماجد)
۲۔ حضرت مولانا سیّد غلام محی الدین شاہ مدظلہ العالی، مہتمم و شیخ الحدیث جامعہ رضویہ راولپنڈی (آپ کے برادرِ اکبر)
۳۔ حضرت استاذالعلماء مولانا محب النبی رحمہ اللہ (م۲۱؍ربیع الاول ۱۳۹۶ھ)
۴۔ حضرت علامہ مولانا فریدالدین رحمہ اللہ (م۷؍شوال ۱۳۹۲ھ)
۵۔ حضرت مولانا خدا بخش بھیروی رحمہ اللہ
۶۔ حضرت مولانا محمود شاہ شاگردِ رشید حضرت مولانا لطف اللہ علیگڑھی رحمہما اللہ
۱۳۷۶ھ میں آپ نے حضرت محدثِ اعظم مولانا محمد سردار احمد رحمہ اللہ سے جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد میں درسِ حدیث لے کر سندِ فراغت حاصل کی۔
حضرت مولانا علامہ محب النبی رحمہ اللہ نے آپ کو حضرت خواجۂ خواجگان پیر سید مہر علی شاہ رحمہ اللہ سے حاصل احادیث اور دیگر علوم کی اجازت بھی عطا فرمائی۔
آپ نے تدریسی زندگی کا آغاز دارالعلوم عزیزیہ بھیرہ سے کیا، جہاں آپ نے دورۂ حدیث سے قبل ایک سال پڑھایا۔ ایک سال مدرسہ رفیع الاسلام ملک وال اور چار سال جامعہ غوثیہ راولپنڈی میں تدریسی فرائض سرانجام دینے کے بعد آپ نے ۱۹۶۴ء میں سبزی منڈی راولپنڈی میں جامعہ رضویہ ضیاء العلوم کی بنیاد رکھی اور اب اسی دارالعلوم میں آپ پڑھارہے ہیں۔ دورۂ حدیث کے دوران آپ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے حکم پر چند ماہ سرگودھا میں جمعہ پڑھاتے رہے۔ چند ماہ پھلروان اور تقریباً دو سال گکھڑ منڈی میں خطبۂ جمعہ ارشاد فرمانے کے بعد ۱۹۵۸ء میں جامع مسجد سبزی منڈی راولپنڈی کے خطیب مقرر ہوئے۔
علاوہ ازیں آپ تبلیغِ دین کے سلسلہ میں ملک کے مختلف حصوں خصوصاً آزاد کشمیر، ہزارہ اور اٹک میں تبلیغی دورے فرماتے ہیں۔ مئی ۱۹۷۸ء میں آپ نے جنوبی افریقہ کے مختلف شہروں ڈربن، جوہنسبرگ، اسکارٹ، لیڈی سمٹھ اور کیپ ٹاؤن کے علاوہ انگلینڈ میں چار ماہ کا تبلیغی دورہ کیا۔
۱۹۵۸ء میں آپ نے اولیائے کرام کے تصرفات کے موضوع پر ایک کتاب بنام ’’ہدیۃ الاحباب فی التصرفات ما فوق الاسباب‘‘ تحریر فرماکر چھپوائی۔
تحریکِ پاکستان کے دوران اگرچہ آپ کا بچپن تھا، لیکن پھر بھی سنی گھرانے کے ایک فرد ہونے کی حیثیت سے آپ پاکستان کے قیام کی خاطر اپنی ہمت اور بساط کے مطابق کام کرتے رہے۔ آپ کے برادرِ اکبر حضرت مولانا سیّد عبدالرحمٰن شاہ مدظلہ اپنے علاقہ میں نیشنل گارڈ کے سالار تھے اور آپ بھی اس گارڈ میں شامل تھے۔
تحریکِ ختمِ نبوت ۱۹۵۳ء میں جبکہ آپ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ مختلف مقامات پر تحریک کے حق میں تقاریر کیں اور بھیرہ ضلع سرگودھا سے گرفتاریاں پیش کرنے والے قافلے کے امیر مقرر ہوئے، سرگودھا سے آپ نے گرفتاری پیش کی اور تحفظ ناموس مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر تین ماہ شاہ پور جیل میں پابندِ سلاسل رہے۔
تحریکِ ختمِ نبوت ۱۹۷۴ء میں آپ مجلس عمل تحفظ ختمِ نبوت کی مرکزی مجلسِ عمل کے رکن رہے۔ پالیسی ساز اجلاسوں اور مختلف علاقوں کے جلسوں میں شرکت اور تنظیم سازی کے علاوہ آپ نے اپنے زیرِ اہتمام مرکزی راہنماؤں کے جلسے کرائے اور مختلف کتب خانوں سے مرزائیوں کی کتابیں مہیا کرکےاسمبلی مین پیش کرنے کے لیے قائدین کو مواد مہیا کیا۔ا س تحریک میں آپنے ملک بھر کے مشائخ کو بلاکر اپنے دارالعلوم میں مشائخ کانفرنس منعقد کی اور مرزائیوں سے سماجی بائیکاٹ کی تائید کرکے تحریک کو تازہ کمک پہنچائی۔
تحریکِ نظامِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ نے گرفتاریاں پیش کرنے کے لیے کارکن تیار کیے۔ اپنے دارالعلوم جامعہ رضویہ اور جامعہ کے زیرِ اہتمام مساجد سے گرفتاریاں پیش کرائیں۔ اس طرح عملی طور پر راولپنڈی میں تحریک کو آگے بڑھا رہے تھے اور اس وقت جبکہ دیگر جماعتیں بالخصوص جماعتِ اسلامی کے پاس گرفتاریاں پیش کرنے کے لیے کارکن نہیں تھے۔ آپ کے طلباء اور معتقدین نظامِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نفاذ کے لیے گرفتاریاں پیش کر رہے تھے۔
ایوب خان کے دور میں جب ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کے چیئرمین ڈاکٹر فضل الرحمٰن کی غیر اسلامی تحریرات پر پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا اور اس کی برطرفی کا مطالبہ ہونے لگا، تو اس وقت کے وزیرِ قانون جناب ایس ایم ظفر سے علماء کے ایک وفد نے ان کی کوٹھی پر ملاقات کی، اس موقعہ پر ڈاکٹر فضل الرحمان بھی موجود تھا۔ ڈاکٹر موصوف سے حضرت علامہ سیّد حسین الدین شاہ مدظلہ نے دو گھنٹے مناظرہ کیا، یہاں تک اسے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا پڑا اور اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ ابھی یہ وفد گھر بھی نہ پہنچا تھا کہ ڈاکٹر فضل الرحمٰن کو برطرف کردیا گیا۔
حضرت علامہ سیّد حسین الدین شاہ مدظلہ نے دو مرتبہ ۱۹۶۲ء اور ۱۹۷۶ء میں حج بیت اللہ شریف اور زیارت روضۂ مطہرہ کا شرف حاصل کیا۔ ۱۹۷۸ء میں افریقہ اور انگلینڈ کے تبلیغی دورے کے دوران آپ نے دو مرتبہ عمرہ اور زیارت کی سعادت حاصل کی۔
آپ نے حضرت پیرِ طریقت خواجہ غلام محی الدین المعروف بابوجی رحمہ اللہ (گولڑہ شریف) کے دست حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ علاوہ ازیں رہبرِ شریعت پیشوائے طریقت حضرت علامہ ضیاء الدین مدنی دامت برکاتہم العالیہ نے آپ کو سلسلہ قادریہ میں بیعت کی اجازت عطا فرمائی۔
آپ کچھ عرصہ جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی مجلسِ عاملہ کے ممبر رہ چکے ہیں۔ اب آپ تنظیم المدارس (اہل سنت) کے صوبائی ناظم (برائے صوبہ پنجاب ، سرحد اور آزاد کشمیر) اور مرکزی جماعتِ اہل سنّت کے نائب ناظم اوّل ہیں۔
آپ کے ہاں دو صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں تولد ہوئیں۔ صاحبزادہ سیّد انعام الحق شاہ سکول پڑھتے ہیں، جبکہ صاحبزادہ سیّد حبیب الحق شاہ ابھی کمسن ہیں۔[۱]
[۱۔ جملہ کوائف حضرت علامہ سید حسین الدین شاہ مدظلہ نے مرتب کو جامعہ نظامیہ رضویہ میں ۲۱؍دسمبر ۱۹۷۸ء کو تحریر کردیے]
(تعارف علماءِ اہلسنت)