شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا مفتی محمداقبال سعیدی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:محمداقبال سعیدی۔لقب:استاذالعلماء،شیخ الحدیث،فقیہ العصر،مناظرِ اسلام۔سلسلہ نسب اسطرح ہے: شیخ الحدیث مفتی محمد اقبال سعیدی بن مولاناعبید اللہ بن مولاناحبیب اللہ بن مولانا حافظ عبید اللہ بن مولانا قادر بخش بن مولانا حافظ علی محمد۔(علیہم الرحمۃ والرضوان) آپ ایک ایسے علمی خاندان کےچشم وچراغ تھے،جوتقویٰ اوردین داری میں بےمثال تھے۔آپ کےجدامجدمولاناحافظ علی محمد علیہ الرحمہ صاحبِ کرامت بزرگ تھے۔آپ کاآبائی وطن ڈیرہ اسماعیل خان،قوم"پھُل"جوپٹھانوں کاایک قبیلہ ہے،اورڈیرہ اسماعیل خان کےنواح میں زیادہ تعدادمیں رہائش پذیرہیں۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت28/اکتوبر1945ء،مطابق ماہِ ذی قعد/1364ھ،کو اوچ شریف تحصیل احمد پور شرقیہ ضلع بہاول پور میں ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے وقت آپ کی عمر دو برس تھی۔
تحصیل علم: ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی ،درسِ نظامی کی مکمل تعلیم (صرف و نحو سے لے کر صحاحِ ستہ تک) مدرسہ مدینۃ العلوم اوچ شریف میں شیخ الحدیث والتفسیر بیہقی وقت، مناظر اعظم شیخ طریقت علامہ مفتی محمد منظور احمد فیضی علیہ الرحمہ سے حاصل کرکے 1965ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ اسی سال جامعہ انوار العلوم ملتان میں غزالیِ زماں، رازیِ دوراں امام اہلِ سنّت علامہ سیّد احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوکر دورۂ حدیث کرکے سند حدیث حاصل کی۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے عقیدت ومحبت کی وجہ سےدارالعلوم حزب الاحناف میں مفتی اعظم پاکستان خلیفۂ اعلیٰ حضرت علامہ ابو البرکات سید احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ سے درس حدیث لیا اور سند حاصل کی۔
بیعت وخلافت: بیعت غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی علیہ الرحمہ کےدستِ حق پرست پرہوئے،اورتمام سلاسل کی اجازت وخلافت سےمشرف ہوئے،اسی طرح بیہقی وقت مناظر اعظم حضرت مفتی منظوراحمد فیضی علیہ الرحمہ نےتمام سلاسل کی اجازت مرحمت فرمائی تھی۔خلیفۂ اعلی حضرت علامہ سیدابولبرکات قادری علیہ الرحمہ نے اجازت وخلافت عطافرمائی تھی۔
سیرت وخصائص: استاذالعلماء،فخرالاذکیاء،سندالاصفیاء،جامع المعقولات والمنقولات،مناظرِ اسلام،فاتحِ روافض وخوارج،حامیِ سنت،دافع ِبدعت ،قاطعِ نجدیت،شیخ الحدیثِ والتفسیر،فقیہ العصر حضرت علامہ مولانامفتی محمداقبال سعیدی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ کاشمارمسلک حق اہلسنت وجماعت کےجیدعلماء کرام میں سےہوتاتھا۔آپ کی ذات میں نابغۂ روزگاراساتذہ کی جھلک بدرجۂ اتم پائی جاتی تھی۔اگریہ کہاجائے،کہ آپ علم ِحدیث،تفسیراورفقہ میں حضرت غزالی زماں،اورمناظرہ ودیگرعلوم میں حضرت بیہقی وقت کےپرتوِجمیل تھے،تویہ مبالغہ آرائی نہ ہوگا۔ساری زندگی دین ِمتین کی خدمت فر مائی،تدریسی زندگی پچاس سال کےعرصےپرمحیط ہے۔
ساری زندگی تدریس و تحریر،وعظ ونصیحت کےذریعےعلومِ مصطفیٰ ﷺکوچہارسوپھیلایا،اوردینِ اسلام کےفروغ میں شب وروزکوشاں رہے،تحفظ مقامِ مصطفیٰﷺونظام مصطفیٰﷺپرپہرہ دیا۔جنوبی پنجاب کےکسی علاقےمیں بھی اگرکسی بدمذہب نےعظمتِ مصطفیٰﷺ،اورمقامِ اولیاءواہل بیت کےبارے میں ہرزہ سرائی کی کوشش کی،تواس کوایسابچھاڑاکہ اس علاقے میں دوبارہ کسی گستاخ کوجرأت نہ ہوئی۔جہاں پہنچےکامیابی نےقدم چومے۔یہی وجہ ہے کہ مناظراعظم شیخ القرآن حضرت علامہ منظوراحمدفیضی علیہ الرحمہ فرماتےتھے:مناظرے میں میرے شاگرد مفتی اقبال سعیدی کی شکست میری شکست ہوگی،پہلے توکچھ لوگ اس کوآسان جیت سمجھ کرمناظرےکاچیلنج کرنےلگے،جب میدان میں آئے توبھاگنےمیں ہی عافیت سمجھی۔ملتان،جلالپور،شجاع آباد وغیرہ میں آج بھی عینی شاہدین کثیرتعدادمیں موجودہیں۔حضرت بیہقی وقت آپ کو مفتی صاحب فرماتے تھے۔مفتی تواس وقت ماشاء اللہ کثیرتعدادمیں ہیں،لیکن فتویٰ کےساتھ تقویٰ کمیاب ہے،اورجس میں فتویٰ کےساتھ تقویٰ بھی ہوتواس کی ذات بلاشبہ علماء ربانیین اوراولیاءکاملین میں سےہے۔میرےممدوح فتویٰ اورتقویٰ کاحسین امتزاج تھے۔ آپ کاوجودِمسعود امت کےلئےغنیمت تھاکہ اس پرفتن دورمیں بھی ایساتقوی ٰ وخلوص کہ اسلاف کی یادتازہ ہوجاتی تھی۔
جن حضرات نے آپ کےدروس میں شرکت کی ہے،وہ بخوبی جانتے ہیں کہ آپ کی گفتگوسلیس،مختصراورجامع ہواکرتی تھی،اوراندازایساسہل کہ مشکل سےمشکل مسئلہ بھی سامعین کےذہن نشین ہوجاتاتھا۔(اس فقیرتونسوی غفرلہ کوبھی مدرسہ انوارالعلوم ملتان شریف میں آپ کےایک درسِ حدیث میں شرکت کی سعادت حاصل ہے،اللہ تعالیٰ حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ کےدرجات بلندفرمائے،اور ان کی برکات سےہمیں حصہ وافرعطاء فرمائے۔آمین،بجاہ النبی الامین۔)
تاریخِ وصال: آپ کا وصالِ پرملال 26/جمادی الاولی1437ھ ،مطابق 6/مارچ 2016ء بروز ہفتہ شب 1 بجے ہوا۔بروز اتوار شام چار بجے شاہی عیدگاہ ملتان میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔شاداب کالونی نزدMDA چوک ملتان میں قبرانورہے۔
ماخذومراجع: تذکرہ جلیلہ۔