منظور احمد فیضی، بیہقیِ
وقت علامہ مفتی محمد
اسم گرامی: محمدمنظور احمد فیضی۔
اَلقاب: بیہقیِ وقت، مفتی، مُناظرِاعظم، شیخ
القرآن،شیخ الحدیث وغیرہ۔
نسب:
سلسلۂ
نسب اِس طرح ہے:
بیہقیِ
وقت علامہ مفتی محمد منظور احمدفیضی
بن علامہ محمد ظریف فیضی بن علامہ الٰہی بخش قادری بن حاجی پیر بخش رحمھم اللہ تعالٰی تعالٰی۔
آپ
ایک علمی خاندان کےچشم وچراغ تھے۔ مولانامحمدظریف فیضی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنےوقت کےجیّدعالم اورقبلہ شاہ جمالی
کریم کےمنظورِ نظرخلیفہ تھے۔ جدِّ امجد علامہ الٰہی بخش قادری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ عالم وعارف،اورصاحبِ تقویٰ بزرگ تھے۔
تاریخِ ولادت:
پیرکی
شب، بوقتِ صبح صادق ،2؍ رمضان المبارک 1358ھ مطابق 16؍ اکتوبر 1939ءکو بستی فیض
آباد اوچ شریف، تحصیل احمدپورشرقیہ، ضلع بہاولپور،پاکستان میں آپ کی ولادت
باسعادت ہوئی۔
عطائے مصطفیٰﷺ:
مولانا
محمدظریف فیضی رحمۃ اللہ تعالٰی
علیہ کےہاں کوئی اولادنہیں ہوتی تھی۔ایک
مرتبہ فیضِ مجسم حضرت خواجہ فیض محمدشاہ جمالی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سےاولادکے لیے عرض کیا،توانہوں
نےفرمایا:
’’تم رات ہمارے ہاں گزارو، تمہاری درخواست امام الانبیاءﷺ کی بارگاہ میں
پیش کر دیں گے۔امیدہے کہ ان شاءاللہ قبول ہوجائے گی۔‘‘
جب
صبح ہوئی توحضرت نےفرمایا:
’’تمہاری درخواست منظورہوگئی ہے اورتمہیں منظوراحمدعطا ہوگا۔‘‘
تحصیلِ علم:
آغاز
بسم اللہ اور سورۂفاتحہ6؍ محرم الحرام 1362ھ بروزپیرجامع مسجدسندیلہ
شریف ضلع ڈیرہ غازی خاں میں قبلہ شاہ جمالی کریمنے کرائی اور قرآنِ مجید شروع کرا
دیا۔
پھر آپ نے تعلیمِ قرآنِ پاک،فارسی، صرف،نحو،
فقہ، اصولِ فقہ،منطق، مشکوٰۃ شریف، جلالین تک
کتب اپنے والدِ ماجد سے پڑھیں۔ جملہ علومِ عقلیہ و نقلیہ کی تکمیل اور علم
ِحدیث کے حصول کے لیے غزالیِ زماں
علامہ سیّد احمد سعیدشاہ کاظمی رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ کی
خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے 17؍ شوّال المکرم 1378ھ بمطابق 26؍ اپریل1959ء کو جامعہ
اَنوار العلوم ملتان سے سندِ فراغت حاصل فرمائی۔ پھر آپ نے پنجاب یونیورسٹی لاہور
سے فاضلِ عربی کا امتحان پاس کیا ۔ جس سال آپ نے جامعہ انوار العلوم
ملتان سے سندِ فراغت حاصل کی اُسی سال جامعہ انوار العلوم کے سالانہ جلسۂ دستارِ
فضیلت میں حضور نبی کریم رؤف و رحیم ﷺجلوہ
افروزتھے۔اہلِ نظر دیدار سےمستفیض ہوئے۔ الحمد للہ حمدا کثیرا۔
بیعت وخلافت:
آپ
سلسلۂ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں پیکرِعلم وعرفان حضرت خواجہ فیض محمد شاہ جمالی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کےدستِ حق پرست پربیعت ہوئے۔ شہزادہ
ٔ اعلیٰ حضرت حضور مفتیِ اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضا خان نوری اورحضور قطب
ِمدینہ مولانا ضیا ء الدین احمد مدنی ،اورحضورغزالیِ
زماں علامہ سیّد احمد سعید کاظمی، سلطان العارفین حضرت خواجہ غلام یاسین شاہ
جمالی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم نے تمام علوم اور تمام سلاسل
میں اجازت و خلافت سے نوازا۔آپ زیادہ ترسلسلۂ عالیہ چشتیہ میں لوگوں کو بیعت کیا
کرتے تھے۔
سیرتِ وخصائص:
شیخ
القرآن،شیخ الحدیثِ والتفسیر،مُناظرِاعظم، فقیہ العصر، بیہقیِ وقت،جامعِ شریعت وطریقت، حاوی الفروعِ والاصول، عاشقِ رسول، فنافی الرسول، عارف باللہ حضرت علامہ مولانامفتی
منظوراحمدفیضی نوّراللہ
تعالٰی مرقدہ۔آپ کاشمار
ماضیِ قریب کےجیّدعلمائے حق کی صف میں ہوتاتھا۔مطالعےمیں ایسی وسعت
کہ تمام فنون پرگہری نظرتھی۔ حافظہ ایساغضب کا تھا کہ ذہن میں کتب کےصفحات کےساتھ
سطریں تک محفوظ تھیں۔تمام موضوعات پرمناظرےکےلیے ہمہ وقت تیاررہنایہ آپ ہی کی
ذاتِ گرامی کاحصہ تھا۔پورےپاکستان میں بدمذہبوں کےچیلنج قبول کرنااوران کوہرجگہ ذلّت
آمیز شکست دینایہ آپ ہی کاخاصہ تھا۔ علمائے اہلِ
سنّت آپ کو’’مُناظرِ اعظم‘‘ کےلقب سےملقب کرتےہیں۔اس فن میں کمال کااندازہ اس
واقعے سےلگایاجاسکتاہےکہ 19؍ جون2002ءکوآپ نےانٹرنیٹ پرچارمجتہدینِ رَوافض سےدس گھنٹےکامیاب مناظرہ کیا۔حضرت بیہقیِ وقت اکیلےاوررَوافض مُناظرین کی
تعدادچارتھی۔اِس مناظرےمیں روافض کوذلّت آمیزشکست سےدوچارکیا۔
آپ
کی سب سےبڑی خوبی یہ تھی کہ علم کےساتھ تقویٰ وروحانیت اورعشقِ مصطفیٰﷺکی دولت سےمالامال تھے۔حدیث شریف پڑھاتےہوئے
ہوئےخودبھی عشقِ مصطفیٰﷺ میں تڑپتےاورسامعین کوبھی
تڑپاتےتھے۔جب اسمِ گرامی لیتے یاکسی کی زبان سے سنتےتو آنکھیں پرنم ہوجایاکرتیں
تھیں اورکافی دیرتک ایک وجدانی کیفیت طاری رہتی تھی۔جب نام نہادملّاؤں نےغیروں
کےاشاروں پرعزّت وعظمتِ مصطفیٰﷺپررکیک حملےشروع کیے،توفیضی صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نےان کےجواب میں’’مقامِ رسولﷺ‘‘ تالیف
کرکےدنیائےسنیت پراحسانِ عظیم فرمایا۔اس کتاب کاایک ایک لفظ عظمتِ مصطفیٰ ﷺاورمقامِ
مصطفیٰﷺکی گواہی دےرہاہے۔اس کتاب کوبارگاہِ مصطفیٰﷺمیں شرفِ قبولیت حاصل ہے۔ایک
وہابی نےعدالت میں اس کتاب کوچیلنج کیاتواللہ جل شانہ
نےاُس مولوی کوعدالت میں ہی جوتےلگوائے۔
حضرت بیہقیِ وقت اعلیٰ روحانی مقام پرفائزتھے۔علم
وعمل،زہدوتقویٰ،عبادت وریاضت میں بےمثال تھے۔خدمتِ دین کی بدولت کئی مرتبہ زیارتِ
مصطفیٰﷺسےشرف یاب ہوئے۔
ایک
مرتبہ صاحبِ کشف بزرگ عالمِ دین حضرت مولانا عارف صاحب احمدپوری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نےفرمایا:
’’علامہ
فیضی صاحب! آج حضرت خضر علیہ
السلام نےنمازِ جمعہ آپ کےپیچھےاداکیاہے،اورآئندہ جمعہ بھی آپ
کوشرف بخشیں گے۔‘‘
واقعی
ایساہوا،اگلےجمعۃ المبارک کےدن بہت سےحضرات نے حضرت خضرعلیہ السلام سےمصافحہ کیا۔یہ آپ کوشرف بخشنے،اورآپ کی عظمت ظاہرکرنےکےلیے
تشریف لائےتھےجیساکہ بہت سےاولیائے کرام کی مجالس میں شریک ہوتے ہیں۔
آپ
اپنے اعلیٰ علمی و روحانی مقام ومرتبہ کی وجہ سے نہ صر ف پاک وہند بلکہ پوری دنیا
میں علمائے اہلِ سنّت اور مشائخِ اہلِ سنّت کے منظور ِنظر تھے۔اپنے وقت کے
عظیم محدث و مفسر اور عظیم مناظر وخطیب ِ لاجواب تھے۔خطیب ایسےکہ جب تک بیان
جاری رہتامجمع پرسکون و سکوت کی کیفیت طاری رہتی۔انداز ایسا دل نشیں کہ بات سامعین
کےدل میں اترجاتی تھی۔ میں نےایسےافراددیکھےہیں جوعلامہ فیضی صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے بیانات کی برکت سےباعمل ہوگئے، بلکہ
ایک بہترین مناظربھی بن گئے۔ کوئی بھی بدمذہب ان کےسامناکرنےسےکتراتاتھا۔
حضرت
فیضی صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نےساری زندگی درس وتدریس،تصنیف وتالیف
اور مسلک ِ اعلیٰ حضرت کے فروغ کے لیے گزار دی۔جب مسند ِعلم پر جلوہ افروز ہوتے اور
اپنے ہر قول پر رسولِ اکرم ﷺکے فرامین بیان کرتےتو امام بیہقی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی یاد تازہ ہوجاتی ،اور جب مُناظرےمیں
گستاخانِ مصطفیٰ ﷺ اور گستاخانِ صحابہ واہلِ
بیت،واولیاء کو پچھاڑتےتو ایسا معلوم ہوتا کہ رسول اللہ ﷺ کا شیر میدان میں آیا
ہے اور مدِّ مقابل کو راہِ فرار کے علاوہ کوئی اور راستہ نظر نہ آتا۔ آپ ان
تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ انتہائی منکسرالمزاج اور بااخلاق شخصیت کے حامل تھے۔ وعظ
ونصیحت، مُناظرہ، مَحافلِ میلادکےلیے کبھی کسی سے معاوضےکےطلب گارنہ ہوئے۔ہرکام
اللہ جل شانہ اوراس کےحبیبﷺکی رضاکےلیےہوتاتھا۔
آپ
کی سیرت آج کے علما کےلیے مشعل راہ ہے۔
تاریخِ
وصال:
قبلہ
بیہقیِ وقت (66 سال، 8 ماہ 11 دن کی عمر میں)
یکم جمادی الاخریٰ 1427ھ، مطابق27؍جون2006ء،بروز منگل، شب ِبدھ 8:45 پر عین اذانِ
عشا کے وقت اپنے خالق
ِحقیقی سے جا ملے۔
ماخذ:
’’بیہقیِ
وقت علامہ مفتی ابوالحسن محمد منظور
احمد فیضی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ‘‘، از: مفتی محمد اکرام المحسن
فیضی، شائع کردۂ انجمن ضیائے طیبہ، کراچی، جون 2007ء۔