شیخ الحدیث والتفسیر حضرت علامہ مولانا نصر اللہ افغانی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:علامہ نصر اللہ۔ لقب: ابوالفتح ،ابوالمنصور۔ وطنِ اصلی افغانستان کی نسبت سے"افغانی"کہلاتے تھے۔ سلسلہ نسب اسطرح ہے: شیخ الحدیث علامہ نصراللہ افغانی، بن حضرت خوش کیار خاں المعروف ہوشیار خاں افغانی ، بن حاکم خان،بن شادی خان ۔(علیم الرحمہ)
وطنِ اصلی: قیام پاکستان سے قبل آپ کا قیام یوپی (انڈیا)کے شہر الہ آباد کے قریب ریوا اسٹیٹ میں رہا۔ آپ کے آباؤاجداد افغانستان میں غزنی کے قریب ایک قریہ سرِ روضہ کے رہنے والے تھے۔ اور ان کا تعلق پختونوں کے"خروتی" قبیلہ سے تھا۔
تحصیلِ علم: آپ علیہ الرحمہ کاشمار زمانۂ طالب علمی میں محنتی ،اورقابل طلباء میں ہوتا تھا۔ آپ اپنے سبق کی مکمل تیاری کرکے اساتذہ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔آپ کی ایک خوبی یہ بھی ہے جوکہ بہت کم لوگوں کونصیب ہوتی ہے ،آپ اپنے سے کم درجے والے طلباءکواسباق کا درس دیتے تھے،جس سے آپ کے علم میں مزید پختگی ہوگئی اور زمانۂ طالب علمی سے آپ کو تدریس کا تجربہ ہوگیا۔
آپ نے اپنے وقت کے جید اساتذہ ٔکرام،اور نابغۂ روزگار ہستیوں سے تحصیلِ علم کیا۔جن میں محدثِ اعظم پاکستان حضرت علامہ مولانا سردارِ احمد صاحب،مجاہدِ ملت حضرت علامہ مولانا حبیب الرحمٰن صاحب اڑیسوی ،صدر المدر سین علامہ مولانا سید غلام جیلانی میرٹھی ، شمس العلما ءعلامہ مولانا محمد نظام الدین سہسرامی،حضرت علامہ مولانا شبیر احمد غوری، علامہ مولانا قاضی عیاض علی خاں، مولانا سید محمد عاقل، ایڈوکیٹ، الہٰ آباد ہائی کورٹ،مولوی ظہور عالم صاحب،استاذ ریاضی اسلامیہ کالج۔(الہ آباد، یوپی، انڈیا)، پروفیسر سید رفیق احمد، استاذ شعبۂ عربی، الہٰ آباد یونیورسٹی۔(رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم)۔ آپ نے درسِ نظامی کے علاوہ مولوی، عالم، فاضلِ دینیات کے امتحانات بھی الہٰ آباد بورڈ سے سند اعلیٰ سے پاس کیے غرضیکہ آپ نے پوری زندگی حصولِ علم نافع اور مدارس و جامعات دینیہ میں درس و تدریس میں بسر فرمائی۔
بیعت وخلافت: مجاہدِ ملت حضرت علامہ مولانا شاہ حبیب الرحمن اڑیسوی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کا شرف حاصل تھا۔
سیرت وخصائص: جامع المعقول والمنقول حاوی الفروعِ والا صول شیخ الحدیث والتفسیر حضرت علامہ مولانا ابو الفتح نصر اللہ خاں افغانی رحمۃاللہ علیہ ۔آپ علیہ الرحمہ یادگارِ اسلاف تھے،آپ مشائخِ عظام کے علومِ کےوارثِ کامل تھے۔ایسی باکمال علمی و روحانی شخصیت کا اہل سنت و جماعت کی صفوں سے اٹھ جانا ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ علومِ اسلامیہ کے فروع و اصول پر آپ کو حیرت انگیز دسترس حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے آپ کا شمار پاکستان کے درس نظامی کے نہایت پختہ کار اور کامیاب اساتذہ کرام میں ہوتا تھا۔ آپ پاکستان کے علما ءکرام کے اس طبقہ سے تعلق رکھتے تھے جن کا مطالعہ نہایت وسیع اور عمیق تھا اور اہم علمی وفکری اور اصولی معاملات میں قولِ فیصل صادر کرنے کی صلاحیتوں کے حامل تھے۔ آپ حسنِ اخلاق میں اعلیٰ انسانی اقدار کے حامل اور اسوۂ حسنہ کے عامل تھے ۔آپ کے انہی علمی، روحانی خصوصیات اور فراستِ ایمانی کو دیکھتے ہوئے افغانستان میں روسی شکست کے بعد قائم ہونے والی عبوری حکومت کے صدر جناب مجددی صاحب نے آپ کو پاکستان (کراچی)سے خصوصی دعوت پر کابل بلایا اور افغانستان کے سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا۔ عبوری حکومت کے خاتمہ تک آپ اس اعلیٰ منصب پر فائز رہے۔ اس دوران آپ نے وہاں کے محکمۂ قضاء اور دارالافتا ءمیں دوررس اصلاحات کیں۔
مولانا موصوف پشتو ،فارسی، عربی، اردو، ہندی اور انگریزی کی لسان و لغت پر کمال دسترس رکھتے تھے ،اور اس میں روانی سے بلاتکلف گفتگو کرلیاکرتے تھے۔اسی طرح آپ ادبی ذوق بھی رکھتے تھے۔پشتو اور فارسی میں آپ کے اشعار ملتے ہیں۔ معروف فارسی اور عربی شعراء کے نعتیہ دیوان آپ کے مطالعہ میں تھے۔ لیکن اعلیٰ حضرت عظیم البرکت رحمۃ اللہ علیہ کے نعتیہ کلام کےآپ عاشق تھے۔ "حدائقِ بخشش" کی بے شمار نعتیں آپ کو ازبر یاد تھیں جنہیں وجد و ترنم سے پڑھا کرتے تھے۔ آپ کو اس بات کا بڑا قلق تھا نعت خواں حضرات ہی نہیں بلکہ بعض عالم حضرات بھی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے اشعار صحیح تلفظ اور اعراب کے ساتھ نہیں پڑھ سکتے۔چنانچہ آپ نے نہ صرف یہ کہ حدائقِ بخشش (حصہ اول، دوم) کے ہر شعر پر اعراب لگائے بلکہ کتابت کی غلطیوں کی تصحیح بھی فرمائی۔ شیخ الحدیث علامہ نصر اللہ خاں علیہ الرحمہ نے اپنی پوری زندگی علوم اسلامیہ کے حصول،اور ان کی ترویج و اشاعت اور تدریس میں گذاردی۔ اللہ تعالیٰ آپ کی قبر پر اپنی رحمتوں کانزول فرمائے۔(آمین)
وصال: آپ کا وصال13/ذیقعد،1436ھ،بمطابق 27/اگست 2015ء کو ہوا۔آپ کی تدفین جامع مسجد و مدرسہ محمدی گلستانِ جوہر (کراچی)کے ایک حجرہ میں ہوئی۔
ماخذو مراجع:مقدمہ عید میلاد النبی ﷺ۔