علی حسین اشرفی جیلانی کچھوچھوی عرف ’’اشرفی میاں‘‘، قطب المشائخ سیّد شاہ محمد
نام: محمد علی حسین
کنیت: ابو
احمد
خاندانی خطاب: اشرفی میاں
تخلص: اشرفی
اَلقاب: شیخ المشائخ، مخدومِ اولیا، محبوبِ ربانی،
ہم شبیہِ غوثِ اعظم، مجددِ سلسلۂ اشرفیہ
نسب: آپ
ساداتِ جیلانی سے ہیں، حضور سیّدنا غوث الاعظمکی اولادِ اَمجاد سے ہیں۔
سلسلۂ نسب:
آپ کا نسب چوبیس (24) ویں
پشت میں جاکر حضرت سیّدنا غوثِ اعظمسے مل جاتا ہے، جو اِس طرح ہے:
ہم شبیہِ غوثِ اعظم شیخ
المشائخ حضرت سیّد شاہ محمد علی حسین اشرفی بن حاجی سیّد شاہ سعادت علی بن سیّد شاہ قلندر بخش بن سیّد شاہ تراب اشرف بن
سیّد شاہ محمد نواز بن سیّد شاہ محمد غوث بن سیّد شاہ جمال الدین بن سیّد شاہ عزیز
الرحمٰن بن سیّد شاہ محمد عثمان بن سیّد شاہ ابوالفتح بن سیّد شاہ محمد بن سیّد شاہ
محمد اشرف بن سیّد شاہ حسن بن سیّد شاہ
عبدالرزاق نورالعین بن سیّد عبدالغفور حسن بن سیّد ابوالعباس احمد بن سیّد بدرالدین
حسن بن سیّد علاء الدین علی بن سیّد شمس الدین بن سیّد سیف الدین نجی بن سیّد ظہیرالدین
احمد بن سیّد ابو نصر محمدبن سیّد محمد الدین ابوصالح نصر بن قاضی القضاۃ سیّد تاج
الدین بن غوثِ اعظم حضرت شیخ سیّد ابو محمد محی الدین عبدالقادر جیلانی ۔
تاریخِ ولادت: 22؍ ربیع الثانی 1266ھ مطابق 4؍ مارچ 1850ء، بروز پیر ، وقتِ صبح صادق
تحصیلِ علم:
حضور اشرفی میاں کی عمر شریف جب چار سال،
چار ماہ اور چار دن کی ہوئی، تو حضرت مولانا گل محمد خلیل آبادی نےبسم اللہ خوانی
کی رسم ادا کرائی، حضرت مولانا
امانت علی کچھوچھوی، مولانا
سلامت علی گور کھپوری اور حضرت مولانا
قلندر بخش کچھوچھوی سے عُلومِ دینیہ کی تحصیل و تکمیل فرمائی۔
بیعت
وخلافت اور باطنی علوم:
حضور اشرفی میاں نے 1282ھ میں اپنے برادرِ اکبر قطب
المشائخ زائر ِحرمین حضرت سیّد شاہ اشرف حسین
کے دستِ مبارک پر سلسلۂ
اشرفیہ میں شرفِ بیعت حاصل کیا، باطنی علوم کی تحصیل کی، سلوک کی منازل طے
کیں اور اجازت وخلافت سے نوازے گئے۔ بعض اذکارِ مخصوصہ کی تعلیم حضرت سیّد شاہ عمادالدین اشرف اشرفی عرف لکڑشاہ کچھوچھوی
سے حاصل کی، جو خاندانِ اشرفیہ میں مشاہیر مشائخ سے گزرے ہیں۔ حضرت میاں راج شاہ نے سلسلۂ
قادریہ زاہدیہ کے ساتھ سلطان الاذکار ودیگر اشغالِ مخصوصہ کی اجازت عطا
فرمائی اور ایک ’’دُوَنّی‘‘ سے نوازا۔
حضرت مولانا شاہ
محمد امیر کابلی نے سلسلۂ قادریہ
منوریہ کی اجازت سے نوازا، اس سلسلے کو
سلسلۃ
الذہب کہتے ہیں، جو چار واسطوں سے حضرت غوث پاک
تک پہنچتا ہے:
1.
حضرت
شاہ محمد امیر کابلی
2.
حضرت
ملا اخون رامپوری
3.
حضرت
شاہ منوّرالٰہ آبادی (آپ کی عمر ساڑھے پانچ سو برس ہوئی)
4.
حضرت
شاہ دولہ
5.
حضور
غوث الاعظم عبدالقادر جیلانی
اِسی طرح سلسلۂ
اویسیہ اشرفیہ کی تعلیم حضرت سیّد محمد حسن
غازی پوری سے حاصل ہوئی، اُن کو شاہ باسط علی
قادری سے، ان
کو شاہ عبدالعلیم بھیروی سے، ان کو شاہ ابوالغوث گرم دیوان شاہ سے، ان کو حضرت مخدوم اشرف سمنانی سے، ان کو خود حضرت اویس قرنی سے حاصل ہے۔ حضرت سیّد شاہ آلِ رسول مارہروی نے سلسلۂ
قادریہ برکاتیہ کی خلافت کے ساتھ ساتھ بہت سے اذکار واشغال
کی اجازت سے نوازا، حضور اشرفی میاں کے
بعد، حضرت شاہ آلِ رسول مارہروی نے کسی اور کو اجازت و خلافت عطا نہیں فرمائی۔ اس طرح حضور اشرفی میاں حضرت شاہ آلِ رسولکے خاتم
الخلفاء یعنی آخری خلیفہ ہوئے۔
سلسلۂ
اشرفیہ کا فروغ:
حضور اشرفی میاں کی ذات سے سلسلۂ اشرفیہ کو بڑا فروغ حاصل
ہوا حضرت مخدوم
سلطان اشرف سمنانی کےبعد
سلسلۂ عالیہ اشرفیہ میں آپ جیسا مرجع الخلائق کوئی دوسرابزرگ نہیں گذرا۔یہی وجہ ہے
کہ آپ کو ’’مجددِ سلسلۂ اشرفیہ‘‘ کے لقب سے
یاد کیا جاتا ہے۔آپ کی عظیم روحانی شخصیت کو دیکھ کر ہندوستان، پاکستان ، بنگلہ
دیش، نیپال اور عرب ممالک میں عدن، جدّہ، مکۃ المکرمہ، مدینۃالمنورہ، شام،
حلب،ترکی، عراق، مصر، یمن کے جیّد علمائے کرام نے آپ کے دستِ مبارک پر بیعت کی اور
اکثر علمائے کرام اور ساداتِ عظام روحانی تربیت کے بعد سلسلۂ عالیہ اشرفیہ کی
اجازت وخلافت سے سر فراز کیےگئے۔
تبلیغی
خدمات:
حضور اشرفی میاں کی تبلیغی خدمات اور
ارشادات کا دائرہ کاراتنا وسیع ہےکہ احاطۂ تحریر میں لانا مشکل ہے۔ عہد ِخُردسے
زندگی کے آخری لمحے تک اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں کوشاں رہے اوردینِ اسلام
کے فروغ کے لئے تا عمرجدو جہد کرتے رہے۔لاکھوں گم گشتہ راہوں کو راہ
ِمستقیم پر گامزن فرمایا۔تشنگان علوم و معرفت اور متلاشیان حق کو جامِ معرفت سے
سرشار کرکے حق کی راہ دکھائی۔ تبلیغ و ارشاد کا ہی جذبہ کارفرما تھا کہ آپ نے ہند
وپاک کے علاوہ بہت سارے ممالک ِاسلامیہ کی سیر وسیاحت فرمائی۔ اس وجہ سے لوگ آپ کو مخدومِ
جہانیاں جہاں گشت کا پرتو، اور مخدوم اشرف کا مظہرِ اتم
وحقیقی جانشیں کہنے لگے۔ اس ضمن میں آپ نے لاکھوں غیر مسلموں کو مشرف بَہ
اسلام کیا اور لاکھوں افراد آپ کے دست ِمبار ک پر تائب ہوئے۔
مساجد
و مدارس:
حضور اشرفی
میاں نے کئی مساجد
اور متعدد مدارس کے سنگِ بنیاد بھی رکھے۔
جامعہ فیض العلوم محمد آباد، گوہنہ، جامعہ اشرفیہ ضیاء العلوم خیرآباد، اعظم گڑھ
کے علاوہ، ہندوستان کی مشہور و معروف درس گاہ دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم مبارک
پور کا سنگِ بنیاد بھی آپ ہی نے رکھا۔
تقاریر
اور مثنوی شریف:
حضور اشرفی میاں کی پُر اثر
تقاریر دل کی گہرائی میں اتر کر انتہائی مؤثر نقوش چھوڑ جاتی تھی۔ مثنوی
شریف پڑھنے کا تو انداز ہی انوکھا اور نرالا تھا۔
سیرت
وکردار:
شیخ المشائخ محبوبِ ربانی حضرت سیّد شاہ
محمد علی حسین اشرفی جیلانی کچھوچھوی علم و عرفان کا روشن چراغ تھے، زہد و اتقا،
پرہیز گاری و تقویٰ اور تسلیم و رضا کا پیکر تھے، شریعت و طریقت، حقیقت و معرفت کےجامع
تھے، حُسنِ اخلاق، جود و سخا، عفو و
درگزر، سادگی، انکسار و تواضع،، صدق و اخلاص، امانت و دیانت، ولایت و شرافت؛
الغرض، تمام اوصافِ حمیدہ آپ میں بدرجۂ اتم پائے جاتے تھے، آپ فخرِ اَسلاف تھے۔
سلسلۂ اشرفیہ کی بھر پور اشاعت کی بدولت آپ ’’مجددِ سلسلۂ اشرفیہ‘‘ کہلائے جانے
میں حق بجانب تھے۔
صورتِ
پُراَنوار:
حضور اشرفی میاں کو اللہ تعا لیٰ نے حُسنِ
سیرت کے ساتھ حُسنِ صورت بھی کمال درجے کا عطا فرمایا تھا۔آپ اعلیٰ اوصاف
وخصوصیات کے ساتھ ، ظاہری شکل وصورت میں حضور غوثِ
اعظم کےہم شبیہ تھے۔ہزار ہا افراد تو صرف آپ کے حُسنِ خدا داد کی زیارت
سےحلقہ بگوشِ اسلام ہوئے، اَربابِ مشاہدہ نےاس کی تصدیق فرمائی ہے۔
حج و
زیارتِ حرمین شریفین:
حضور اشرفی میاں چار بار حج بیت اللہ اور
زیارتِ حرمین شریفین سے مشرف ہوئے:
پہلی بار حج 1293ھ میں، دوسری بار1323ھ میں، تیسری بار 1329ھ میں
اور چوتھی بار 1354ھ میں۔ چوتھی بار حج کے
موقع پر حرمین شریفین میں سیکڑوں علمائے کرام و مشائخِ عظام
حضور اشرفی میاں کے دستِ مبارک پر بیعت ہوکر اجازت و خلافت سے نوازے گئے۔
حضور اشرفی میاں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا:
شیخِ اعظم مخدوم
العلماحضرت علامہ مولانا سیّد شاہ اظہار اشرف کی روایت ہے کہ
ایک مرتبہ حضر ت اشرفی میاں حضرت
سلطان المشائخ محبوبِ الٰہی کے مزار پاک کے اندر سے فاتحہ
پڑھ کر نکل رہےتھے،اور اعلیٰ
حضرت امامِ اہلِ سنّت مولانا شاہ
احمد رضا بغرضِ
فاتحہ اندر جارہے تھےکہ فاضل بریلوی کی نظر آپ پر پڑی، دیکھا تو اُسی وقت
برجستہ یہ شعر کہا :
اشرفی
اے رخت آئینۂ حُسنِ
خوباں
اے
نظر کردۂ و پروردۂِ سہ محبوباں
شعرِ اعلیٰ حضرت پر تضمینِ
محدثِ اعظم ہند:
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کے مذکورۂ بالا
شعر پر محدثِ اعظمِ ہند حضرت علامہ سیّد محمد اشرفی
جیلانی کچھوچھوی نے مندرجۂ ذیل
تضمین کہی:
اے زہے مظہرِ اخلاقِ
حبیبِ رحماں
اے گلے منظرِ نورستۂ غوثِ
جیلاں
اے
خوشا زیب وہ جادۂ شاہِ سمناں
اشرفی
اے رخت آئینۂ حُسنِ خوباں
اے
نظر کردۂ و پروردۂِ سہ محبوباں
مورے
داتا مورے مہراج گرو مور میاں
جگ
کا دیکھا مدا کچھ اور ہے بتیاں تو نہاں
توری
مہما کا بکھانت ہیں رضا شیخ جہاں
اشرفی
اے رخت آئینۂ حُسنِ خوباں
اے
نظر کردۂ و پروردۂِ سہ محبوباں
پہلی شادی:
حضرت سیّد شاہ حمایت اشرف بسکھاری کی صاحبزادی
سے 1385ھ میں آپ کی پہلی شادی
ہوئی۔
دوسری
شادی:
پہلی زوجۂ محترمہ کے وصال کے بعد، حضور
اشرفی میاں کی شادی حضرت شاہ تجمل حسین (صالح پور) کی صاحبزادی سے ہوئی۔
اَولادِ
اَمجاد:
حضور اشرفی میاں کے دو (2)صاحبزادے اور
دو(2) ہی صاحبزادیاں تھیں:
پہلی زوجۂ محترمہ سے حضور اشرفی میاں کے
بڑے صاحبزادے عالمِ ربّانی حضرت علامہ ابوالمحمود
سیّد شاہ احمد اشرف اشرفی جیلانی[4؍ شوّال المکرم 1386ھ بروز جمعہ، وقتِ صبح پیدا
ہوئے، اور 14 ربیع الآخر(پندھویں شب) 1347ھ کوبعارضۂ اسہال و طاعون حالتِ نماز میں
وصال فرمایا اور درجۂ شہادت پایا۔
دوسری زوجۂ
محترمہ سے حضور
اشرفی میاںکے ہاں، ذوالقعدہ 1311ھ بروز
پیر، ایک صاحبزادے حضرت سیّد شاہ مصطفیٰ اشرف کی ولادت ہوئی،جن کا وصال 17؍ ربیع الاوّل
1376ھ کو ہوا۔
انھی دوسری زوجۂ محترمہ سے دو صاحبزادیوں کی بھی ولادت ہوئی۔
ولی
عہد وسجادہ نشیں:
حضور اشرفی میاں نے پہلے
اپنے بڑے صاحبزادے عالمِ ربّانی حضرت علامہ ابوالمحمود سیّد شاہ احمد اشرف اشرفی
جیلانی کو 1323 ھ میں اپنا ولی عہد اور جانشیں نامزد کیا تھا، لیکن آپ کی زندگی
ہی میں اُن کا وصال ہو گیا، تو اُن کے صاحبزادے اور اپنے پوتے سرکار کلاں
حضرت علامہ سیّد محمد مختار اشرف
اشرفی جیلانی عرف ’’محمد میاں‘‘ کو حضور اشرفی میاں نے اپنے وصال سے ایک ماہ پانچ دن قبل ایک وصیت کے ذریے اپنا
سجادہ نشین مقرر کر دیا۔
خلفائے کرام:
حضور اشرفی میاںکے خلفائے کرام کی تعدادہزاروں میں ہے، اور وہ سب اپنی اپنی
جگہ علم و عمل کے بلند و بالا پہاڑ ہیں۔ اُن میں سے بہت سے خلفا تو ایسے بھی ہیں،
جو آپ کے محبوب و محب دوست اعلیٰ حضرت امام احمد رضا
محدث بریلویکے بھی خلفامیں شامل ہیں، یہاں تک کہ جہاں حضور اشرفی میاںنے
اعلیٰ حضرت کے بڑے صاحبزادے حجۃ الاسلام حضرت
علامہ محمد حامد رضا خاں بریلوی کو خلافت سے نوازا تو وہاں اعلیٰ حضرتنے بھی حضور اشرفی میاںکے بڑے صاحبزادے
حضرت علامہ ابوالمحمود سیّد شاہ احمد اشرف اشرفی
جیلانی کو خلافت عطا فرمائی۔
ذیل میں چند خاص مشہور
خلفا ئے اجل کے نام درج کیے جا رہے ہیں:
1.
عالمِ ربّانی حضرت علامہ ابوالمحمود سیّد شاہ احمد اشرف اشرفی جیلانی (آپ حضور
اشرفی میاں کے بڑے صاحبزادے اور خلیفۂ اوّل تھے۔
2.
قطبِ ربّانی حضرت
سیّد طاہر اشرف الاشرفی الجیلانی(دربارِ اشرفیہ، فردوس کالونی، کراچی)
3.
مبلغِ اسلام حضرت
علامہ سیّد میر غلام بھیک نیرنگ المخاطب بہ فقیراللہ شاہ
4.
حضرت علامہ سیّد
دیدار علی شاہ اشرفی محدث الوری (حزب الاحناف، لاہور)
5.
حضرت علامہ
ابوالحسنات سیّد محمد احمد اشرفی ابنِ
حضرت علامہ سیّد دیدار علی شاہ اشرفی الوری
6.
حضرت علامہ
ابوالبرکات سیّد احمد قادری اشرفی المخاطب بہ حامداللہ شاہابن حضرت علامہ سیّد
دیدار علی شاہ اشرفی الوری (حزب الاحناف، لاہور)
7.
حضرت علامہ سیّد
غلام قطب الدین برھمچاری المخاطب بہ فقیراللہ شاہ
8.
امینِ شریعت حضرت علامہ
مفتی سیّدشاہ رفاقت حسین کانپوری
9.
رئیس المحققین حضرت علامہ سیّد سلیمان اشرف
10.
حضرت علامہ سیّد
شاہ امیرحمزہ اشرفی الجلالی دہلوی (آپ حضرت مخدوم سیّد جلال الدین جہانیاں جہاں
گشت بخاری کی اولادِ اَمجاد سے تھے)
11.
حضرت علامہ سیّد
ناصر جلالی دہلوی ابنِ حضرت علامہ سیّد شاہ امیرحمزہ اشرفی الجلالی دہلوی
12.
حجۃ الاسلام حضرت
علامہ محمد حامد رضا خاں بریلوی(اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی کے خلفِ اکبر)
13.
صدرالافاضل حضرت
علامہ حکیم حافظ سیّد محمد نعیم الدین
مرادآبادی المخاطب بہ نعیم اللہ شاہ(امام شاہ احمد نورانی صدّیقیکے دادا اُستاذ)
14.
آفتابِ ہند امام
النحو صدرالعلما حضرت علامہ سیّد غلام(محی الدین) جیلانی میرٹھی المخاطب بہ محی
الاسلام (حضرت امام شاہ احمد نورانی صدّیقی کے استاذِ محترم)
15.
مجاہدِ جنگِ آزادی
حضرت علامہ شاہ عبدالحکیم جوش و حکیم صدّیقی میرٹھی المخاطب (امام شاہ احمد نورانی صدّیقی کے دادا حضور)
16.
مبلغِ اسلام
حضرت علامہ امام الدین شاہ احمد مختار صدّیقی میرٹھی (امام شاہ احمد نورانی صدّیقیکے تایا حضور)
17.
مبلغِ اسلام حضرت
علامہ محمد بشیر صدّیقی (امام شاہ احمد نورانی صدّیقیکے تایا حضور)
18.
خطیب العلما حضرت
علامہ نذیر احمد صدّیقی خجندؔی (امام شاہ احمد نورانی صدّیقیکے تایا حضور)
19.
اس فقیر (ندیم احمد ندؔیم نورانی) کے دادا پیر و مرشِد مبلغِ اعظم
حضرت علامہ شاہ محمد عبدالعلیم صدّیقی میرٹھی مدنی(امام شاہ احمد نورانی
صدّیقیکے والدِ ماجد)
20.
قطبِ مدینہ حضرت
علامہ ضیاء الدین احمد قادری مدنی المخاطب بہ نوراللہ شاہ(امام شاہ احمد نورانی
صدّیقی کے دادا سسر)
21.
فضیلۃ الشیخ حضرت
علامہ محمد فضل الرحمٰن مدنی ابنِ قطبِ مدینہ حضرت ضیاء الدین احمد قادری (امام
شاہ احمد نورانی صدّیقیآپ کے داماد تھے)
22.
تاج العلما حضرت
علامہ مفتی محمد عمر نعیمی المخاطب بہ فاروق اللہ شاہ (حضرت علامہ مفتی محمد اطہر
نعیمی کے والدِ ماجد)
23.
حضرت علامہ عارف
اللہ شاہ قادری میرٹھی المخاطب بہ عرفان اللہ شاہ ابنِ علامہ
شاہ حبیب اللہ قادری
24.
سلطان الواعظین
حضرت علامہ عبدالاحد قادری الخاطب بہ واحد اللہ شاہ ابن حضرت علامہ شاہ وصی احمد
محدث سورتی
25.
فقیہ العصر حضرت
علامہ عبدالرشید خاں فتحپوری المخاطب بہ ارشاداللہ شاہ
26.
زبدۃ العارفین حضرت علامہ شاہ رکن الدین الوری
27.
فخرالعلما حضرت مولانا سیّد شاہ محمد فاخر الٰہ آبادی
28.
استاذالعلما حضرت علامہ مفتی امتیاز احمد انبیٹھوی المخاطب بہ اعزازاللہ شاہ
29.
حضرت علامہ خلیل الدین احمد بریلوی المخاطب بہ خلیل اللہ شاہ
30.
استاذالعلما حضرت علامہ عبدالمجیدآنولوی المخاطب بہ عزت اللہ شاہ(حضرت علامہ
مفتی محمد حسن حقانی اشرفیکے دادا حضور)
31.
استاذالعلما مُفتیِ آگرہ حضرت علامہ عبدالحفیظ حقانی المخاطب بہ حفیظ اللہ
شاہ(حضرت علامہ مفتی محمد حسن حقانی اشرفی کے دادا والدِ ماجد)
32.
حضرت علامہ نواب رستم علی خاں اکبرآبادی
33.
مجاہدِ ملّت حضرت علامہ حبیب الرحمٰن اڑیسوی المخاطب بہ حجۃ اللہ شاہ
34.
حضرت علامہ مفتی محمد ابوذر سنبھلی
35.
شمس العلماحضرت علامہ شاہ ابوالخیر فصیحی غازی پوری
36.
حضرت علامہ شاہ محمد رضوان غازی پوری المخاطب بہ ضیاء اللہ شاہ
37.
سراج الاسلام حضرت علامہ سیّد مصباح الدین گلاؤٹھوی
38.
بحرالاکمال اُستاذالعلما حضرت علامہ محمد یونس نعیمی اشرفی سنبھلی
39.
حضرت علامہ شیخ شمس الہدیٰ المخاطب بہ ضیاءالاسلام ابن صدرالشریعہ حضرت علامہ امجد علی اعظمی (حضرت
علامہ مفتی ظفر علی نعمانی آپ کے داماد تھے)
40.
حضرت علامہ شاہ قمرالدین اشرفی اکبرآبادی المخاطب بہ نوراللہ شاہ
41.
حضرت علامہ شاہ رشیدالدین احمد فردوسی بہاری المخاطب بہ ارشاداللہ شاہ (آپ
آستانۂ حضرت مخدوم شیخ شرف الدین یحییٰ
منیری کے سجادہ نشیں حضرت امین الاولیا علامہ شاہ امین احمد فردوسی کے فرزندِ
ارجمند تھے)
42.
مبلغِ اسلام حضرت علامہ شاہ محمد قائم قتیل دانا پوری المخاطب بہ قیام
اللہ شاہ
43.
حضرت علامہ حکیم شاہ افتخارالحق
44.
حضرت علامہ حکیم سیّد آل حسن (حضرت عبداللہ شاہ غازی کے جوار میں اور حضرت
امام شاہ احمد نورانی صدّیقیکے مزار پُر اَنوار کے برابر میں آپ کا مزارِ مبارک
ہے)
45.
حافظِ ملّت حضرت علامہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی المخاطب بہ عزت اللہ شاہ
46.
شیخ التفسیر مُفتیِ آگرہ حضرت علامہ نثار احمد کانپوری(آپ استادِ زمن حضرت
علامہ الحاج احمد حسن کانپوری کے فرزندِ ارجمندتھے)
47.
اُستاذالعلما حضرت علامہ شاہ مشتاق
احمد کانپوری(آپ بھی حضرت علامہ احمد حسن کانپوری کے فرزندِ ارجمندتھے)
دیوان:
حضور اشرفی میاںایک قادرالکلام شاعر بھی تھے،
آپ کے مرید وخلیفہ مبلغِ اسلام حضرت علامہ
سیّد میرغلام بھیک نیرنگنے 1333ھ میں آپ کا مجموعۂ کلام مرتّب کر کے ’’تحائفِ اشرفی‘‘ کے نام سے شائع کیا۔
وصالِ
پُر ملال: 11؍ رجب المرجب1355ھ میں آپ کا وصال ہوا۔
کفن اورغسل:
حضور اشرفی میاں کو غسل مفسرِ شہیر و شارحِ مشکوٰۃ حضرت علامہ مفتی
احمد یار خاں نعیمی نے دیا۔
چناں چہ حضرت مفتی
صاحب ایک حدیث شریف کی شرح کرتے ہوئےلکھتے ہیں:
’’ہمارے دادا پیر حضرت شاہ علی حسین صاحب کچھوچھوی عرف
اشرفی میاں نے اپنی موت و کفن کے لیے یمنی حُلّہ، طائف شریف کا شہد، آبِ زمزم اور
خاکِ شفا محفوظ رکھی تھی اور فرمایا تھا کہ نزع کے وقت یہ شہد، پانی اور خاکِ شفا
ملا کر میرے مُنھ میں ٹپکایا جائے اور اس حلۂ یمنی میں مجھے کفن دیا جائے، یہ اِسی
حدیث (خَیْرُالْکَفَنِ الْحُلَّۃ یعنی بہترین کفن یمنی جوڑا ہے) پر عمل تھا۔ اَلْحَمْدُلِلہِ ! کہ فقیر اُس وقت حاضر تھا، بلکہ حضرت کو غسل میں نے دیا۔‘‘ (مِرْاٰۃ شرح مشکوٰۃ، مکتبۂ اسلامیہ، لاہور، جلد دوم، ص449)
مزارِ
پُر اَنوار:
حضور اشرفی میاں نے وصال سے چندروز قبل، حضرت محبوبِ یزدانی مخدوم سلطان سیّداشرف جہانگیر سمنانی چشتی نظامیکے قدموں میں اپنی قبر بنوالی تھی، اُسی میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔