محفوظ الحق شاہ چشتی صابری قادری، خلیفۂ قطبِ
مدینہ علامہ سیّد محمد
نام: سیّد محمد محفوظ الحق شاہ
ولادت : ۱۹۴۰ ء میں ہوئی۔
مقام ولادت : ضلع ہوشیار پور انڈیا
لقب : رئیس المتکلمین، پیر ِطریقت
والد ماجد: علامہ پیر سیّد علی محمد شاہ
صاحب چشتی صابری
تحصیل علم :
ابتدائی تعلیم اپنے مربی والدِ گرامی پیر سیّد علی محمد شاہ
چشتی صابری رَحِمَہُ اللہُ تَعَالٰی سے حاصل کی۔ اس دوران قیامِ پاکستان کے بعد بورے والا کے نواح میں مسکن
بنایا،دنیاوی تعلیم مقامی اسکول میں حاصل کی اور دینی تعلیم کے حصول کے لیے آپ کے
والدِ گرامی نے آپ کے برادرِ اکبر علامہ پیر سیّد عبدالخالق شاہ صاحب کے ساتھ
آپ کو مدسۂ عربیہ احیاء العلوم میں اُس کے
بانی مفتی الگوں، علامہ مفتی عبدالعزیز
الگوی مجددی نقشبندی کی خدمت میں پیش کردیا، جہاں آپ نے ابتدا سے لے کر انتہاء تک
تمام علومِ عقلیہ و نقلیہ مع دورۂحدیث
مکمل کیا اور ۱۹۵۹ ء میں سندِ فراغت حاصل کی اور استاذِ گرامی نیز مفتیِ اعظم پاکستان خلیفۂ اعلیٰ حضرت علامہ ابوالبرکات سیّد احمد
قادری کے دستِ مبارک سے دستار بندی ہوئی۔ فراغت کے سال ہی مرکزی جامع مسجدغلہ منڈی
بورے والا میں امامت و خطابت کے لیے مقرر ہوئے اور وصال تک اس منصب پر فائز رہے ۔ پھر اسی سال۱۹۵۹ ء میں دارالعلوم حزب الاحناف لاہور میں شیخ القرآن
علامہ غلام علی اوکاڑوی سے دورۂ تفسیر قرآن پڑھا اور سند حاصل کی ۔
بیعت وخلافت :
آپ نے سلسلۂ چشتیہ صابریہ میں پیرِ طریقت ،رہبرِ شریعت حضرت خواجہ محمد غوث چشتی صابری کے دستِ مبارک پر
بیعت کا شرف پایا اور اپنے والدِ گرامی پیر سیّد علی محمد شاہ صاحب چشتی صابری سے
سلوک کی تکمیل کرکے سلسلۂ چشتیہ صابریہ میں خلافت کا شرف پایا نیز حرمین شریفین
حاضری کے موقع پر قطبِ مدینہ خلیفۂ اعلیٰ حضرت حضرت مولانا ضیاء الدین احمد قادری
مدنی سے سلاسلِ تصوف و طریقت میں اجازت و خلافت پائی، نیز مفتی اعظم
پاکستان ،خلیفۂ اعلیٰ حضرت علامہ ابوالبرکات سیّد احمد قادری سےعلوم و حدیث کے علاوہ سلاسل میں بھی خلافت
پائی اور اسی طرح اپنے استاذِ گرامی شیخ القرآن علامہ غلام علی اوکاڑوی سے بھی اجازت و خلافت حاصل کی ۔
تراجمِ کتب :
آپ اپنی تبلیغی مصروفیات کے باوجود تالیف وتحقیق و ترجمہ کی جانب متوجہ رہے، جن میں جواہرِ
عزیزی ترجمۂ تفسیر عزیزی، برکاتِ روحانی ترجمۂ طبقاتِ امام شعرانی، جناتِ عدن ترجمۂ لطائف المنن،الیواقیت والجواہر فی بیان عقائد
الاکابر، انوار الصدیق
ترجمۂ عمدۃ التحقیق فی بشائر آل الصدیق،ترجمۂ طہارۃ القلوب، ترجمۂ نزہۃ الناظرین وغیرہ منصۂ شہود ہوکرمقبولِ خاص و عام ہوئے ۔
سیرت و کردار:
علامہ پیر سیّد محمد محفوظ الحق شاہ صاحب نے زندگی کے۶۳ برس
مسلسل تبلیغ دین کے لیے وقف کر دیے، نہ دن
دیکھا نہ رات، نہ آرام میسر آیا نہ سکون، نہ دسمبر کی سخت سردی
آپ کے دینی تبلیغی کام میں رکاوٹ بنی نہ جون کی گرمی آپ کو روک پائی۔ اللہ تعالیٰ
ورسولﷺ کی رضا کے لیے اس کے دین کی ترویج و اشاعت کے لیے بر سرِ پیکار رہے۔ تحریکِ
ختمِ نبوّت ہو یا تحریکِ تحفّظِ ناموسِ رسالت ہر محاذ پر آپ باطل کے آگے سینہ سپر
رہے۔ آپ کے والدِ گرامی نے اس انداز سے آپ کی تربیت فرمائی کہ آپ نے ہمیشہ علائق
دنیا سے الگ رہ کر دین کی ترویج و اشاعت میں اپنے آپ کو سر گرمِ عمل رکھا آپ کے
اَساتذۂ کرام جو علومِ ظاہر وباطن کے جامع تھے ان کے فیض سے آپ کا ظاہر و باطن بھی
جگمگاتا رہا ۔ خطابت کی دنیا میں اپنی مثال آپ تھے، اکابر علمائے کرام کے ہوتے
ہوئے آپ نے اپنی خطابت کا لوہا منوایا اور ایسا محققانہ خطاب فرماتے کہ علماء عش
عش کر اٹھتے۔ اکابرینِ اہلِ سنّت کو آ پ پر
اعتمادِ کُلّی تھا، اسی لیے اس دور میں بھی ان کی نگاہِ انتخاب آپ پر پڑتی اور آپ
محققانہ خطاب فرماکر ان سے دعائیں لیتے۔
دارالعلوم حزب الاحناف لاہور ، جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد ،جامعہ انوار
العلوم ملتان ،دارالعلوم حنفیہ فریدیہ بصیر پور ،جامعہ حنفیہ اشرف المدارس
اوکاڑہ ودیگر جامعات ومراکزِ اہلِ سنّت کے سالانہ
جلسہ ہائے دستارِ فضیلت میں تقریبا ً ہر سال آپ کا خطابِ لاجواب ایک تاریخی حیثیت
رکھتا ہے۔ آپ نے قطبِ مدینہ حضرت علامہ
مولانا ضیاءالدین احمد قادری مدنی ،مفتیِ اعظم پاکستان ابوالبرکات
علامہ سیّد احمد قادری ،غزالیِ زماں رازیِ دوراں علامہ سیّد احمد سعید کاظمی،محدث اعظم
پاکستان علامہ ابوالفضل محمد سردار احمد چشتی قادری، شیخ القرآن ابوالحقائق علامہ
عبدالغفور ہزاروی ، حکیم الامّت علامہ
مفتی احمد یار خاں نعیمی ،فقیہِ اعظم پاکستان علامہ مولانا نور اللہ نعیمی بصیرپوری ،شیخ القرآن علامہ غلام علی
اوکاڑوی رحمہم اللہ تعالٰی وغیرہم اکابرین کی صدارت و موجودگی میں خطابات فرمائے اور ان بزرگوں کی توجہاتِ عالیہ
کا مرکز و محور رہے ۔
عرس اعلی حضرت میں خطاب:
آپ نے انجمن ضیائے طیبہ کراچی کے زیرِ اہتمام عرسِ اعلیٰ حضرت کی محافل سے بھی تین مرتبہ اپن علمی و شان دار خطاب سے شرکائے محفل کو محظوظ فرمایا ہے۔
زیارت حرمین
شریفین:
آپ نے دو بار حج بیت اللہ و زیارت اور تین بار عمرے کی
سعادت حاصل کی ۔
صاحبزادگان:
آپ کے صاحبزادگان
کے نام یہ ہیں:
پروفیسر سید محمد اَنوارالحق، علامہ سیّد محمد محمودالحق،
سیّد محمد اظہارالحق اور سیّد محمد افتخارالحق۔
وصال پر ملال:
شاہ صاحب مختصر علالت کے بعد ۲۶؍ محرم الحرام ۱۴۴۳ھ /4؍
ستمبر 2021ءبروزِ ہفتہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ ۵؍ ستمبر۲۰۲۱ء بروزِ اتوار
تقریباً ۱۲؍ بجے دن کالج گراؤنڈ بورے والامیں آپ کی نمازِ جنازہ جگرگوشۂ غزالیِ زماں مفکرِ اسلام حضرت علامہ سیّد حامد سعید کاظمی کی اقتدا میں ادا کی گئی اور جامع مسجد غلہ
منڈی بورے والا کے ایک حجرے میں تدفین عمل میں آئی۔
اللہ عز وجل اپنے حبیبِ کریم ﷺ کے طفیل آپ کے مزارِ پُرانوار پر اپنی
رحمت کی بارش فرمائے اور آپ کے صاحبزادگان کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ آپ کے مشن کو جاری و ساری رکھیں۔
آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ!
