امام الفقہاءوالمحدثین حضرت علامہ سید محمد دیدار علی شاہ الوری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: کنیت :ابو محمد ۔اسمِ گرامی :سید دیدارعلی شاہ بن سید نجف علی شاہ۔آپ کے پردادا سید خلیل شاہ علیہ الرحمہ" مشہد مقدس " سے ہندوستان تشریف لائے اور" ریاست الور" میں قیام پذیر ہوئے ۔آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام موسیٰ رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتاہے ۔
تاریخِ ولادت: امام المحدثین سید محمد دیدار علی شاہ۔1273ھ/1856ء بروز پیر محلہ نواب پورہ ، الور میں پیدا ہوئے۔
تحصیلِ علم: قرآنِ پاک آپ نے اپنے عمِ محترم ولیِ کامل مولانا سید نثار علی شاہ الوری علیہ الرحمہ سے پڑھا۔ابتدئی درسیات کی کتب مولانا قمرالدین اورمولانا شاہ کرامت علی سے پڑھیں، فقہ و منطق کی تحصیل مولانا ارشاد حسین رام پوری سے کی ،اور دورہ ٔحدیث کی تکمیل مولانا احمد علی محدث سہارنپوری اور حضرت مولانا شاہ فضل الرحمٰن گنج مراد آبادی سے حاصل کی ، حضرت شیخ الاسلام پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی اور مولانا وصی احمد محدث سورتی آپ کے ہم درس تھے۔(علیہم الرحمہ)
بیعت وخلافت: اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے آپکو اور آپ کے قابلِ صد افتخار فرزند مفتیِ اعظم پاکستان مولانا سید ابو البرکات کو اجازت وخلافت عطا فرماتے ہوئے تمام اور ادو وظائف اورتمام کتب فقہ حنفی کی روایت کی اجازت عطاءفرمائی۔
سیرت وخصائص: امام الفقہاء والمحدثین،رئیس العلماء والمتکلمین،جامع علومِ نقلیہ وعقلیہ ، ز بدۃ المشائخ،آفتاب ِشریعت ماہتابِ رضویت،ابومحمد سید محمددیدار علی شاہ علیہ الرحمۃ والرضوان۔حضرت کی ذات ستودہ صفات محتاجِ تعارف نہیں ہے،بے باکی اور حق گوئی آپ کی طبیعت ثانیہ تھی۔مخالفین و حاسدین کے غوغےآپ کے پائے ثبات کو جنبش نہ دے سکے،دنیا کی کوئی طاقت آپ کو مرعوب نہ کرسکی۔علم وفضل کے گویا سمندر تھے ۔سورۂ ِفاتحہ کا درس شروع کیاتو ایک سال تک صرف سورۂ ِ فاتحہ کا درس جاری رہا۔اس درس کی خصوصیت یہ تھی کہ سننے والے پابندِ شریعت ہوگئے،سینکڑوں نے گناہوں سے توبہ کرلی۔اسی درسِ قرآن کی برکت سے بہت سے ہندو دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔آپکا وعظ عوام و خواص میں مقبول وپر اثرہو تا تھا۔
آپ کے خلوص،ایثار،زہدو تقویٰ سادگی اور اخلاقِ عالیہ کا زمانہ معترف تھا۔دینی طلباء پر شفقت فرماتے۔علماء کی عزت وتکریم آپ کا شیوہ تھا۔اپنی ضروریات کی اشیاء بازار سے خود خرید لاتے،جہاں خلافِ شریعت بات دیکھتے تو نرمی وشفقت سے سمجھاتے۔شہر کے تاجروں کو مسائلِ تجارت سے آگاہ فرماتے۔
مسلک اہلِ سنت وجماعت کی بقا ء اور ترویج کیلئے مساجد ومدارس کے قیام پر خصوصی توجہ دی ،اور خود ساری زندگی درس وتدریس تصنیف وتالیف اور فتویٰ نویسی سے وابستہ رہے۔آج پاکستان کے ہر شہر وقصبہ میں حزب الاحناف کے فضلاء مسلکِ رضا (جوکہ درحقیقت عین اسلام ہے) کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں ۔
ملکِ عزیز پاکستان کے لئے آپکی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔اس وقت دو قومی نظریئے کی حمایت میں جامع فتویٰ آپ نے ہی دیا تھا ،اس کی لاکھوں کاپیاں ہندوستان کے طول وعرض میں تقسیم کی گئیں ۔مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی اسی فتوے سے متأثر ہوکر دوقومی کے نظریئے کی مکمل تائید وحمایت کا اعلان کیا۔آپ کی کوششوں سے احراری وکانگریسی مولوی(جو اِس وقت پاکستان کے مامےبنے ہوئے ہیں ) ذلیل وخوار ہوکر بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ ؎ لیکن منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے۔
اعلیٰ حضرت مجددِ ملت نے آپ کو اسطرح یاد فرمایا ہے:
مولانا دیدار علی کو
کب دیدار دکھاتے یہ ہیں
وصال: 22رجب المرجب ، 20 اکتوبر 1354ھ/1935ء کو اپنے رب کریم کے دربار میں حاضر ہوئے اور جامع مسجد اندرون دہلی دروازہ لاہور میں دفن ہوئے۔