حضرت خواجہ خاوند محمود نقشبندی المعروف حضرت ایشاں رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:حضرت خواجہ خاوند محمود نقشبندی۔لقب:حضرت ایشاں ۔والد کا اسمِ گرامی: حضرت سید شرف الدین علیہ الرحمہ ۔آپ کا شجرہ نسب والدِ گرامی کی طرف سے حضرت بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفۂ اعظم اور دامادحضرت خواجہ علاء الدین عطار نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے۔جبکہ والدہ ماجدہ کی طرف سے آپ کا شجرۂ نسب حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ کے ذریعے مولائے کائنات حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 971ھ کو بخارا میں ہوئی ۔
تحصیلِ علم: آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والدِگرامی سے حاصل کی ۔پھر بخارا کے مدرسہ سلطانی میں داخل ہوئے بارہ سال کی عمر میں آپ قرآنِ حکیم حفظ کر چکے تھے،اور 18 سال کی عمر میں تمام دینی علوم میں درجہ کمال حاصل کرلیا تھا علمائے وقت آپ کی علمی قابلیت کے زبردست معترف تھے اور آپ کی بہت قدر کرتے تھے۔اس وقت آپ کے مقابلہ کا کوئی عالم نہ تھا۔علماء بھی آپ کی طرف رجوع کرتے تھے۔
بیعت وخلافت: آپ نے حضرت خواجہ ابو اسحاق سفید نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دست مبارک پر بیعت کی جب کہ آپ کو نسبت ِ اویسی حضرت شاہ بہاء الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ سے تھی۔
سیرت وخصائص: آپ مادرزاد ولی اللہ تھے سلسلہ نقشبندیہ کے صاحب کرامت بزرگ اور لاہور کے نقشبندی اولیاء کرام میں بڑے پائے کے بزرگ تھے۔ آپ کی ذات سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کو عروج حاصل ہوا۔علومِ ظاہری میں آپ کو اس قدر کمال حاصل تھا کہ آپ کے فتویٰ کو علمائے وقت ایک سند کی حیثیت دیتے تھے آپ کی علمی قابلیت سے متاثر ہوکر بہت سے لوگ آپ کی مجلس میں بیٹھنا سعادت خیال کرتے تھے حتی کہ حاکم ِبخارا بھی آپ کی خدمت میں اکثر حاضری دیا کرتا تھا اور آپ کا بہت معتقد تھا۔ آپ نے سمر قند میں کچھ مدت قیام کیا اس دوران ہزاروں افراد آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے شہر کا حاکم بھی عقیدت مندانہ حاضر ہوا اور آپ کا مرید ہوا۔ سمر قند سے آپ ہرات تشریف لے گئے وہاں سے آپ نے قندھار کا رخ کیا بہت سے لوگوں کو اپنے حلقہ ارادت میں شامل کرنے کے بعد کابل تشریف لے گئے کابل میں بھی لاتعداد لوگ آپ کے معتقد ہوگئے اور ہزاروں کی تعداد میں آپ کے دست ِمبارک پر بیعت ہوئے کابل کا حاکم بھی آپ کے مریدین میں شامل تھا ۔
شہنشاہ ہند کی ارادت: حضرت خواجہ ایشان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جمعہ کے دِن جامع مسجد میں خطبہ جمعہ دیا آپ کے خطبے میں اس قدر اثر تھا کہ حاضرین و سامعین کے قلوب پر رقت طاری ہوگئی لوگ آپ کے زور بیان کی تاثیر سے وجد میں آگئے اور ایسی کیفیت پیدا ہوئی کہ حاضرین میں سے دو نمازی رحلت کر گئے ۔اس موقع پر بادشاہ بھی موجود تھا اس نے آپ سے ارادت و بیعت کی سعادت حاصل کی بادشاہ کے ساتھ ہزاروں لوگ بھی آپ کی بیعت سے مشرف ہوئے۔ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے دو برس تک کابل میں قیام فرمایا اس دوران آپ نے شام، عراق، روم اور کوہ طور کی طرف اپنے خلفاء مامور فرمائے اس کے بعد آپ نے کشمیر کا سفر کیا اور کشمیر میں آپ نے نہایت وسیع و عریض اور عالی شان خانقاہ تعمیر کروائی جہاں سے رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری فرمایا لوگ جوق در جوق آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور فیوض و برکات سے مستفید ہوئے آپ لوگوں کی روحانی تربیت فرماتے ہزاروں لوگوں نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی اور آپ کے حلقہ اردت میں شامل ہوئے۔ کشمیر میں ایک مدت تک رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری رکھنے کے بعد شہنشاہ جہانگیر کے کہنے پر اس کے پاس اکبر آباد گئے اور وہاں سے شہنشاہ جہانگیر کے ہمراہ پھر کشمیرتشریف لائے کشمیر میں شہنشاہ جہانگیر کی موت واقع ہوگئی چنانچہ جہانگیر کی میت کے ہمراہ لاہور تشریف لائے۔کچھ عرصہ کے بعد آپ نے لاہور میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور یہیں پر آپ کا انتقال ہوا۔
وصال: آپ کا وصال 12 شعبان المعظم /1052ھ بمطابق 1642ء بروز منگل مغرب اور عشاء کے درمیان سجدے کی حالت میں ہوا۔آپ کا مزار پرانوار بیگم پورہ نزد شالامار باغ لاہو میں زیارت گاہِ خاص وعا م ہے۔