حضرت مخدوم علاء الدین علی احمد صابر کلیری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی: سید علی احمد۔لقب:علاء الدین صابر، بانیِ سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ۔سلسلہ ٔنسب اس طرح ہے: سید علاء الدین علی احمد صابر بن سید عبدالرحیم بن سید عبدالسلام بن سید سیف الدین بن سید عبد الوہاب بن غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی۔(علیہم الرحمۃ والرضوان)
آپ کی والدہ ماجدہ حضرت بابافرید الدین مسعود گنج شکر کی ہمشیرہ تھیں،اور سلسلہ نسب امیر المؤمنین حضرت فاروقِ اعظم تک منتہی ہوتاہے۔(تذکرہ اولیائے بر صغیر،جلد دوم:207)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت بروز جمعرات 19/ربیع الاول 592ھ مطابق 22/فروری 1196ء کو بوقتِ تہجد’’ہرات‘‘ (افغانستان) میں ہوئی۔آپ کا وجود ایسا تھا کہ دایہ کو بے وضو غسل کرانے کی ہمت نہ ہوئی۔
بشارت قبل از ولادت: آپ کی ولادت سے قبل حضرت مولاعلی کرم اللہ وجہہ الکریم نے خواب میں ’’علی‘‘ نام رکھنے کا حکم فرمایا۔نبیِّ مُکرَّمﷺنے خواب میں تشریف لاکر ’’احمد‘‘ نام رکھنے کا حکم فرمایا۔آپ کی ولادت کے بعد ایک بزرگ آپ کے والد ِ گرامی سے ملاقات کے لئے تشریف لائے،اور آپ کو دیکھ کر فرمایا: ’’یہ بچہ علاء الدین کہلائے گا‘‘۔آپ کے ماموں حضرت فرید الدین گنج شکر آپ کو ’’صابر‘‘ کا لقب عطاء فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو’’علاء الدین علی احمد صابر‘‘ کےنام سے شہرت ہوئی۔۔۔۔آپ کی زبان سے جو پہلا لفظ نکلاوہ ’’لا موجود الا اللہ‘‘ تھا۔(تذکرہ اولیائے پاک وہند: 63)
تحصیلِ علم: بچپن میں ہی آثارِ سعادت واضح تھے۔آپ انتہائی ذہین وفطین ،اور عام بچوں سے بالکل مختلف تھے۔ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔پانچ سال کی عمر تھی کہ والد ِگرامی کا وصال ہوگیا۔تعلیم وتربیت کی ساری ذمہ داری والدہ ماجدہ پر آگئی۔آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔آپ کو اپنے بھائی زہد الانبیاء حضرت شیخ فرید الدین مسعود گنج شکر کی خدمت میں بھیج دیا۔آپ نے اپنی حیرت انگیز صلاحیت کی بنا پر صرف تین سال کے مختصر عرصے میں تمام علوم ِ منقول ومعقول کی مکمل تحصیل وتکمیل فرمالی۔ حضرت شیخ العالم فرماتے: علاء الدین علی احمد نے تین سال میں عربی وفارسی کی کتبِ متداولہ،تفسیر،حدیث،فقہ،معانی،اور منطق وفلسفہ وغیرہا علوم کی تکمیل کرلی۔یہ تمام علوم اتنے جلدی حاصل کرلئے کہ کوئی دوسرا بچہ پندرہ سال میں بھی حاصل نہیں کرسکتا۔(مخدوم علاء الدین احمد صابر:48)
بیعت وخلافت: آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ میں شیخ شیوخُ العالم،زُہد الانبیاء،حضرت بابافرید الدین مسعود گنج شکر کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے،مجاہدات وریاضات کے بعد خلافت سے مشرف ہوئے۔
خلافت کی عظیم الشان محفل: حضرت بابافرید الدین مسعود گنج شکر ماہ ِ رمضان المبارک میں بعد نمازِ تہجد کچھ دیر کےلئے آرام فرما ہوئے تو آپ کی آنکھ لگ گئی۔آپنے دیکھا کہ ایک ایسے مقام پر جمع ہیں کہ جہاں ہر طرف نور ہی نور ہے۔ایک عالی شان دربار سجا ہے کہ جہاں امام الانبیاءﷺ تشریف فرماہیں،اور سلسلہ عالیہ چشتیہ کے تمام اکابرین حسبِ مراتب اپنی اپنی نشستوں پر موجود ہیں۔حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے حکم دیا: ’’مخدوم علی احمد صابر کو سرور عالمﷺ کی بارگاہ میں پیش کیجئے۔آپ نے حسبِ ارشاد حضرت صابرکلیری کو بارگاہِ رسالت ﷺ میں پیش کردیا۔آپﷺ نے حضرت علی احمد صابر کی پشت پر سیدھے کندھے کی جانب بوسہ دیا اور فرمایا: ’’ہذا ولیُّ اللہ‘‘ اس کے بعد وہاں موجود تمام بزرگوں اور ملائکہ نےآپ ﷺ کی اتباع کرتے ہوئے اسی مقام پر بوسہ دیا اور یہ کہا ’’ہذا ولی اللہ‘‘پھر ہر طرف سے مبارک باد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔اسی مبارک کی صداؤں میں حضرت شیخ العالم کی آنکھ کُھل گئی‘‘۔ اگلے روز حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر نےایک عالی شان محفل کا انعقاد فرمایا جس میں حضرت ابوالحسن شاذلی، شیخ حمید الدین ناگوری، شاہ منور علی الہ آبادی، شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی، شیخ ابوالقاسم گرگانی (رحمۃ اللہ علیہم اجمعین) وغیرہ بڑے بڑے علماء و اولیاء شریک ہوئے۔ ان تمام کی موجودگی میں حضرت شیخ فرید الدین نے اپنا خؤاب بیان فرمایا،جسے سنتے ہی وہاں موجود تمام بزرگوں نے یکے بعد دیگرے آپ کی مُہرِ ولایت کوبوسہ دیا اور ’’ھٰذا وَلی ُّاللہ‘‘ کہ کر مبارک باد دی۔اس کے بعد حضرت شیخ فرید الدین گنج شکر نے شیخ علی احمد صابر کو سلسلہ عالیہ چشتیہ کی خلافت عطافرماکر اپنے دستِ مبارک سے اپنی ٹوپی پہنائی اور سبز عمامے سے آپ کی دستار بندی فرمائی،اور پھر علاقہ کلیر کی ولایت کی آپ کو عطاء فرمائی۔(تذکرہ حضرت صابر کلیر:47)
سیرت وخصائص: پروردۂ آغوشِ ولایت، گنجینۂ علم ومعرفت، وارثِ علوم ومعارفِ شیخ العالم،جگر گوشۂ غوث الاعظم،آفتابِ چشتیاں، تاج الاولیاء، سلطان الاصفیاء،منبعِ جود و سخا،عاشقِ ذاتِ الٰہ،حضرت شیخ علاء الدین سید علی احمد صابر کلیری۔آپ شیخ العالم حضرت بابا فرید الدین مسعود گنجِ شکر کے خلیفۂ اعظم،تلمیذِ ارشد، حقیقی بھانجے،اور داماد اور سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ کے بانی ہیں۔حضرت غوث الاعظم سے نسبی تعلق ہے۔آپ مادر زاد ولی اللہ تھے۔ زندگی کےپہلےسال میں آپ ایک دن دودھ پیتےتھےاوردوسرےدن دودھ نہیں پیتےتھے،گویا اس دن روزہ رکھتےتھے۔جب زندگی کادوسراسال شروع ہواتوتیسرےدن دودھ پیتےتھےاوردو روز دودھ نہیں پیتےتھےگویادودن روزہ رکھتےتھے۔جب آپ دوسال کےہوگئےتودودھ پیناچھوڑدیا، جب چوتھاسال شروع ہوااورآپ کی زبان کھلی توسب سے پہلا کلمہ جوآپ کی زبان مبارک سےنکلا وہ یہ تھا۔لَامَوجُودَاِلَّااللّٰہ۔ جب چھ سال کےہوئے تو کھانا پینا برائے نام رہ گیا۔رات کازیادہ حصہ عبادت میں گزارنےلگے۔ جب ساتواں سال شروع ہوا تو آپ نےنمازِ تہجدپابندی سےپڑھناشروع کردی۔ (تذکرہ اولیاءِ پاک وہند: 63)
صابر کی وجہ تسمیہ: سیرالاقطاب میں ہے کہ بارہ سال تک حضرت شیخ علاء الدین صابر نے حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر کے لشکر اور درویشوں کے لنگر کی خدمات انجام دی، لیکن چونکہ آپ کو کھانا کھانے کا حکم نہیں دیا گیا تھا بارہ سال تک دربار اور لنگر سے کھانا نہیں کھایا اور جنگل کی جڑی بوٹیوں سے گزارہ کرتے رہے۔ بارہ سال بعد حضرت بابا فرید نے وجہ پوچھی تو آپ نے عرض کیا آپ نے لنگر کی تیاری اور اہتمام کا حکم دیا تھا کھانے کی اجازت تو نہ دی تھی۔ آپ کی اجازت کے بغیر میری کیا مجال تھی کہ مطبخ(باورچی خانہ ) سے ایک دانہ بھی کھاتا، حضرت فریدالدین نے آپ کے اس صبر کی وجہ سے آپ کو ’’صابر‘‘ کا خطاب دیا۔(خزینۃ الاصفیاء: 153)
شیخ علاء الدین حضرت شیخ فرید الدین کے باطنی علوم کے وارث ہیں: ’’علم ِ سینہ من در ذاتِ شیخ نظام الدین بدایونی ، وعلم ِدل من ذات ِ شیخ علاء الدین احمدسرایت کردہ‘‘۔یعنی حضرت شیخ فرید الدین مسعود گنجِ شکر فرمایا کرتےتھے: ’’میرے سینے کا علم نظام الدین (محبوبِ الہی) کے پاس ہے،اور میرے دل کا علم علاء الدین (علی احمد صابر) کے پاس ہے‘‘۔ (تذکرہ اولیائے پاک وہند:67/خزینۃ الاصفیاء:154/اقتباس الانوار: 499)۔شیخ فرید الدین مسعود گنج شکر کے خلفاء میں یہ دونوں ہستیاں باکمال ہیں۔جب ایک مرتبہ آپ کے قوالوں نے دونوں حضرات کی خوش اخلاقی،تواضع وانکساری،اور مہمان نوازی کی بابا صاحب کو خبر دی۔تو آپ نے خوش ہوکر فرمایا: نظام الدین محبوبِ الہ ہیں،اور علاء الدین عاشق ِ الہ ہیں۔(حضرت علی احمد صابر کلیری: 89)
آپ ایک درویش کی طرح کلیر میں داخل ہوئے تھے۔نہ آپ نے کسی سےاپنا تعارف کرایا،اور نہ کسی نے ان کی بات پوچھی، اپنے مرشد کی طرح ایک درخت کے نیچے ڈیرہ جمالیا۔آپ کی خوراک بے نمک ابلے ہوئےگُولڑ تھے۔قلتِ طعام، قلتِ منام، اور قلتِ صحبت ان کی خصوصیات تھیں۔لباس میں کرتہ، تہبند،اور عمامے کے علاوہ ایک رومال بھی تھا جوزیبِ گلو رہتا تھا۔آپ اخلاقِ محمدیﷺ سے آراستہ تھے۔باطن ظاہر سے زیادہ رشن تھا۔ان کی روحانیت وحسنِ سلوک کی کشش نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔بہت کم گفتگو فرماتے۔اکثر استغراق کی کیفیت جاری رہتی۔لیکن اس حالت میں ایک نماز بھی قضاء نہ ہوئی۔جب نماز کےلئے ہوشیار کیے جاتے تو فرماتے: ’’شریعت بھی کیا چیز ہے، جو حضوری سے دربار میں لے آتی ہے‘‘۔ اسی طرح جب غذا پیش کی جاتی تو کہتے کہ ’’بندہ کھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کھانے سے بے نیاز ہے‘‘۔بندگی اور الوہیت کی اس سادہ سی تعریف پر ہزاروں فلسفے قربان کیے جاسکتے ہیں۔ہر حال میں شریعت کی پاسداری مقدم تھی۔آپ کا روحانی فیض آج بھی جاری ہے۔بڑے اکابرین اولیاء وعلماء سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ سے منسلک ہوکر واصل با اللہ ہوئے۔
اکثر تذنگاروں نے آپ کی طرف ایسی باتیں منسوب کی ہیں جو ایک کامل ولی کی شایانِ شان نہیں ہیں۔صحیح بات یہ ہے کہ آپ کی سوانح کئی صدیوں بعد مرتب کی گئی ،تو اس میں رطب ویابس جمع ہوگیا۔انہوں نے آپ کو جلالی اور حضرت اسرافیل و موسیٰ علیہ السلام کے نقشِ قدم پر لکھا ہے۔ آپ نے مسجد نمازیوں پر گرادی، اور اسی طرح کلیر میں ہر طرف بارہ بارہ میل تک آگ لگادی،وغیرہ۔ لیکن یہ تو سب جانتے ہیں جس نے حضرت شیخ فرید الدین کےلنگر کا انتظام بارہ سال تک بڑے منظم طریقے سے سنبھالا ہو،اور جس کے حسنِ اخلاق ،اور صبر وقناعت،توکل و احسان کی بدولت ’’صابر‘‘ کا لقب عطاء کیا گیا ہو۔وہ اپنی ذات کےلیے یہ کام کیسے کرسکتاہے۔
تاریخِ وصال: 13/ ربیع الاول690ھ مطابق 1291ء کو واصل بااللہ ہوئے۔آپ کا مزار پر انوار کلیر شریف ضلع سہارن پور(ہند) میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذ ومراجع: تذکرہ اولیائے پاک وہند۔سیر الاقطاب۔خزینۃ الاصفیاء۔اقتباس الانوار۔تذکرہ علاء الدین علی احمد صابر کلیری۔