شیخ الاسلام خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: سید محمد بختیار۔لقب: قطب الدین، کاکی۔مکمل نام: سید محمد قطب الدین بختیار کاکی۔آپ کا خاندانی تعلق حسینی ساداتِ کرام سے ہے۔سلسلۂ نسب اس طرح ہے: خواجہ قطب الدین سید بختیارکاکی بن سید کمال الدین احمد بن سید موسیٰ بن سید محمد بن سید احمد بن سید اسحاق حسن بن سید معروف بن سید احمد بن سید رضی الدین بن سید حسام الدین بن سید رشیدالدین بن سید جعفر بن امام تقی بن امام علی رضا بن بن امام موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق(رضی اللہ عنہم اجمعین)۔(سیر الاقطاب:168/اقتباس الانوار:392/خزینۃ الاصفیاء:77)
کاکی کی وجہ تسمیہ: اس لقب کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فرماتےہیں: کاک’’ کُلچے‘‘ کو کہتے ہیں ۔حضرت کو ایک مرتبہ چند(دن) فاقے ہوئے تھے اور گھر بھر میں کسی کے پاس کچھ کھانے کو نہ تھا،اُس وقت آسمان سے آپ کے واسطے کاکیں آئی تھیں یوں کاکی مشہور ہوگئے ۔(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت: 482)۔ اسی طرح سیر الاقطاب میں ہے: کہ آپ جب دہلی میں تشریف لائے تو کوئی نذرانہ وغیرہ قبول نہیں فرماتےتھے۔ایک مسلمان دوکاندار شرف الدین نامی آپ کا ہمسایہ تھا اس سے قرض لیتےتھے۔ایک مرتبہ حضرت کے گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا،ایک دو دن کے فاقے بھی ہوچکے تھے۔ حضرت کی اہلیہ نے شرف الدین کی بیوی سے نصف ٹکہ قرض لیا۔ایک دن اس نے طعن آمیز لہجے میں کہا کہ اگر ہم تمہیں قرض نہ دیں تو تم بھوکے مرجاؤ۔یہ بات حضرت کی اہلیہ کو نا گوار گزری،اور دل ہی دل میں عہد کرلیا کہ آئندہ کسی سے قرض نہیں لوں گی، اور یہ بات حضرت کی خدمت میں بھی عرض کردی۔ حضرت نے فرمایا کہ جب تمہیں کھانے کی ضرورت ہواس طاق سے بسم اللہ پڑھ کر کاک(روٹی)نکال لیا کرو۔ (سیرالاقطاب:174)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت بوقت نصف شب، بروز پیر582ھ مطابق 1186ء کو بمقام ’’اوش‘‘ وادیِ ’’فرغانہ‘‘ موجودہ (کرغیزستان) میں ہوئی۔(تذکرہ اولیائے برصغیر:48/انسائیکلو پیڈیا)
ولادت سے قبل بشارت:آپ کی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں: پیدائش کے وقت انوار و برکات کا اس قدر نزول ہوا کہ میں نے سمجھا کہ آفتاب طلوع ہوگیا ہے، اور فرماتی ہیں کہ میں نے دیکھا پیدا ہوتے ہی آپ سجدہ میں چلے گئے اور اللہ اللہ کہہ رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر میں حیران ہوئی اور ڈرنے بھی لگی۔ اس کے بعد آپ نے سر اوپر اٹھایا اور رفتہ رفتہ وہ نور کم ہوگیا۔ غیب سے آواز آئی کہ یہ نور جو تم نے دیکھا ہے ہمارے رازوں میں سے ایک راز تھا جو ہم نے تمہارے بیٹے کے قلب میں رکھا ہے۔ پھر فرماتی ہیں: کہ جب حضرت خواجہ میرے پیٹ میں تھے تو میں تہجد کے وقت اٹھتی تھی اور نماز پڑھتی تھی اور میرے پیٹ میں جنبش ہوتی تھی اور ذکر کی آواز آتی تھی۔(اقتباس الانوار:392/سیر الاقطاب169)
تحصیلِ علم: ڈیڑھ سال کی عمر تھی کہ والد گرامی کا انتقال ہوگیا۔ پرورش کی ساری ذمہ داری والدہ محترمہ کو سنبھالنا پڑی۔ عجیب اتفاق ہے کہ یہ معاملہ حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیکے ساتھ بھی پیش آیاتھا اور یہ بھی تاریخی صداقت ہے کہ مائیں تقویٰ شناس ہوں تو اولاد ولی کامل بنتی ہے۔یتیمی کی مشکلات واضح ہیں،مگر ماں نے ان چیزوں کو رکاوٹ نہ بننے دیا،بلکہ بعد میں آنے والی ماؤں کو پیغام دیا کہ تمھاری آغوش سے بھی غوث وقطب پیدا ہوسکتےہیں، بشرطیکہ ان کی تعلیم وتربیت سیرتِ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کےسائےمیں کی جائے۔جب پانچ سال کے ہوئے تو والدہ ماجدہ نے ایک ہمسایہ کے ساتھ بھیج دیا کہ کسی قابل وصالح مُعلم کے حوالے کر آؤ۔راستے میں ایک بزرگ نے کہا بچے کو ابوحفص اوشی کی خدمت میں لےجاؤ۔پھر خود بھی بچے کےساتھ شیخ ابو حفص کے ہاں آگئے۔ان سے فرمایا: ’’احکم الحاکمین کا حکم ہےکہ اس بچے کو توجہ کے ساتھ پڑھائیں،اور یہ کہ کر وہ واپس چلے گئے۔استاد نے آپ کو پیار کیا اور فرمایا تم خوش نصیب ہو،کہ حضرت خضرعلیہ السلام تمہیں میرے حوالے کرگئے ہیں‘‘۔(اقتباس الانوار:394) سبع سنابل اور سیرالاقطاب میں ہے: کہ جب استاد ابتداء سے پڑھانے لگےتو عرض کیا کہ مجھے پندرہ پارے یاد ہیں۔استاد نے پوچھا یہ پارے کہاں سے یاد کیےہیں۔جواب دیا کہ میری والدہ کو پندرہ پارے یاد تھے،وہ اکثر انہیں کی تلاوت کرتی رہتی تھیں، ان سے سن سن کر میں نے شکمِ مادر میں ہی یہ پارے حفظ کرلئے ہیں۔(سیرالاقطاب:169)۔ آپ تمام علوم ِ مروجہ کے عالم ِکامل تھے۔
بیعت وخلافت: آپ علوم ِ ظاہری کی تحصیل کے بعد سلسلہ عالیہ چشتیہ بہشتیہ میں خواجۂ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کےدستِ حق پرست پر بیعت ہوئے،اور سترہ سال کی عمر میں خلافت سے مشرف ہوئے۔آپ کے تذکرے میں ہے کہ سرورِ عالمﷺ نے حضرت خواجہ غریب نواز کو حکم فرمایا تھا کہ قطب الدین خدا کا دوست ہے،اس کو خرقہ پہناؤ۔(شمس العارفین نمبر:36)
سیرت وخصائص: دلیل العارفین، سراج الکاملین،بدر الواصلین،قائد المحبین،قطب آسمانِ ولایت،غیاث الہند،نائبِ سلطان الہند،قطب الاقطاب، شیخ الاسلام حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ۔آپ اپنے وقت کے ولیِ کامل،اور خاندانِ رسالت کے چشم وچراغ تھے۔ حضرت خواجہ غریبِ نواز کے خلیفۂ اعظم تھے۔ہرشب سو رکعت کے علاوہ تین ہزار مرتبہ درود شریف پڑھتےتھے۔تین دن خانگی مجبوری کی وجہ سے یہ تحفہ ارسال نہ کرسکے تو دربارِ مصطفیٰﷺ سے پیغام آیا کہ تمھارا ہدیہ تین راتوں سے نہیں پہنچا۔(سیر العارفین: 24)۔ اس سے اندازہ لگانا آسان ہے کہ یہ بزرگ کس قدر کامیاب تھے کہ محبوبِ کائناتﷺ ان کے مشاغل سے نہ صرف خوش تھے،بلکہ انتظار فرماتےتھے۔اس سے بڑھ کر کامرانی کی اور کیا صورت ہوسکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ غلامانِ مصطفیٰ دنیاوی شاہوں کو اپنے قریب ہی نہیں بھٹکنے دیتےتھے،اور پرِکاہ کےبرابر بھی ان کو اہمیت نہیں دیتےتھے۔ لیکن ہمارے زمانے کےنام نہاد مشائخ کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔(فقیر تونسوی ؔغفرلہ)
خواجہ غریب نواز سے خرقۂ خلافت کا حصول: ایک دن تمام مریدین مجلس میں جمع تھے۔سوال وجواب کا سلسلہ جاری تھا۔ حضرت خواجہ غریب نواز فرمانے لگے: عارف کی مثال چمکنے والے آفتاب کی طرح ہے جس کے نور سے پوری دنیا روشن ہے۔ پھر فرمایاکہ اے درویشو! ہمیں یہاں (ہندوستان)بھیجا گیا ہے۔ہماری قبر بھی یہیں ہوگی اور چند روز کے اندر ہم سفر آخرت کریں گے۔ اس کے بعد شیخ علی سنجری سے فرمایا کہ ایک تحریر لکھو کہ قطب الدین دہلی روانہ ہوجائے۔ ہم نے خلافت و سجادہ قطب الدین کو دےدی اور ان کا مقام دہلی ہوگا۔ جب حکم نامہ مکمل ہوگیا تو اس فقیر (خواجہ قطب الدین) کو عنایت فرمایا۔ اس فقیر نے سرِ تسلیم جھکا دیا۔پھر فرمایا۔ ذرا قریب آجاؤ، میں قریب ہوا تو دستار وکلاہ میرے سر پر رکھ کر خواجہ عثمان ہارونی ٰ علیہ کا عصا عطا فرمایا،اور خرقہ پہنا کر قرآنِ کریم، جائے نماز اور نعلین عطا فرمائے اور فرمایا کہ رسولِ اکرم ﷺکی یہ امانت مشائخِ چشت کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہے تم بھی اسے جاری رکھنا تاکہ قیامت کے دن مشائخ کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔ اس فقیر نے سر جھکادیا۔ پھر دو رکعت نماز ادا کی۔ اس کے بعد حضرت مرشد نے میرا ہاتھ پکڑا اور آسمان کی طرف منہ کرکے فرمایا۔ اب جاؤ تمہیں اللہ کے سپرد کیا ،اور اللہ تعالیٰ تمہیں منزل پر پہنچائے۔ پھر فرمایا کہ چار چیزیں نفس کاجوہر ہیں، اول درویشی میں تونگری کرنا، دُوم بھوک میں سیرنظر آنا، سوم غم میں مسرور معلوم ہونا، چہارُم دشمن سے بھی دوستی کا معاملہ کرنا، پھر فرمایا جہاں بھی جاؤ کسی کا دل نہ دُکھانا، اور جہاں بھی جاؤ مَردوں کی طرح رہنا۔(اخبار الاخیار: 75)
دہلی میں ورودِ مسعود: حضرت محبوب الہی سے منقول ہے کہ جب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے دہلی میں سکونت کرلی تو وہاں کے تمام اکابر، امراء ورؤ ساء اور عوام آپ نیک صورت اور نیک سیرت پر شیدا ہوگئے۔ایک دن حضرت اقدس نے اپنے پیر ومرشد حضرت خواجہ غریب نواز کی خدمت میں خط لکھا اگر اجازت ہو تو حاضر ہوکر شرفِ قدم بوسی حاصل کروں۔ حضرت خواجہ غریب نواز قدس سرہٗ نے جواب میں لکھا المرءُ مع من اَحَبّ (آدمی اسکے ساتھ ہوتا ہےجس سے اُسے محبت ہو) ۔یعنی روحانی طور پر میں آپ کے ساتھ ہوں۔انشاء اللہ تعالیٰ کچھ عرصہ بعد میں خود دہلی آؤں گا۔ یہ جواب سن کرآپ نے اجمیر شریف جانے کا ارادہ ترک کردیا۔
بادشاہ کی طرف سے منصبِ شیخ الاسلام کی پیشکش: قیام ِ دہلی کے کچھ عرصہ بعد شیخ الاسلام کے عہدے پر فائز شیخ جمال الدین محمد بسطامی کا وصال ہوگیا۔ چنانچہ سلطان شمس الدین التمش نے حضرت اقدس کی خدمت میں درخواست کی کہ آپ منصبِ شیخ الاسلام قبول فرمالیں۔ لیکن آپ نے اس کی طرف ذرہ بھر بھی توجہ نہ فرمائی۔آپ کے انکار کے بعد بادشاہ نے شیخ نجم الدین صغراء کو شیخ الاسلام مقرر کردیا ۔ پھر بتقاضائے بشریت شیخ نجم الدین میں معاصرت کی منافرت پیداہوگئی۔جب شیخ نے حضرت خواجہ غریب نواز سےیہ شکایت کی کہ قطب الاقطاب کے مقابلے میں میر ی’’ شیخ الاسلامی‘‘ کو کوئی نہیں پوچھتا۔ خواجہ صاحب نے تبسم کرتےہوئے فرمایا کہ فکر مت کو۔ میں اس مرتبہ قطب الدین کو اپنے ساتھ لے کرجارہا ہوں۔چند ایام کے بعد جب حضرت خواجہ غریب نواز دہلی سے اجمیر تشریف لےجانے لگے تو حضرت قطب الاقطاب کو بھی ساتھ لےجانے لگے۔ یہ دیکھ کر خَلقِ خدا میں شور برپا ہوگیااور تمام خاص وعام بمع سلطان شمس الدین روتے ہوئے ان کے پیچھےپیچھے روانہ ہوئے۔ حضرت خواجہ قطب الدین جس جگہ قدم رکھتےتھے لوگ وہاں کی خاک اٹھاکر منہ پر ملتے تھے۔ جب حضرت خواجہ غریب نواز نے یہ ماجرا دیکھا تو فرمایا بابا قطب الدین تم اسی جگہ پر رہ جاؤ۔ تمہارے چلے جانے سے خَلق خدا پریشان اور بے حال ہے۔ مجھے یہ بات پسند نہیں کہ تمہاری جدائی میں اتنے د ل جل کر کباب ہوجائیں۔ جاؤ۔ میں نے اس شہر کو ’’تمہاری پناہ میں دے دیا‘‘۔حضرت خواجہ غریب نواز کا یہ ارشاد آج تک اپنی عظمت منوارہاہے۔ حکومتیں بدلیں،سرحدیں تبدیل ہوئیں، لوگ بٹ گئے،لیکن یہ محبت وعقیدت آج بھی جولانی پر ہے۔
قطب الاقطاب کی وہابیوں سے نفرت: سیف اللہ المسلول حضرت شاہ فضلِ رسول بدایونی فرماتے ہیں: ’’میں قطب العالم حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مزار مبارک میں مراقبہ کررہاتھا۔ حالتِ مراقبہ میں دیکھا کہ حضور خواجہ صاحب رونق افروز ہیں اور دونوں دستِ مبارک میں اس قدر کتب کا انبار ہے کہ آسمان کی طرف حدِنظرتک کتاب پرکتاب نظرآتی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اس قدر تکلیف حضور نے کس لیے گوارا فرمائی ہے؟ ارشاد مبارک ہواکہ تم یہ بار اپنے ذمے لے کر’’ شیاطینِ وہابیہ‘‘ کا قلع قمع کردو۔آپ نے مراقبہ سے سر اٹھایا اور اسی ہفتہ میں کتابِ مستطاب ’’بوارقِ محمدیہ‘‘ تالیف فرمائی‘‘۔ ( نورنورچہرے:203)۔ حضرت شاہ عبد الرحیم دہلوی کو حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی ولادت کی بشارت عطاء فرمائی ’’ تمہارے یہاں فرزند پیدا ہوگا اُس کانام قطبُ الدِین احمد رکھنا ‘‘۔ ( اَنفاسُ العارفین:44)۔ حضرت محبوبِ الہی فرماتےہیں: میں ایک مرتبہ آپ کی مرقد کی زیارت کےلئے جارہاتھاتو دل میں ایک وسوسہ پیدا ہواکہ آیا صاحبِ قبر ہماری طرف توجہ بھی کرتےہیں یانہیں؟جب میں روضے میں داخل ہوا۔تو ایک شعرسنائی دیا۔جس کا مفہوم یہ ہے:’’تم مجھے اپنی طرح زندہ جانو،اگر تم میری قبر پر جسم کے ساتھ آتے ہو ،تو میں روح کے ساتھ آتا ہوں‘‘۔ (سیر الاولیاء:109)
تاریخِ وصال: بروز پیر 14/ربیع الاول 635ھ مطابق30/نومبر 1237ء کو واصل باللہ ہوئے۔آپ کا مزار دہلی میں مرجعِ خلائق ہے۔
نماز جنازہ کی وصیت: سیر الاقطاب میں ہے کہ جب جنازہ تیار ہوگیا تو خواجہ ابوسعید نے کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ حضرت خواجہ قطب الاقطاب نے وصیت فرمائی تھی کہ میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے، جس نے ساری عمر اپنے آپ کو زنا سے محفوظ رکھا ہو، بلوغت سے لے کر آج تک عصر کی سنتیں قضا نہ کی ہوں، فرائض نماز کی تکبیر اولیٰ سے محروم نہ ہوا ہو، یہ اعلان سنتے ہی تمام حاضرین دنگ رہ گئے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے، آخر حضرت سلطان شمس الدین التمش آگے بڑھے اور فرمایا میں چاہتا تھا کہ میرا یہ رازکسی پر فاش نہ ہو۔ مگر آج میرے پیر و مرشد کی وصیت نے مجھے آشکارا کردیا۔(سیر الاقطاب:183)
آپ کی برکت سے امتِ محمدیہ کے تمام مُردوں سے عذاب ِ قبر اٹھالیا گیا: مجمع البحرین،شیخ المحققین میر سید عبدالواحد بلگرامیقاضی حمید الدین کی روایت سےفرماتے ہیں: ’’میں دفن کےبعد آپ کی قبرپر موجود رہا، منکر نکیرآئے اور نہایت ادب سے بیٹھ گئے۔اسی دوران دو فرشتے اور آگئے۔حق تعالیٰ جل شانہ کا سلام حضرت قطب الاقطاب کو پہنچایا۔پھر ایک تحریر آپ کو دےدی۔اس میں لکھا ہوا تھا کہ اے قطب الدین! ہم تم سے راضی ہیں،اور تمھاری برکت سے امتِ مصطفیٰﷺ کے تمام گنہگاروں کی قبر سے عذاب اٹھا لیاہے۔اس لیے کہ جس طرح زندوں نے تم سے بہت فیض حاصل کیا ہے اسی طرح مردے بھی تم فیض پائیں،اور تمھاری قدر جانیں‘‘۔(سبع سنابل شریف مترجم: 448)