شیخ الاسلام حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:حضرت خواجہ عثمان ہارونی۔کنیت:ابوالنور۔لقب: شیخ الاسلام۔سلسلہ نسب:آپ کاسلسلہ نسب گیارہویں پشت میں حضرت مولا علی شیر خدا تک پہنچتا ہے۔(سیرتِ خواجہ غریب نواز:42)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت اکثر مؤرخین کےنزدیک 536ھ،1141ء کو قصبہ ’’ہارون یاہرون‘‘ خراسان میں ہوئی۔(اہل سنت کی آواز،خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ2008ء/1429ھ،صفحہ:200)
ہارون یا ہروَن: اس مقام کی وجہ سےحضرت خواجہکو’’ہارونی‘‘ کہا جاتا ہے۔اس مقام کا اصل نام کیا ہے:بعض ہروَن اور اکثر ہارون کہتے ہیں۔خیر المجالس میں ہے:’’صحیح تو ہَرونی ہے لیکن عوام وخواص کی قلم وزبان پر ’ہارونی‘ چڑھا ہوا ہے‘‘۔بہت مشہور دعائیہ شعر ہے۔
؏:بحق خواجۂ عثمان ہاروں ۔۔۔۔مدد کن یا معین الدین چشتی(ایضا:201)
تحصیلِ علم: آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے نیشاپور تشریف لے گئے۔ وہاں مشاہیر علما ءو فضلاء کی سرپرستی میں علوم و فنون حاصل کیے۔ آپ کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ "آپ کا خاندان چوں کہ عمدہ تہذیب و تمدن کا گہوارہ اور علم دوست تھا۔ والد ماجد بھی جیدعالم تھے، اس لیے شعور کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی علم کی طرف راغب ہو گئے اور والد ماجد کی بارگاہ میں رہ کر ابتدائی تعلیم حاصل کی، قرآن شریف حفظ کیا، پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے اس زمانے کے علمی و فنی مرکز نیشاپور کا رخ کیا اور وقت کے مشاہیر علما و فضلا سے اکتساب علم کر کےجملہ علوم مروجہ ومتداولہ میں دسترس حاصل کی۔جلد ہی آپ کاشمار وقت کےعلماءوفضلاءمیں ہونےلگا۔
بیعت و خلافت: ظاہری علوم کی تکمیل اس مرد باصفا کی آخری منزل نہ تھی۔اس لئے علوم باطنیہ کی تحصیل کاعزم مصمم کیا اللہ جل شانہ نے آپ کےپرخلوص ارادے کی بدولت امام الاولیاء،قطب الاقطاب سرتاج سلسلہ عالیہ چشتیہ بہشتیہ حضرت خواجہ محمد شریف زندنی کی خانقاہ معلیٰ میں پہنچادیا۔سلسلہ عالیہ چشتیہ میں ان کےدستِ حق پرست پر بیعت ہوئے،اور ان کی خدمت میں رہ کر سلوک کی منازل طے کرنے لگے۔عبادت وریاضت اور مجاہدۂ ومکاشفہ نے جب کندن بنادیا تونگاہ ِمرشدنےمنصبِ خلافت کےلئےمنتخب فرمالیا۔سلسلہ عالیہ چشتیہ کی خلافت سے سرفراز ہوئے۔اسی طرح حضرت خواجہ مودود چشتی سے بھی فیض یاب ہوئے۔(ایضا:202)
سیرت وخصائص:قطب الاقطاب،ناصرالاسلام،عارف اسرار رحمانی،واصل ذاتِ باری،محبوب صاحب ِ لامکانی،شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمد عثمان ہارونی۔آپ علیہ الرحمہ کاشمار اکابرین ِ امت اور کبار اولیاءِ کرام ومشائخِ عظام میں ہوتا ہے۔علوم ظاہریہ وعلوم باطنیہ ،شریعت وطریقت،تصوف ومعرفت میں مجمع البحرین تھے۔تاریخِ مشائخِ چشت میں ہے:’’در علم ِ شریعت وطریقت وحقیقت اعلم بود‘‘۔(بہارِ چشت:77)
صاحب سبع سنابل حضرت میرسید عبد الواحد بلگرامی نے بیعت و خلافت کا تذکرہ یوں فرمایا ہے لکھتے ہیں: حضرت خواجہ عثمان ہارونی کی عمر کافی تھی،آپ نے سفر بھی بہت کیے،جب حضرت خواجہ شریف زندنی کی خدمت میں پہنچے تو عرض کی: بندہ عثمان کی تمنا ہے کہ حضور والا کے مریدوں میں شمار کیا جائے۔ خواجہ شریف زندنی نے قبول کیا،خلافت کی کلاہ چار ترکی عنایت کی،قینچی (بالوں پر) چلائی اور فرمایا: مصطفیٰ ﷺنے کلاہ چار ترکی استعمال فرمائی ہے،تمام کائنات کو خدا کی محبت میں چھوڑکرفقر و فاقہ اختیارفرمایا ہے،فقیروں اور غریبوں سے محبت رکھی ہے،لہذا جو شخص کلاہ چار ترکی سر پر رکھے، اسے چاہیے کہ مصطفیٰ ﷺکی پیروی کرے اور ہرشخص کو اپنے سے برتر جانے۔ جو شخص تکبر اختیار کرے اور اپنی فوقیت چاہے وہ درویش نہیں،نفس پرست ہے۔ راہ نما نہیں راہزن ہے۔مشائخ کے خرقے کے لائق نہیں وہ چورہے۔اہل نعمت نہیں بےنصیب ہے۔ مشائخ اس سے بے زار ہیں۔درویشی کا لباس اس پر حرام ہے۔ اسے خرقہ پہنانا جائز نہیں اور نہ کلاہ چار ترکی سر پر رکھنا اور مرید کرنا۔ خواجہ عثمان ہارونی نے شیخ کی نصیحت قبول کی اور گوشہ نشیں ہو کر ذکر لا الٰہ الا اللہ میں مشغول ہو گئے۔ تین برس کے بعد خواجہ شریف زندنی نے خلافت کی کملی پہنائی اور فرمایا: اے عثمان! تمھیں میں نے پیدا کرنے والے کی بارگاہ میں پیش کیا۔ تمھیں پسند کیا گیا ہے پھر خواجہ شریف زندنی نے اسم اعظم جسے اپنے مرشد سے حاصل کیا تھا،خواجہ عثمان کو سکھادیا، جس سے علم معرفت کے اسرار اور شریعت و طریقت و حقیقت کے رموز آپ پر منکشف ہو گئے۔(سبع سنابل:434)
عبادت و ریاضت:خواجہ عثمان ہارنی علیہ الرحمہ صاحب ِریاضت و مجاہدہ تھے۔ قرآن مجید کے حافظ تھے۔روزانہ ایک قرآن شریف کی تلاوت کرتے۔سترسال کی مدت تک کسی وقت نفس کو پیٹ بھر کھانا پانی نہ دیا۔ رات کو نہ سوئے، تین چار روز کے بعد روزہ رکھتے، کبھی کبھی چار پانچ ہی لقمے پر اکتفا کر لیتے۔ حضرت میر عبد الواحد بلگرامی علیہ الرحمہ ان کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں:"خواجہ عثمان ہارونی نے دس سال تک خود کو کھانا نہ دیا۔ آپ سات روز کے بعد ایک گھونٹ پانی پیتے، اور عرض کرتے: خدایا! ہمیں نفس کے ظلم سے بچا،نفس مجھ پر غالب آنا چاہتا ہے۔مجھ سے پانی مانگتا ہے تو میں ایک گھونٹ منہ بھر دیتا ہوں۔ خواجہ عثمان ہارونی سماع میں بہت روتے کبھی کبھی زرد پڑ جاتے ۔آنکھوں کا پانی خشک ہو جاتا،جسم مبارک میں خون نہ رہتا۔ایک زوردار نعرہ لگاتے اور آپ پر وجد طاری ہوجاتا۔جب خواجہ عثمان ہارونی نماز ادا کر لیتے تو غیب سے آواز آتی کہ ہم نے تمھاری نمازپسند کی۔ مانگو کیا مانگتے ہو؟ خواجہ صاحب عرض کرتے: خدایا!میں تجھے چاہتا ہوں۔ آواز آتی کہ عثمان! میں نے جمال لا زوال تمھارے نصیب کیا، کچھ اور مانگو کیا مانگتے ہو؟ عرض کرتے : الٰہی! مصطفیٰ کریم ﷺکی امت کے گناہ گاروں کو بخش دے۔ آواز آتی کہ امت محمد ﷺ کے تیس ہزارگناہ گار تمھاری وجہ سے بخش دیے،آپ کو پانچوں وقت یہ بشارت ملتی تھی۔ (اہل سنت کی آواز:204)
حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے طویل سفر کےبعد مکۃ لمکرمہ جاکر معتکف ہوگئے۔آپ نےحق تعالیٰ سے آخری عمر میں دو خصوصی دعائیں مانگی تھیں۔ایک یہ کہ میری قبر مکۃ المعظمہ میں ہو اور اس کانشان باقی رہے تاکہ لوگ فاتحہ کا ایصال ثواب کرتےرہیں۔کیونکہ کثرت کی وجہ سےوہاں قبروں کا نشان نہیں رکھتےتھے۔دوسری دعا آپ نےیہ مانگی تھی کہ میرے روحانی فرزند معین الدین نےمدت دراز تک مقام تجرید وتفرید میں بندہ کی خدمت کی ہے اسے وہ ولایت عطا فرما کہ کسی اور کواس قسم کی ولایت عطا نہ ہوئی ہو۔ہاتف نے آواز دی کہ تمھاری قبر مکہ میں ہوگی اور اس کانشان کوئی نہ مٹا سکےگا،اور معین الدین کوہندوستان کی وہ ولایت عطا ہوگی کہ جو آج تک ہم نے کسی کو نہیں دی۔لیکن انہیں چاہئے کہ پہلے مدینۃ المنورہ جائیں اور محمدﷺ کی اجازت سےہند کی ولایت میں جاکر تصرف کریں۔پس حضرت خواجہ عثمان نےاجابتِ دعا پر سجدۂ شکر ادا کیا۔(ایضا:204بحوالہ مرآۃ الاسرار:561)
آپ سراپا فضل وکرامت تھے۔جس پہ ایک نگاہ ڈالتے بس ایک ہی نگاہ میں اس کاباطن سنوار کر ولایت کےمقام پرفائز کردیتے۔کتنے کفار آپ کےدست اقدس پر مشرف بااسلام ہوئے۔بےشمار فجار وفساق تائب ہوئے۔بہت سےولایت کےمناصب علیا پر فائز ہوئے۔ایک مقام پر آپ تشریف لےگئے وہاں مجوسی تھے۔وہ آگ کی پوجا کررہے تھے۔آپ نےانہیں دعوت توحید دی ۔انہوں نے نکارکیا۔آپ ان کاایک چھوٹا بچہ لےکر آگ میں داخل ہوگئے آگ نےکچھ نہیں کہا بلکہ وہ گلزار ہوگئی۔بہت دیر تک آگ میں رہے۔جب باہر تشریف لائے تو سارے مجوسی مسلمان ہوگئے۔آپ کی سب سے بڑی کرامت سلطان الہند عطائے رسول حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی ذات گرامی ہے۔اسی طرح شیخ الاسلام حضرت شیخ نجم الدین صغریٰ،ایسے نفوس قدسیہ جن کی تبلیغ سے لاکھوں غیر مسلم مشرف بااسلام ہوئے۔آپ کےملفوظات ’’انیس الارواح‘‘ کےنام سےحضرت خواجہ غریب نواز نےجمع فرمائے ہیں۔اسی طرح اللہ جل شانہ نےآپ کو ذوق شاعری بھی عطا فرمایا تھا۔؏: نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم ۔۔۔۔مگر نازم بایں ذوق کہ پیشِ یار می رقصم۔۔۔۔آپ کامشہور ِزمانہ کلام ہے۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 5/شوال المکرم 617ھ مطابق 3/دسمبر 1220ء کو مکۃ المکرمہ میں ہوا۔آپ کی قبر انور شریف حسین کےمحل کےاحاطے میں واقع ہے۔ قبر آج تک محفوظ ہے،اور اس کےگرد لکڑی کا چبوترہ ہے۔یہ آپ کی دعا کااثر ہے کہ نجدی و وہابی حکومت بھی آپ کی قبر کانشان نہ مٹاسکی۔انسائیکلو پیڈیا اولیاء کرام جلد نمبر 6۔
ماخذ مراجع: سبع سنابل شریف۔اہل سنت کی آواز مارہرہ مطہرہ2008ء۔بہار چشت۔انسائیکلو پیدیا اولیاء کرام۔