معین الدین حسن چشتی اجمیری، سلطان الہند، خواجہ غریب نواز سید، رحمۃ اللہ تعالی علیہ
نام ونسب:اسمِ گرامی :سید محمد حسن ،کنیت ،معین الدین،لقب،سلطان الہند ،خواجہ غریب نواز،عطائے رسول،نائب النبی فی الہند معروف ہیں۔آپ نجیب الطرفین سید ہیں ۔سلسلہ نسب اسطرح ہے :خواجہ معین الدین بن سید غیاث الدین حسن سنجری بن کمال الدین سید احمد حسن بن سید نجم الدین طاہر بن سید عبدالعزیز بن سید ابراہیم بن امام علی رضا بن امام موسی کاظم بن امام جعفر صاد بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن امام حسین بن علی المرتضی۔(علیہم الرحمہ )
تاریخِ ولادت: آپ ۱۴/رجب ۵۳۰ھ،بمطابق ۱۱۳۵ء ،میں بمقام "سنجر"(ایران)سید غیاث الدین کے گھر پید اہوئے۔آپکی نشوو نما "خراسان" میں ہوئی ۔
تحصیلِ علم: ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر ہوئی ۔مزید حصول ِ علم کیلئے "سمرقند"اور "بخارا" کیطرف سفر کیا کیونکہ ان ایام میں یہی بلاد علوم وفنون کے مراکز تھے۔حفظ القرآن ،اور چند ابتدائی علو م و فنون کی کتب مولانا شرف الدین علیہ الرحمہ سے پڑھیں۔جمیع علومِ نقلیہ وعقلیہ کی تکمیل مولانا حسام الدین بخاری علیہ الرحمہ ہوئی۔
بیعت وخلافت:شیخ الاسلام حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ سے ۵۵۸ ھ میں بیعت وخلافت حاصل ہوئی۔
سیرت وخصائص:حضرت سلطان الہند محسن ہند ہیں۔برصغیر میں اسلام کی دلکش بہاریں آپ کی دعوت و تبلیغ اور رشد و ہدایت کا نتیجہ ہیں۔آپ کے خلفاء و متوسلین خاکِ ہند کے جس خطے پر پہنچے، اسلام کا بول بالا ہوتا چلا گیا۔ نورِ ہدایت پھیلتا چلا گیا اور کفر کا اندھیرا چھٹتا چلا گیا۔ آپ کی کرامت آثار نگاہ ِفیض سے بالکل پہلی بار دہلی اور اجمیر کے ایوانوں میں مسلمانوں کی حکومت کا پرچم لہرایا۔
سیر الاولیا ء کے مصنف سید کرمانی (م ۷۷۰ھ )رقم طراز ہیں!
اس آفتاب (خواجہ )کے طلوع ہونے سے قبل پورے ہندستان میں کفرو بت پرستی کا رواج تھا اور ہند کا ہر سر کش "انار بکم الاعلٰی" کا دعوی کرتا تھا، اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا شریک کہتا تھا، وہ پتھر، ڈھیلے، گھر، درخت ، چوپایوں اور گائے اور ان کےگوبرکوسجدہ کرتےتھے۔اور کفر کی تاریکی سے ان کے دلوں کے تالے اور بھی مضبوط ہورہے تھے۔اہل یقین کے اس آفتاب کے مبارک قدموں کی برکت سے جورد حقیقت معین الدین تھے، اس ملک کی تاریکی اسلام کے نور سے جگمگا اٹھی۔[سیر الاولیاء ص ۴۷]
آپ کی نگاہِ ولایت جس شخص پر پڑتی دل کی دنیا بدل جاتی، رہزن آتا ر ہبر بن جاتا ، قاتل آتا محافظ بن جاتا، سرکش آتا غلام بن جاتا، کافر آتا مسلمان بن جاتا، فاسق آتا متقی بن جاتا، دشمن آتا حاشیہ بردار بن جاتا، جادوگر آتا تائب ہوکر عاملِ قرآن بن جاتا۔رسالہ "احوال پیران ِچشت" میں ہے:
‘‘نظر شیخ معین الدین بر فاسق کہ افتادے در زمان تائب شدے ، باز دگر معصیت نہ کردے’’یعنی حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی نگاہ جس فاسق پر پڑجاتی اسی وقت توبہ کرلیتا اور پھر گناہ کے قریب نہ بھٹکتا۔
علامہ حسن رضا بریلوی فرماتے ہیں!
؎ خفتگانِ شب ِغفلت کوجگا دیتا ہے
،سالہا سال وہ راتوں کو نہ سونا تیرا۔
حضرت سلطان الہند نے ہندوستان میں بلاشبہ کفر شکن تحریک برپا کی تھی۔ جو کام ہزاروں تلواریں نہیں کرسکیں، وہ ایک عارف باللہ کی خاموش اور اخلاقی تحریک نے کردکھایا۔آپکی کوششوں سے ہندوستان"دارالاسلام"بن گیا۔
وصال:سلطان الہند کا وصال پر ملال۶/رجب المرجب۶۳۳ ھ ،بمطابق ۱۲۲۹ء میں ہوا۔ وقتِ وصال آپ کی مقدس پیشانی پر یہ نقش ِجمیل ظاہر ہوا: ھذا حبیب اللہ مات فی حب اللہ ۔ [اخبارالا خیار،ص،۶۶]۔آپکا مزار اجمیر شریف (انڈیا)میں منبع فیوض وبرکات ہے۔