حضرت خواجہ محمد قاسم موہڑوی علیہ الرحمۃ
نام ونسب: اسمِ گرامی: خواجہ محمد قاسم۔ لقب:باواجی۔علاقہ موہڑہ شریف کی نسبت سے "موہڑوی"کہلاتے ہیں۔والدکااسمِ گرامی:جناب سلطان جیو خان علیہ الرحمہ۔آپ کانسب سلاطینِ ایران کےکیانی خاندان سے ملتا ہے۔آپ کے جد امجد عہد عالمگیرمیں برصغیرتشریف لائے۔آپ کے جد امجد اور والد گرامی کا معمول تھا کہ پنجاب سے سامان تجارت لے کر کشمیر جاتے اور راستے میں پہاڑی علاقوں میں تبلیغ دین کا فریضہ ادا کرتے رہتے۔
تاریخِ ولادت: آپ کاسنِ ولادت تقریباً 1845ءہے۔
تحصیلِ علم: حضرت خواجہ صاحب کے والد ماجد بچپن میں ہی داغ مفارقت دے گئےتھے۔ہوش سنبھالنے پر والدہ ماجدہ نے تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا اور علوم دینیہ کی تحصیل کے لئے ہندوستان بھیجا جہاں آپ نے اس دور کے مشہور فضلاء سے استفادہ کیا اور تقریباً1276ھ؍1860ء میں تکمیلِ علوم کے بعد واپس تشریف لائے اور راولپنڈی کے قریب موضع جگیوٹ میں دینی مدرسہ قائم کر کے تشنگانِ علوم دینیہ کو سیراب کرنے لگے۔آپ کا شمار اپنے وقت کےجیدعلماءِ کرام میں ہوتاتھا۔
بیعت وخلافت: آپ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں شیخِ کامل حضرت خواجہ نظام الدین نقشبندی کیانوی(کیاں شریف،آزادکشمیر) کے دستِ حق پرست پربیعت ہوئے،اور خلافت سے سرفرازہوئے۔ آپ کا سلسلۂ طریقت بارہ واسطوں سے حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی قدس سرہ تک پہنچتا ہے۔
سیرت وخصائص: ولیِ کامل،مرشدِ خلائق،عارفِ باللہ،غوثِ زماں ،قطبِ دوراں،تاجدارِ نقشبندیت،امیرِ شریعت،پیرِ طریقت حضرت خواجہ محمد قاسم نقشبندی موہڑوی رحمۃ اللہ علیہ۔کشادہ پیشانی،نورانی چہرہ،بارعب شخصیت،اور چہرہ پر ایسی نورانیت کہ کوئی نگاہ بھردیکھنے کی تاب نہ رکھتاتھا۔انتہائی منکسرالمزاج اورخلیق تھے۔آپ رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کے کامل نمونہ تھے۔آپ کاکوئی بھی عمل خلافِ سنت نہ ہوتا تھا۔اپنے مریدین ومتوسلین کی ایسی تربیت کرتے تھےکہ وہ بھی متبع شریعت بن جاتےتھے۔سینکڑوں ہند وا ورسکھ آپ کے اخلاقِ کریمانہ سے متاثر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوئے، اور بے شمارفسق و فجور میں مبتلا افراد آپ کے فیض صحبت سے تقویٰ و پرہیز گاری کے پیکر بن گئے۔
مرشد کامل نے بیعت کے بعد خلافت سے نوازا اور موہڑہ شریف جیسے گنجان اور دشوار گزار پہاڑی علاقہ میں قیام کا حکم دیا۔حضرت خواجہ محمد قاسم موہڑوی قدس سرہ نے شیخ کے ارشاد کی تعمیل اس طرح کی ستر سال کا طویل عرصہ اسی جگہ عبادت و ریاضت اور خلق خدا کی راہنمائی میں بسر کیا اور سال میں ایک دفعہ مرشد کی خدمت میں حاضری دینے کے علاوہ کسی طرف رخ نہ کیا۔دور افتادہ مقام میں قیام کے باوجود ہزاروں افراد آپ کی خدمت میں حاضری دیتے اوردلی مقصد حاصل کر کے واپس لوٹتے۔ سینکڑوں راہ ِطریقت کے سالک رتبۂ کمال کو پہنچے،خلعت خلافت سے مشرف ہوئے اور پھر پاک و ہند کے مختلف مقامات پر تبلیغ دین اور رشد و ہدایت کے کام پر مامور ہوئے۔آج بھی لاکھوں افراد آپ کے فیوض و برکات سے مستفید ہو رہے ہیں۔بڑھاپے میں بھی عبادت وریاضت کایہ عالم تھاکہ آپ ہر وقت یہاں تک کہ رات کو بھی جُبہ زیبِ تن رکھتے تھے۔ کسی نے سبب پوچھا تو فرمایا :"جِس طرح ملازم باوردی ڈیوٹی پر ہوتا ہے میں چاہتا ہوں کہ میرا ہر لمحہ یادِ خدا اور مخلوقِ خدا کی ہدایت میں باوردی لکھا جائے"۔
جانشین کووصیت: آپ نےوصال کے وقت اپنے جانشین خواجہ نظیر احمد نقشبندی کو وصیت فرمائی تھی کہ امیر اور غریب دونوں آپ کے پاس آئیں گے،اگر غریبوں کو باہر نکال دیا اورامیروں کو ترجیح دی تو میرا دل دُکھے گا، دونوں سے برابر سلوک کرنا۔
وصال: آپ کاوصال بروز ہفتہ،13/ذوالقعدہ1361ھ،بمطابق21/نومبر1942ء،120سال کی عمرمیں ہوا۔آپ کامزار پرانوار "موہڑہ شریف" نزد کوہِ مری،ضلع راولپنڈی (پاکستان)میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذ ومراجع: تذکرہ اکابرِاہلسنت۔انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام۔