حضرت خواجہ ابو محمد چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آں از قید زمان ومکان آزاد، ومدام دروصل دوست خرم وشاد، خوکردہ جمال محمدی، پروردہ کمال احمدی، منزہ از طمطراق زیب وزشتی، ولی مادرازد، حضرت خواجہ ابو محمد چشتی قدس سرہٗ کرامات وخوارق میں مشہور اور نسبت تجلیات ذات میں معروف تھے۔ آپ بڑے بلند مرتبہ بزرگ اور عظیم الشان درویش تھے۔ آپ کا لقب ناصح الدین ہے۔ آپ اپنے والد ماجد حضرت خواجہ ابو احمد چشتی قدس سرہٗ کے مرید وخلیفہ تھے۔ سیرا لاولیاء میں لکھا ہے کہ آپ ذوق وشوق اور غایت مجاہدہ کی وجہ سے نماز معکوس ادا کرتے تھے۔ آپ کے گھر میں ایک کنواں تھا جس میں لٹک کر آپ یہ نماز ادا کرتے تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں کہ چار ماہ حمل کے بعد آپ اندر سے کملہ طیبہ کی آواز سنتی تھیں۔ ایک دن میں اس کےو الد کے ساتھ بیٹھی تھی۔ انہوں نے میرے حمل کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا السلام علیکم یا ولی اللہ وخلیفتی (السلام علیکم ولی اللہ اور میرے خلیفہ) بطن مادر سے کچھ آواز آئی۔ لیکن معلوم نہ ہوسکا کہ کیا آواز ہے۔ آپ کی والدہ نے اپنے خاوند سے کہا کہ آپ نے اس کو السلام علیکم تو کہہ دیا لیکن معلوم نہیں وہ لڑکی ہے یا لڑکا۔ آپ نے فرمایا کی مجھے اللہ تعالیٰ بشارد دی ہے اور میرے ساتھ وعدہ فرمایا ہے نیز لوح محفوظ پر بھی میں نے لکھا دیکھا ہے کہ میرے ہاں ایک مادرز ادولی اللہ پیدا ہوگا۔ سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ جس رات حضرت اقدس پیدا ہوئے شب عاشورہ تھی والد بزرگوار نے خواب میں دیکھا کہ سرور کائناتﷺ کی زیارت ہوئی ہے اور آپ فرمارہے ہیں کہ اے ابو احمد تجھے مبارک ہو تمہارے گھر لڑکا پیدا ہوا۔ اس کا نام میرے نام پر رکھنا اور اس کو میرا سلام کہنا۔ جب آپ خواب سے بیدار ہوئے تو دیکھا کہ بچہ پیدا ہوا ہے۔ بچہ ابھ پانی میں نہلایا جارہا تھا کہ آپ نے سات مرتبہ کلمہ طیّبہ لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھا۔ حضرت خواجہ ابو احمد نے تجدید وضو کر کے بچے کو السلام علیکم کہا بچے نے جواب دیا وعلیک السلام یا شیخنا قل ما رؤیا ک ہذہٖ اللیلۃ (وعلیکم السلام اے ہمارے شیخ اور بیان فرمائیے وہ خواب جو آج رات آپ نے دیکھا ہے) یہ سن کر بچے نے سرزمین پر رکھ دیا اور سجدہ کیا حضرت شیخ نے بھی سجدہ کیا اور دعا کی کہ الٰہی اس بچے کو ولی کامل بنا۔ آواز آئی کہ اے ابو احمد میں نے تمہاری دعا قبول کی ہے اور تمہارے اس بچہ کو اپنا مقبول بنایا ہے۔ اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب شب عاشورہ کو آپ کا تولد ہوا تو دوسرے دن یعنی عاشورہ کے دن آپ نے والد کا دودھ نہ پیا۔ والدہ نے حضرت خواجہ ابو احمد سے شکایت کی تو فرمایا کہ تیرا بیٹا ولی مادرزاد ہے۔ انبیاء اور اولیاء کی متابعت کر رہا ہے اور یوم عاشورہ کا احترام کر رہا ہے۔ چنانچہ اسی طرح ہوا۔ جب آفتاب غروب ہوا تو آپ نے دودھ پینا شروع کیا۔ ایک دن والدہ ماجدہ آپ کو دودھ پلارہی تھیں۔ عین دودھ پیتے وقت آپ بہت ہنسے یہ دیکھ کر ان کی والدہ کو تعجب ہوا اور حضرت خواجہ ابو احمد سے عرض کیا۔ آپ نے فرمایا کہ شیطان بچے کو رلانے کے لیے آیا تھا اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا۔ کہ شیطان کو دور بھگا دو اور لعنت ملامت کرو۔ جب پیشمان ہوکر بھاگا تو بچے کو ہنسی آگئی۔ اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت خواجہ محمد چشتی کی والدہ فرماتی ہیں کہ جس روز آپ پیدا ہوئے اسی روز سے ڈھائی سال تک آپ پنجگانہ ن ماز کے وقت آنکھیں آسمان کی طرف کر کے لا تعداد بار لا الہٰ الا اللہ کہتے تھے۔ اور آپ کے چہرہ مبارک پر ایسا نور چھا جاتا تھا کہ جس سے تمام گھر روشن ہوجاتا تھا اورچراغ کی ضرورت نہیں رہتی تھی ار روشنی اس قدر ہوتی تھی کہ اگر سوئی بھی گر جائے آپ کے نور جبیں سے مل جاتی تھی۔ سیر الاقطاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب آپ ڈھائی سال کے ہوئے دودھ کم پیتے تھے۔ والدہ نے حضرت خواجہ ابو احمد کی خدمت میں شکایت کی تو فرمایا کہ ابو محمد درویش ہے اور کم کھانا کمال درویشی ہے شروع ہی سے کم کھانے کی عادت ڈال رہا ہے۔ جب آپ چار سال اور چار ماہ کے ہوئے تو آپ کو مدرسہ بھیجا گیا۔ ناگاہ آپ کی تختی پر یہ الفاظ ظاہر ہوئے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم علم القرآں رب یسر ولا تعسر رب زدنی علماء وفہما وتمم بالخیر (بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اے رب فہم قرآن آسان کر مشکل نہ کر اور میرے علم و فہم میں برکت دے اور خاتمہ بالخیر فرما)چنانچہ تھوڑے عرصہ میں آپ نے قرآن پڑھ لیا۔ علوم دینی حاصل کیے اور کمال کو پہنچے۔ چودہ سال کی عمر سے آپ نے خلوت اختیار کی۔ اس وقت سے آپ کی زبان سے جو کچھ نکلا پورا ہوا۔ خلیفہ وقت اور ساری خلقت اسی وقت سے آپ کی بے حد معتقد ہوگئے اور جو شخص مراد لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا۔ کامیاب ہوتا تھا۔ آپ تیس سال تک باوضو رہے اور جو کافر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا مسلمان ہوجاتا تھا چنانچہ شہر چشت میں کوئی کافر باقی نہ رہا۔ مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ جو شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا عرش سے تحت الثرےٰ تک اس پر منکشف ہوجاتا تھا اور ولی کامل بن جاتا تھا۔
والد کا وصال اور سجادگی
جب آپ کی عمر چوبیس سال ہوئی تو والد ماجد کا وصال ہوگیا۔ آپ ان کے قائممقام ہوئے اور مسند خلافت پر متمکن ہوئے اور لوگ جوق در جوق آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر مرید ہونے لگے۔ آپ بارہ سال تک اپنے حجرہ میں مشغول رہے۔ سات دن کے بعد ایک خرما کے دانہ سے افطار کرتے تھے کہتے ہیں کہ ایک دن ایام طفلی میں راستے میں خواجہ خضر سے ملاقات ہوئی۔ خضر نے فرمایا کہ اے ابو محمد مبارک ہو مجھے حضرت رب العزت سے حکم ملا ہے کہ آپ کو ظاہری وباطنی تعلیم دوں آپ نے خضرت علیہ السلام کے قدم چوم کر کہا کہ اے خواجہ جو حکم ہو فرمائیں۔ چنانچہ خضر علیہ السلام نے آپ کو اسم اعظم بتایا تو اسی وقت علوم واسرار منکشف ہوگئے وہاں سے واپس گھر کو چلے گئے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا تختی دکھاؤ آج تم نے کیا پڑھا ہے۔ آپ نے فرمایا اما جان! میں نے جو کچھ پڑھا ہے تختی میں ہیں سما سکتا۔ اس کے بعد والدہ نے قرآن مجید ان کے سامنے رکھا تو فرمایا کہ اماں جان! قرآن اپنے پاس رکھو میں زبانی پڑہتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے تھوڑی دیر میں تمام قرآن پڑھ لیا۔ یہ دیکھ کر والدہ کو تعجب ہوا اور شکر ادا کیا۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دن خواجہ ابو احمد سماع سن رہے تھے اور قوال سُر کے ساتھ اشعار پڑھ رہے تھے اور آپ وجد میں تھے کہ یکا یک آپ کی نظر فیض اثر خواجہ ابو محمد پر پڑی اور سماع میں شام ہونے کا حکم خواجہ ابو محمد مست و مدہوش ہوکر سماع میں شامل ہوئے دیر تک ذوق وشوق کی حالت میں بیٹھنے کے بعد بے ہوش ہوکر گر گئے۔ حضرت خواجہ ابو محمد سات دن تک سماع سنتے تھے نماز کے وقت سماع بند کر کے آپ نماز پڑھ لیتے تھے اور پھر سماع شروع ہوجاتا تھا۔ ان سات ایام میں حضرت خواجہ ابو محمد اسی طرح بے ہوش پڑے رہے یہ دیکھ کر آپ نے قوالوں سے فرمایا کہ سماع بند کرو تاکہ خواجہ ابو محمد ہوش میں آجائے جب قوالوں نے سماع بند کیا تو کچھ دیر کے بعد آپ نے انکھیں کھولیں اور آسمان کی طرف دیکھنے لگے اور فرمایا قولوا، قولوا (کہو کہو) چنانچہ عالم غیب سے ایسے نغمات کی آواز آنے لگی کہ کبھی کسی نے نہیں سنی تھی کہ اور ہر شخص نے اچھی طرح سنی۔ اس پر حضرت خواجہ ابو محمد پر وجد طاری ہوا اور تین دن متواتروہی آواز آتی رہی اور آپ سماع میں مشغول رہے جب ہوش میں آئے تو اپنےو الس ماجد کے قدموں پر گر گئے اور فرمایا کہ مخدومفن جو فتح یاب سماع میں حاصل ہوئی۔ اگر کوئی شخص سو سال تک ریاضت ومجاہدہ کرے تو یہ مقام حاصل نہیں ہوتا۔ جو ایک مجلس سماع میں حاصل ہوا ہے۔ خواجہ ابو محمدﷺ نے فرمایا اے ابو محمدﷺ سماع ایک سر بستہ راز ہے جسے سر بستہ رکھنا چاہئے کیونکہ عوام بچارے اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ اگر میں یہ راز بیان کردوں تو ساری خلقت سماع میں مبتلا ہوئے۔ اور خد اسے اس نعمت کے سوا کچھ نہ طلب کریں۔
شہزادہ کا حاضر خدمت ہونا
اس کتاب میں یہ بھی لکھاہے کہ ایک دن خواجہ ابو محمد قدس سرہٗ دریائے دجلہ کے کنارے پر بیٹے کپڑا سی رہے تھے۔ اس اثناء میں بادشاہ کا لڑکا گھوڑے پر سوار ہوکر آیا اور اترک کرآپ کے سامنے سر زمین پر رکھا۔ اور با ادب ہوکر بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا کہ حضرت رسالت پناہﷺ فرماتے ہیں کہ اگر کسی بادشاہ کے ملک میں ایک بیوہ عورت رات کو بھوکی رہ گئی تو قیامت کے دن اس بادشاہ کا دامن پکڑیگی۔ جب تجھے حق تعالیٰ نے ملک اور بادشاہت عطا کی ہے تو خبردار ملک کے فقیر اور مساکین سے تم غفلت نہ کرنا اور نہ قیامت کے دن شرمندگی حاصل ہوگی۔ جب آپ نے نصیحت ختم کی تو شہزادے نے کچھ نقد جنس حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کی حضرت اقدس نے تبسم کرتے ہوئے فرمایا کہ اے ملک زادہ ہمارے خواجگان میں سے کسی نے بھی اس چیز کو قبول نہیں فرمایا۔ میں بھی قبول نہیں کرتا ہماری دولت فقر ملک سلیمان سے بھی بڑھ کر ہے جب شہزادے نے بہت اصرار کیا تو آپ نےفرمایا کہ اے شاہزادہ حق تعالیٰ نے اپنے گیب کے خزانے اپنے بندوں کیلئے کھول دیئے ہیں۔ تمہارے عطیات کی ضرورت نہیں ہے۔ جب اسکا اصرار اور الھاج حد سے بڑھ گیا تو آپ نے آسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ الٰہی جو کچھ آپ اپنے بندوں کو دکھاتے ہو اس کو بھی دکھاؤ۔ یہ کہنا تھا کہ دریائے دجلہ کی مچھلیاں ایک ایک دینار منہ میں لے کر نکل آئیں۔ یہ دیکھ کر شہزادہ حیرت زدہ ہوا اور حضرت اقدس کے پاؤں میں رکھ دیا۔ کچھ دیر بعد رخصت طلب کی اور چلا گیا لیکن حضرت اقدس نے اس سے کچھ نہ فرمایا۔
فتح سومنات میں حضرت اقدس کا ہاتھ
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب سلطان محمود غزنوی بن سبکتگین سومنات پر حملہ آور ہوا تو حضرت خواجہ ابو محمد کو حکم ہوا کہ آپ بھی اس کی طرف توجہ کر کے مدد کریں۔ چنانچہ ستر سال کی عمر میں درویشوں سمیت اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے نفس نفیس کے ساتھ وہاں پہنچ کر مشرکین کے ساتھ جہاد کیا۔ اور ایک دن کافروں نے اس زور سے حملہ کیا کہ لشکر اسلام کو ایک جنگل میں پناہ لینی پڑی۔ حضرت اقدس کا چشت میں ایک مرید وخلیفہ تھا۔ جس کا نام محمد کاکو تھا اور چکی چلاتا تھا۔ آپ نے اُسے آواز سے کر فرمایا کہ کاکو فوراً پہنچ جاؤ۔ کاکو نے فوراً وہاں پہنچ کر ایسا حملہ کیا کہ لشکر اسلام کو فتح حاصل ہوگئی۔ عین اُسی وقت محمد کا کوچت میں لوگوں نے دیکھا کہ چکی کا پاٹھ اٹھا اٹھاکر دیوار پر مارتا تھا۔ اور جوش وخروش کی وجہ سے اس کے منہ سےجھاگ نکل رہی تھی۔جب لوگوں نے اسکا سبب پوچھا تو یہی ماجرا بیان کیا آخر جب سلطان محمود غزنوی نے فتح سومنات کے وقت حضرت خواجہ کی ظاہری وباطنی امداد اپنی آنکھوں سے دیکھی تو معتقد ہوا حاضر خدمت ہوکر قدموں میں گر گیا۔ اور بیوت ہوا۔
صاحب مراۃ الاسرار نے حضرت خواجہ ابو محمد کے ہاتھ پر فتح سومنات کا واقعہ یوں بیان کیا ہے۔ کہ جب سلطان محمود غزنوی نے لشکر کشی کر کے حاکم سندھ وپنجاب راجہ جیپال پر حملہ کیا تو بہت سی لڑائیوں کے بعد اُسے شکست دی اور قید کرلیا۔ اور ۴۰۷ھ میں قنوج تک کے علاقے فتح کرلیے۔ بیشمار قلعے اور بت خانے توڑ ڈالے راجہ جیپال کو کو شکست دینے کے بعد قنوج میں اس وقت سات ایسے مضبوط قلعے فتح کیے جو آسمان سے باتیں کرتے تھے۔ اور ہزاروں بتوں کو توڑ کر خاک میں ملایا۔ ان فتوحات میں اُس نے بے ح د زرو مال اور قیدی جمع کیے ان عمارتوں میں سے بعض چالیس ہزار اور پچاس ہزار سال پرانی تھیں۔ جب وہ ان کو ویران کر رہا تھا تو سومنات کے باشندوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ چونکہ ان چیزوں سے سومنات کا بت ناراض تھا اس لیے ختم ہورہی ہیں۔ ور نہ بت لشکر اسلام کو تباہ نہ کردیتا۔ یہ سنکر سلطان نے عہد کرلیا کہ اب سومنات کے بت خانہ کو ختم کروں گا تاکہ ان لوگوں کا یہ اعتقاد جھوٹا ثابت ہو۔
فتح سومنات
چنانچہ اس نے ۴۱۶ھ نہر والہ اور گجرات کی طرف شکر کشی کی سومنات کے بت کو انہوں نے دریا کے کنارے پر واقع ایک مندر میں رکھا ہوا تھا اور اہل ہند چاند گرہن کی رات کو بیت کی زیارت کو آتے تھے اور ایک لاکھ کے قریب بیچاری گردنواح میں جمع ہوجاتے تھے۔ بت خانہ کے خرچ کے لیے دس ہزار آباد گاؤں وقف تھے۔ اور وہاں اس قدر زروجواہرات جمع ہوچکے تھے کہ اس کا عشر عشیر بھی کسی بادشاہ کے خزانے میں نہ ہوگا۔ ہروقت دو ہزار زنار پہنے ہوئے پجاری اس بت کی پوجا میں مصرور رہتے تھے۔ وہاں دو سومن وزنی سونے کا ایک زنجیر آویزاں تھا۔ نیز وہاں تین ہزار سر منڈے پجاری، تین ہزار گانے بجانے والے اور پانج رقص کرنے والی لڑکیاں بت خانہ کی ملازمت میں رہتے تھے۔ اگر چہ دریائے گنگا سومنات سے سے اُسے دھونے کے لیے ہر روز دریائے گنگا سے پانی لایا جاتا تھا۔
غرضیکہ جب سلطان دور دراز مسافت طے کرتا ہوا وہاں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ دریا کے کنارے پر ایک بہت مضبوط قلعہ ہے اور لوگ شہر سے باہر نکل کر مسلمانوں کا مذاق اڑارہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارا معبود مسلمانوں کے لشکر کو تباہ وبرباد کردے گا۔ سلطان نے قلعہ پر حملہ کیا اور کافی جد و جہد کے بعد اس فتح کرلیا۔ یہ دیکھ کر ہندو لوگوں نے بھاگ پر بت خانہ میں پناہ لینا شروع کیا۔ بت سے بغلگیر ہوکر رورہے تھے اور باہر نکل نکل کر مسلمانوں سےلڑ رہے تھے اور جان دے رہے تھے۔ اس روز پچاس ہزار سے زائد ہندو مارے گئے۔ اور باقی کشتیوں میں بیٹھ بھاگ گئے۔ جس مندر میں بت بڑا تھا اس کا طول و عرض بہت زیادہ تھا اور پچاس ساٹھ لعل و زمرد سے مرضع ستون چھت کو اٹھائے ہوئے۔ بت پتھر سے تراش کیا گیا تھا اس کی لمبائی پانچ گز تھ ی یعنی تین گز ظاہر تھا اور دو گز زمین میں گڑھا ہوا تھا۔ سلطان نے خود بت کے اندر داخل ہوکر گزر سے بت کو توڑا اور اٹھواکر غزنی لے لیا اور جامع مسجد سے باہر دروازہ پر پھینک دیا۔ اس مہم میں سلطان کو بے انداز دولت ملی جو وہاں جمع تھی۔ سومنات سے مراد دوارکہ ہے جو اس زمانے میں نہر وانہ کا ایک بہت بڑا شہر تھا۔ وہ بت کش کی صورت پر بنایا گیا تھا اور پتھر سے کشیدہ تھا۔
مزید فتوحات
اس کے بعد سلطان محمود غزنوی کے بیٹے سلطان مسعود نے بنارس تک کا علاقہ فتح کرلیا۔ اور سلطان کے بھانجے سالار مسعود نے سترکھ، بھرائچ اور شمال کی جانب دامن کوہ تک کے علاقے فتح کیے۔ سلطان محمود کے بعد تیرہ بادشاہ یکے بعد دیگر ہندوستان کی سر زمین میں حکمران رہے قلعہ لاہور بھی اُن کے تصرف میں تھا حتیٰ کہ سلطان شہاب الدین غوری نے حملہ کر کے قلعہ لاہور فتح کیا اور اپنے آدمی تعینات کیے۔ آخر ۵۸۳ھ کو سلاطین غزنویہ کا دور ختم ہوگیا۔
اس وجہ سے تمام مؤرخین نے ہندوستان کی فتح اول سلطان محمود غزنوی کے نام سے منسوب کی ہے اور فتح ثانی حضرت خواجہ بزرگ خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین حسن سنجری اجمیری کی برکت سے سلطان شہاب الدین غوری کو جو سلطان معز الدین سام کے نام سے معروف تھا نصیب ہوئی۔ سلطان شہاب الدین محمدﷺ غوری نے والئ ہند رائے پتھورا کو ختم کرنے قطب الدین ایبک کو اپنا جانشین مقرر کیا اور خود غزنی کی طرف چلا گیا۔ حضرت خواجہ بزرگ کی برکت سے اس روز سے آج تک ملک ہندوستان میں کوئی ہندو وحکمران نہیں ہوا۔ پس آپنے دیکھ لیا کہ ہندوستان کی پہلی اور دوسری فتح خواجگان چشت علیہم الرحمہ کے ذریعے سلطان محمود غزنوی اور سلطان شہاب الدین غوری کو حاصل ہوئی اس کی وجہ یہ ہے کہ خواجگان چشت ہی کا در اصل اس ملک تصرف ہے اور جب تک دینا باقی ہے یہ تصرف بھی قائم رہے گا۔
سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ حضرت اقدس نے چھپن سال کی عمر تک شادی نہ کی۔ آپ کی ہمشیرہ جو نہایت ہی صالحہ اور متقیہ تھیں آپ کی خدمت گزاری کیا کرتی تھیں آپ چرخہ کات کر گزر اوقات کرتی تھیں اور بھائی کو بھی کھلاتی تھیں۔ بہن کی عمر چالیس سال ہوگئی تھی لیکن بھائی کی خدمت گاری کی وجہ سے شادی نہیں کرتی تھیں۔ حضرت اقدس اکثر اپنی ہمشیرہ سے فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے بطن سے ایک بیٹا پیدا ہوگ جو قطب الاقطاب ہوگا اور یہ بات شادی کے بغیر نا ممکن ہے۔ لیکن ہمشیرہ صاحبہ ہر گز راضی نہیں ہوتی تھیں اور عبادت میں مشغول رہتی تھیں۔ حتیٰکہ ایک رات حضرت اقدس نے اپنے والد حضرت کواجہ ابو احمد چشتی قدس سرہٗ کو خواب میں یہ فرماتے ہوئے دیکھا کہ اے ابو محمد تم نے جو کچھ اپنی ہمشیرہ کے حق میں کہا ہے صحیح ہے تمہاری ولایت میں فلاں مقام پر ایک صحیح النسب سید زادہ رہتا ہے جس کا نام محمد سمعان س ہے وہ بہت متقی و پرہیزگار ہے اُسے فوراً بلاکر اپنی ہمشیرہ کا عقدِ نکاح اس سےکرو۔ انکی ہمشیرہ صاحبہ کو بھی اپنے والد ماجد کی طرف سے اسی قسم کا اشارہ ہوا جس کی وجہ سے وہ راضی ہوگئیں۔ حضرت اقدس نے فوراً کسی آدمی کو بھیج کر یہ رقعہ لکھ دیا کہ اگر ایک پاؤں میں جوتا ہے اور ایک میں ابھی نہیں پہنا تو دوسرا جوتا پہننے سے قبل یہاں پہنچو۔ جب قاصد وہاں پہنچا تو دیکھا کہ محمد سمعان اپنے گھر کے دروازہ پر بیٹھا ہے اور ایک پاؤں میں جوتا ہے دوسرا پاؤں خالی ہے اس عالی نسب سید زادہ نے جب خط پڑھا تو تعمیل حکم میں اُسی حالت میں اٹھ کر روانہ خدمت ہوا اور دوسرے پاؤں کو اسی طرح ننگا رہنے دیا۔ جب حضرت اقدس کی خدمت میں پہنچا تو آپ اس کی یہ حالت دیکھ بہت خوش ہوئے اور اُسی وقت ہمشیرہ کا عقد کردیا۔ کچھ عرصے کے بعد ان کے گھر ایک بیٹا پیدا ہوا جن کا نام ابو یوسف رکھا گیا۔ ادھر حضرت اقدس خود بھی پچاس ساٹھ سال کی عمر میں متاہل ہوئے لیکن کوئی بچہ پیدا نہ ہوا۔ چنانچہ انہوں نےاپنے بھانجے خواجہ ابو یوسف کی بیٹے کی طرح پرورش فرمائی اور ظاہری وباطنی تربیت دے کر مقام قرب ودرویشی تک پہنچادیا۔ اور خلافت عطا فرمائی۔ حضرت اقدس نے ان کو ناصر الدین کا لقب عطا فرمایا اور قطب الاقطاب کے مرتبہ پر پہنچادیا۔
نفحات الانس (مصنفہ مولانا جامی) میں لکھا ہے کہ خواجہ ابو محمد کا ایک مرید تھا جس کانام استاد مردان تھا۔ وہ قصبہ سبحان کا رہنے والا تھا اور عرصہ دراز تک حضرت اقدس کے لیے ڈھیلے اور وضو کے پانی کا انتظام کرتا رہا۔ ایک دن آپ نے اُسے وطن واپس جانے کا حکم دیا تو وہ رونے لگا اور کہنے لگا کہ میرے اندر طاقت جدائی نہیں ہے آپ نے ازراہ کرم فرمایا کہ جس وقت تجھے میرے ملنے کی خواہش ہو یہ ظاہری حجابات اور مسافت حائل نہ ہوگی۔ اور گھر بیٹے بیٹھے مجھے دیکھ لیا۔ کروگے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ وہ ہمیشہ کہتا رہتا تھا کہ میں سنجان سے چشت کو دیکھتا ہوں۔
مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ جب یہ حکایت میرے کانوں تک پہنچی تو مجھے بہت دشوار بعید از قیاس معلوم ہوئی۔ جب میں دوسری مرتبہ ۱۰۶۵ھ میں اجمیر شریف حاضر ہوا اور حضرت خواجہ معین الدین اجمیر قدس سرہٗ کی زیارت سے مشرف ہوا تو حس طرح استاد مردان نے حضرت خواجہ ابو محمد سے درخواست کی تھی اس نیاز مند نے بھی غایت شوق کی وجہ سے گستاخی کی اور حضرت خواجہ بزرگ کی خدمت میں یہی درخواست کی۔ حضرت خواجہ قدس سرہٗ نےکمال شفقت سے میری درخواست قبول کرلی۔ اس کے بعد جس وقت حضرت خواجہ بزرگ قدس سرہٗ کی زیارت کا شوق دامنگیر ہوتا ہے گھر بیٹھے ہوئے پورے شہر اجمیر اور روضۂ اقدس کی بےحجاب زیارت ہوجاتی ہے۔ اس نعمت کا شکر کس زبان سے کیا جا سکتا ہے۔ اَلْحَمْدُ للہ کہ ہمارے مشائخ کا تصرف حیات وممات میں برابر ہے۔ راقم الحروف (مصنف اقتباس الانوار) کا خیال ہے کہ یہ جو صاحب مراۃ الاسرار نے اپنے کمالات اور پختہ عقائد کے باوجود لکھا ہے کہ مجھے مندرجہ بالا کرامت بعید از قیاس اور دشوارمعلوم ہوئی یہ بات کیسے مشکل ہو سکت ہے جبکہ مشائخ عظام کی توجہ کا یہ کمال ہےکہ مشکل سے مشکل کام بھی ان کی ادنےٰ توجہ سے آسان ہوجاتے ہیں جیسا کہ حضرت خواجہا بو محمد چشتی نے کردکھایا۔ در اصل بات یہ ہے کہ سالک کی نظر سے مکان وزمان کی قیود کا اٹھ جانا عالم جبروت کا خاصہ ہے کیونکہ اس مقام پر سالک کی سمع وبصرو دیگر صفات تقیدات سے بالاتر ہوکر اطلاق کا رنگ اختیار کرلیتی ہیں اور قریب وبعید اشیاء کا دیکھنا اور سننا اُن کےلیے یکساں ہوجاتا ہے۔ اور مقام جبروت تو خواجگان کی ابتدائی صحبت میں حاصل ہوجاتا ہے۔ اس لیے صاحب مراۃ الاسرار کے لیے حضرت خواجہ ابو محمد چشتی کی اس کرامت کو بعید تصور کرنا صحیح نہیں ہے۔ آپ کے کمالات اس قدر ہیں کہ اس مختصر کتاب میں بیان نہیں ہوسکتے۔
خلفاء
سیر الاقطاب کے مطابق حضرت اقدس کے تین خلفاء تھے۔ ناصرالدین حضرت کواجہ ابو یوسف چشتی، محمد کاکو اور استاد مردان
وصال
آپ کا وصال چار ماہ ربیع الثانی ۴۲۱ھ اور دوسری روایت کے مطابق ۴۱۱ھ کو سلطان محمود بن سبکتگین کے عہد حکومت ہوا۔ آپ کی عمر ستر سال تھی۔ صاحب سیر الاقطاب نے آپ کی تاریخ وصال یہ نکالی ہے۔ اور امام برحق بود۔ جو دوسری روایت کے مطابق ہے۔
ازرہگذرِ خاکِ سرکوئے شمابود
ہر نافہ کہ دردستِ نسیم سحر افتاد
(اقتباس الانوار)
حضرت خواجہ ابو محمد بن ابو احمد چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ کا لقب نصح الدین اور اپنے وقت کے اولیاء کبراء اور مشائخ نامدار میں سے تھے۔ بڑے عظیم الشان اور بلند رتبہ ولی اللہ تھے آپ نے خرقۂ خلافت اپنے والد بزرگوار سے حاصل کیا۔
جن دنوں وہ اپنی والدہ کے پیٹ میں تھے تو والدہ لا الہ الا اللہ کی آواز سنا کرتی تھیں، اُس نے یہ واقعہ اپنے شوہر کو سنایا تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نیک سیرت بچہ دے گا۔
جب خواجہ ابو محمد محرم کی پہلی رات ۳۳۱ہجری میں پیدا ہوئے، تو اُسی رات ان کے والد نے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خواب میں دیکھا آپ نے فرمایا اے ابو احمد اللہ تہیں ایک بیٹا دے گا۔ جس کا نام میرے نام پر محمد رکھنا۔ خواجہ پیدا ہوئے، ابھی وہ دائی کے ہاتھوں میں تھے کہ سات بار لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ زبان پر لائے۔ دس دن تک ایام عاشورہ تھے دن کے وقت دودھ نہ پیتے اور روزہ رکھتے اور رات کو دودھ پیتے۔ ڈھائی سال کی عمر میں کم کھاتے اور کم سوتے، جس وقت اُن کی عمر ساڑھے چار سال ہوئی انہیں مدرسہ میں داخل کروادیاگیا اور تختی دے دی گئی، اُس تختی پر غیب سے یہ آیت لکھی ہوئی تھی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔ الرحمن علم القرآن رب یسر ولا تعسر رب زدنی علما۔ آپ نے تھوڑی مدت میں قرآن پاک حافظ کرلیا، سات سال کی عمر میں نماز باجماعت ادا کرنے لگے، جو بات کرتے وہ پوری ہوجاتی آپ کی عمر چوبیس سال کی تھی کہ والد کا انتقال ہوگیا، آپ ان کے مصلی پر جلوہ افروز ہوئے، کئی بار کنواں میں لٹک کر نمازِ معکوس ادا کرتے، کبھی بھی آپ نے اپنا پہلو زمین پر نہ رکھا اور نہ سوئے، سات دن کے بعد ایک کھجور اور پانی کا ایک گھونٹ پیتے تھے، آپ کے ظاہری و باطنی علوم کے استاد حضرت خضر علیہ السلام تھے۔
ایک دن خواجہ ابو احمد چشتی رحمۃ اللہ علیہ مجلس سماع میں بیٹھے ہوئے تھے اتفاقاً خواجہ ابو محمد بھی مجلس میں تشریف لائے۔ نعت سنتے ہی رقت طاری ہوگئی اور نہایت ذوق و شوق سے بے دم ہوگئے سات دن تک بے خود پڑے رہے۔ صرف نماز کے وقت ہوش میں آتے نماز ادا کرنے کے بعد پھر بے ہوش ہوجاتے۔ آٹھویں دن آپ کے والد حضرت خواجہ ابو احمد نے سماع موقوف فرمایا اور خواجہ ابو محمد کے سینے پر ہاتھ پھیرا، وہ ہوش میں آگئے اور آنکھیں کھول دیں آسمان کی طرف منہ کرکے کہنے لگے پھر پڑھو کچھ پڑھو، عالم غیب سے نعت کی آواز آنی شروع ہوئی۔ یہ ایسے اشعار تھے کہ آج تک کسی نے نہ سنے تھے۔ خواجہ حاضرین کے ساتھ پھر وجد میں آگئے اور تین روز تک بے خود پڑے رہے۔
ایک دن خواجہ ابو محمد دریا کے کنارے بیٹھے، اپنی گودڑی سی رہے تھے اسی اثناء میں اُس ملک کا بادشاہ وہاں سے گزرا اور ایک ہزار کی تھیلی آپ کو پیش کی، آپ نے اُسے قبول نہ فرمایا اور کہا کہ ہمارے بزرگ بادشاہوں سے نذرانہ نہیں لیا کرتے۔ بادشاہ نے پھر ضد کی اور اصرار کیا کہ آپ یہ رقم لے لیں۔ حضرت خواجہ نے دریا کی طرف منہ کرکے اللہ اکبر کہا، تو ہزاروں مچھلیاں منہ میں تھیلیاں اٹھائے پانی کی سطح پر تیرنے لگیں حضرت خواجہ نے بادشاہ کو فرمایا جسے اللہ تعالیٰ نے اتنی دولت دی ہو اُسے تمہاری تھیلی کی کیا پرواہ ہے۔
خواجہ ابومحمد کی ہمشیرہ مکرمہ بھی ولیہ تھیں، وہ ہمیشہ اللہ کی عبادت میں رہتی اور چالیس سال تک شادی کرنے پر راضی نہ ہوئیں۔ ایک دن خواجہ محمد اپنی ہمشیرہ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا اے عزیزہ تقدیر میں لکھا ہے کہ تمہارے بدن سے ایسا بیٹا پیدا ہوگا جو قطب الاقطاب بنے گا لیکن یہ بات شوہر کے بغیر ناممکن ہے یہ بات سننے کے باوجود شادی کرنے سے انکار کرتی رہی۔ خواجہ خاموش ہوکر اٹھ آئے۔
اسی رات اس نیک بی بی نے اپنے والد خواجہ ابو احمد چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو خواب میں دیکھا، انہوں نے بتایا کہ ایک سید زادہ محمد سمعان ہے۔ وہ نیکی اور تقوے میں مشہور ہے تمہارے مقدر میں لکھا ہے کہ وہ تمہارا شوہر بنے گا۔ اور ایک لڑکا پیدا ہوگا جس کے نورِ ولایت سے ہمارا خاندان روشن ہوگا۔ دوسری طرف ایسا ہی خواب خواجہ محمد کو آیا۔ دوسری صبح اُٹھے تو خواجہ ابومحمد نے کسی آدمی کو بلایا اور کہا کہ شہر میں ایک سید زادہ سید محمد سمعان رہتا ہے اُسے تلاش کرکے لائیں جب وہ سید زادہ لایا گیا تو اس بی بی کا نکاح پڑھا دیا گیا۔ بی بی کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام خواجہ ابویوسف رکھا گیا وہ ولی مادر زاد تھا اور تھوڑی ہی مدت میں اُسے خرقۂ خلافت ملا۔
خواجہ ابومحمد کا ایک خدمت گزار تھا اس کا نام استاد مردان تھا۔ کئی سال تک وہ آپ کی خدمت میں رہا اور کاملِ اعتقاد کے ساتھ خدمت بجالاتا رہا حتی کہ خواجہ کے استنجاء کرنے کے لیے جو ڈھیلے لاتا اسے پہلے اپنے رخساروں سے صاف کرتا پھر استنجے کی جگہ پر رکھتا۔حضرت خواجہ نے اُسے اس قدر خدمت گزار پاکر خرقۂ خلافت سے نوازا اور حکم دیا کہ اپنے ملک چلا جا وہ اپنے پیر روشن ضمیر کی جدائی پر زار زار روتا تھا اور کہتا تھا کہ جب تک میرے جسم میں جان ہے میں آپ کی خدمت سے علیحدہ نہیں رہوں گا، حضرت خواجہ نے اُس کی زاری اور بے قراری دیکھی تو فرمایا میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ بات منوالی ہے کہ تم جہاں کہیں بھی ہو گے۔ جب بھی مجھے دیکھنے کی آرزو کرو گے میں تمہارے سامنے نظر آؤں گا اور کسی غیر کی وساطت کے بغیر ملاقات کرلیا کرو گے اس بات سے اس کی تسلی ہوگئی اور وہ وہاں سے رخصت ہوگیا، وہ ساری زندگی جب چاہتا حضرت خواجہ کو دیکھ لیتا۔
یاد رہے کہ خواجہ ابومحمد چشتی کے تین کامل خلفاء تھے۔ ایک خواجہ ابویوسف دوسرے خواجہ محمد کاکو تیسرے خواجہ اُستاد مردان تھے۔ یہ تینوں حضرات خواجہ ابومحمد کی وفات کے بعد مسندِ ہدایت و ارشاد پر بیٹھے۔
سید الاقطاب کے مصنف نے آپ کی تاریخ وفات چودہ ربیع الاول چار سو گیارہ ہجری لکھی ہے جبکہ سفینۃ الاولیاء میں یکم ماہ رجب چار سو گیارہ ہے۔
تاریخ وفات:
بومحمد پیر ہر برنا و پیر
محرم حق واقف سِرّ خدا
واصل صدیق تولیدش بخواں
۳۳۱ھ
رحلتش فرما محمد پیشوا
۴۱۱ھ