حضرت مخدوم سالار فیض آبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
صورتِ عشق، مایۂ صدق خواجہ سالار رحمۃ اللہ علیہ زہد و ورع اور تقویٰ و طہارت سے آراستہ تھے اور ان کا دل مبارک سلطان المشائخ کی محبت سے لبریز اور مالا مال تھا۔ ان بزرگوار نے اس دنیائے غدار میں خلق کی صحبت سے جو ایک نہایت قوی اور مہلک آفت ہے ہاتھ اٹھا کر ۔۔۔۔
حضرت مخدوم سالار فیض آبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
صورتِ عشق، مایۂ صدق خواجہ سالار رحمۃ اللہ علیہ زہد و ورع اور تقویٰ و طہارت سے آراستہ تھے اور ان کا دل مبارک سلطان المشائخ کی محبت سے لبریز اور مالا مال تھا۔ ان بزرگوار نے اس دنیائے غدار میں خلق کی صحبت سے جو ایک نہایت قوی اور مہلک آفت ہے ہاتھ اٹھا کر گوشہ نشینی اختیار کی اور سب طرف سے منہ موڑ کر ایک گوشہ میں بیٹھ گئے، امیر خسرو فرماتے ہیں۔
اگرچہ گوشۂ غم نا خوش است برھمہ لیکن
چو تو خیال منی باغ و بوستان من است آن
(اگرچہ کنج تنہائی سب کو نا خوش معلوم ہوتی ہے لیکن جو کہ مجھے تیرا خیال ہے میرے نزدیک وہی باغ ہے۔)
اور سارا زمانہ پیر کی محبت پیر کی یاد پیر کی باتوں میں بسر کیا اور جو کچھ غیب سے پہنچا اس پر قناعت کی اور کسی مخلوق کی طرف کبھی توجہ نہیں کی آپ پر ذوق سماع اور جگر سوز گریہ بہت غالب تھا جس شخص کی نظر ان بزرگ کے جمال مبارک پر پڑتی فوراً محبت کا سلسلہ اس کے دل میں جنبش کرتا۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ سلطان المشائخ کے خطیرہ میں سماع ہو رہا تھا اس بزرگوار پر شیخ سعدی کی ذیل کی بیت نے اس درجہ اثر کیا کہ بے خود ہوگئے اور سخت محویت طاری ہوئی۔
از سر زلف عرو سان چمن دست بدار
بسرِ زلف اگر دست رسد باد صفارا
خواجہ سالار بیشتر اوقات جناب سلطان المشائخ کے خلیفہ مولانا حسام الدین ملتانی کی صحبت میں رہا کرتے تھے اور مولانا کے ہمراہ حضور کی خدمت مبارک میں حاضر ہوا کرتے آخر عمر میں چند روز بیمار رہ کر انتقال فرماگئے۔