سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوبِ الہی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی: سید محمد نظام الدین۔ القاب: محبوبِ الہی، سلطان المشائخ، سلطان الاولیاء، نظام الدین اولیاء۔سلسلہ ٔ نسب اس طرح ہے: حضرت سید محمد بن سید احمد بن سید علی بخاری بن سید عبداللہ خلمی بن سید حسن خلمی بن سید علی مشہدی بن سید احمد مشہدی بن سید ابی عبداللہ بن سید علی اصغر بن سید جعفر ثانی بن امام علی ہادی نقی بن امام محمدتقی بن امام علی رضا بن امام موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن امام حسین بن امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم۔رضی اللہ عنہم اجمعین۔(اقتباس الانوار: 473/ مجلہ معارف اولیاء،اگست،2006)۔ آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ بی بی زلیخا علیہا الرحمہ اپنی وقت کی رابعہ ثانی تھیں۔یہ حضرت خواجہ عرب بخاری کی اکلوتی صاحبزادی تھیں۔ حضرت خواجہ عرب کےوالدِ گرامی سید ابوالمفاخر بن سید محمد طاہر، حضرت غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی محبوب سبحانی کے خلیفہ تھے۔سید محمد طاہر بن سید حسین بن سید علی ۔جن کا ذکر سلسلۂ نسب میں ہوچکاہے۔(اقتباس الانوار: 473)۔یہ عظیم خاندان ساداتِ بخارا سے تعلق رکھتاہے۔ان کامسکن ’’بخارا‘‘ تھا۔ جب چنگیز خان نے وسط ایشیائی علاقوں کوتاراج کرنا شروع کیاتو حضرت محبوب الہی کے دادا سید علی بخارا سے ہجرت کرکےہندوستان کا رخ کیا۔ابتداً کچھ عرصہ لاہور میں قیام پذیر رہے۔پھر بدایوں چلے آئے۔بدایوں میں ہی مستقل سکونت اختیار کرلی۔(بہار ِچشت: 93)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 27/صفر المظفر636ھ مطابق 6/اکتوبر1238ء،بروز بدھ’’بدایوں‘‘ ہندمیں ہوئی۔
تحصیلِ علم: حضرت محبوب الہی صرف پانچ سال کےتھےکہ والد گرامی کاوصال ہوگیا۔اس طرح تعلیم و تربیت کی ساری ذمہ داری والدہ ماجدہ کو نبھانا پڑی۔عجب اتفاق ہے کہ حضرت محبوب ِ سبحانی ہوں،یا حضرت محبوب ِالٰہی،ان مقدس ماؤں نے اپنی اولادکی ایسی تربیت کی کہ تاریخ ان ماؤں کی حسنِ تربیت کی آج بھی معترف ہے۔جب پڑھنے کےلائق ہوئے تو مولانا علاؤالدین اصولی سے فقہ واصول ِ فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ علم کی مزید تڑپ پیداہوئی تو دہلی آگئے،دہلی ان دنوں علم وفن کامرکز تھا۔وہاں خواجہ شمس الدین خوارزمی، امامِ لغت وحدیث مولانا رضی الدین حسن صاغانی،علامہ کمال الدین زاہد،مولانا برہان الدین محمود،مولانا امین الدین محدث تبریزی علیہم الرحمہ سےتمام علوم منقولات ومعقولات میں کمال حاصل کیا۔خوش قسمتی کی انتہایہ ہوئی کہ جس محلے میں ان کا قیام تھا وہیں پڑوس میں قطبِ وقت حضرت شیخ نجیب الدین متوکل (برادر حضرت بابا فرید) رہائش پذیر تھے۔انہوں نےآپ کو دیکھتےہی فرمایا تم اجودھن(پاکپتن) میں شیخ العالم فرید الدین مسعود گنج شکر کی خدمت میں جاؤ۔
حضرت محبوب الہی بیس سال کی عمر میں 15/رجب 655ھ کوپاکپتن حاضر ہوئے۔اس وقت حضرت بابا فرید خود تدریس فرماتےتھے۔ ان کی درگاہ نشرِ علم کا بہت بڑا حوالہ تھی۔جب درس میں شریک ہوئے تو محسوس ہوا یہ علم کا بحرِ بےکنار ہیں۔تمام علوم میں دریا کی روانی محسوس ہوتی تھی۔پوچھا کہاں تک پڑھا ہے؟ عرض کیا۔ تمام مروجہ نصاب کی تکمیل کی ہوئی ہے۔فرمایا۔قرآنِ مجید حفظ کیا ہے۔عرض کیا نہیں۔چھ پارے تجوید کےساتھ خود پڑھائے۔اس کےبعد عوارف المعارف،تمہید ابوشکور سالمی،تمہید المبتدی اور دیگر کتب پڑھائیں۔(ہمارے زمانے میں پیر ہوتا ہی وہی ہے جو درس وتدریس، علم وعمل سے کوسوں دور ہو، بقول حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی اِس وقت جو اپنی ولایت کو چھپانا چاہے،وہ علماء کی صف میں شامل ہوجائے،کوئی اس کو ولی تسلیم ہی نہیں کرےگا۔تونسوی ؔغفرلہ)
بیعت وخلافت: اسی حاضر ی میں ہی قطب العالم،شیخ شیوخ العالم حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر کے دستِ حق پرست پر سلسلہ عالیہ چشتیہ میں بیعت ہوئے اور651ھ میں خلافت سے مشرف ہوئے۔حضرت گنج شکر نے روانہ کرتے وقت ارشاد فرمایا: ’’برو ملک ہند بگیر‘‘جاؤ مُلک ِ ہندوستان تمھاری ملکیت میں دیاہے اسے سنبھالو۔تاریخ آج بھی اس ارشاد کی صداقت پر شاہد ہے۔(بہارِ چشت94)
سیرت وخصائص:محبوبِ الہی،سلطان المشائخ، سلطان الاولیاء،سید الاولیاء،زینۃ الاصفیاء،عمدۃ الاتقیاء،حضرت سیدنانظام الدین اولیاء اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں محبوبیت اور قربِ خاص کے مقام پر فائز تھے۔ آپ کی برکات کے اثرات سے ہندوستان لبریز ہے۔آپ جیسے اسرارِ طریقت وحقیقت میں اولیاء کامل و مکمل تھے ویسے ہی علومِ فقہ و حدیث و تفسیر و صرف و نحو،منطق،معانی،ادب میں فاضل اجل عالم اکمل تھے۔ حضرت نظام الدین اولیا ءکو اللہ تعالیٰ نے کافی مقبولیت دی، عام و خاص سب لوگ آپ کی طرف رجوع کرنے لگے۔شیخ العالم حضرت بابافرید الدین مسعود گنج ِشکر کی خانقاہ میں رشدوہدایت کے ساتھ ساتھ درس وتدریس کا سلسلہ بھی رہتا تھا۔اس لیے مرشدِ کریم نے حضرت محبوب الہی کو بھی یہ سلسلہ جاری رکھنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:’’شاگردوں کو تعلیم دیں، خطا وتصحیف سے بچتے رہیں، لغزشوں کی اصلاح اور تنقیح میں پوری کوشش کریں،جو کچھ مجھ سے سنا اور اسے یاد رکھنا اور دوسروں تک پہنچانا‘‘۔
؏: خوشا مسجد ومدرسہ وخانقاہے۔۔۔۔۔۔ کہ در وے قیل و قال ِمحمدﷺ
حضرت محبوب الہی نے اپنے مرشدِ برحق کی ہدایات پردل وجان سے عمر بھر عمل کیا۔آپ نے بحکمِ مرشد دہلی میں رہائش اختیار فرمائی تو اس وقت معز الدین کیقباد تختِ دہلی پر متمکن تھا۔جو عیش ونشاط میں غرق ہوکر رہ گیا تھا،اور پھر یہی رنگ ڈھنگ عوام میں بھی سرایت کرگیا۔ہرطرف فسق و فجورکا دور دورہ تھا،مسجدیں اور خانقاہیں ویران ہوگئیں۔اخلاقی بے راہ روی نے ہر کس وناکس کو متاثر کررکھاتھا۔حضرت محبوبِ الہی بھی اس ماحول کو دیکھ کر اتنے آزردہ خاطر ہوئے کہ دہلی سے ہجرت کا ارادہ کرلیا تھا۔لیکن بعد میں یہیں رہنے کاعزم ِ مصمم کرلیا۔بڑی قوت وتندہی کے ساتھ تبلیغِ اسلام میں مصروف ہوگئے۔تو پھر کیا تھا کہ گناہوں میں غرق افراد گروہ در گروہ آپ کی بارگا ہ میں حاضر ہوکر تائب ہونے لگے۔تاریخ فیروز شاہی میں ہے کہ حضرت کی برکت سے عوام کا رجحان دین داری کی طرف بہت ہوگیا تھا۔حضرت کے اکثر مرید دوتہائی ، یاتین رات تمام سال قیام الیل میں گزارتے۔عام لوگوں کی زبان پر بھی شراب وشاہد،فسق وفجور، قمار بازی، فحش حرکات کا ذکر تک نہ آتا تھا۔دوکانداروں میں جھوٹ،کم تولنا،مکاری ودغا،دھوکہ دہی اور نادانوں کا پیسہ دبالینا سب قطعی طور پر ختم ہوگئے تھے۔ (ضیائے حرم شمس العارفین نمبر:38)
حضرت کا فیض عام لوگوں تک محدود نہ تھا بلکہ دربارِ سلطانی سے منسلک امراء ورؤساء کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ تھی۔شراب وکباب کےدلدادہ یہ لوگ آپ کی برکت سے چاشت،اور اشراق کی نمازیں اداکرتے ،اور ایامِ بیض اور عشرۂ ذوالحجہ کے روزےرکھتےتھے۔پھر سے اللہ جل شانہ اور اس کے حبیب ِ پاکﷺ سے ٹوٹا ہوا تعلق بحال ہوگیا۔یہ صرف آٹھ سال کے قلیل عرصے میں دہلی کا اخلاقی اور معاشرتی نقشہ بدل کر رکھ دیا،اور بڑی خاموشی کے ساتھ ایک نئی تہذیب کی بنیاد ڈالی، جس کے اثرات پورے خطے میں محسوس کیے گئے۔(مجلہ معارفِ اولیا،اگست،2006:)
حضرت محبوب الہی ان جلیل القدر شخصیات میں سے ہیں جنہیں قدرت نے تجدید واحیائے دین کےلئے منتخب فرمایا۔آپ نے ساتویں صدی ہجری میں ہندوستانی مسلمانوں پر آنے والی علمی،اخلاقی،سماجی زوال کے دور میں اصلاح احوال کی ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھایا۔اللہ جل شانہ نے آپ کو ’’محبوبیت‘‘ کےمقام پر فائز فرمایا۔گزشتہ سات صدیوں سے آپ کو’’محبوبِ الہی‘‘ کےلقب سے یادکیا جارہاہے۔آپ کی ولادت باسعادت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی محبوب سبحانی سے تہتر سال بعد ہوئی۔دونوں بزرگوں نے اپنی تجدیدی کاششوں اور کاوشوں کی بدولت امت کے نحیف وناتواں بدن ایک نئی روح پھونک دی۔ان دونوں حضرات کو اللہ جل شانہ نے محبوبیت کے منفرد مقام پر فائز فرمایا۔بقول حضرت غوث علی شاہ قلندر پانی پتی فرماتے ہیں: ’’اس امت میں لاکھوں اولیاء ہوئے ہیں۔لیکن محبوبیت کے جس مقام پر محبوب سبحانی حضر ت شیخ عبدالقادر جیلانی اور حضرت محبوب ِ الہی خواجہ نظام الدین اولیاء پہنچے ہیں ،وہاں کوئی اورنہیں پہنچا۔(ایضا: 85)۔
تعلیمات: (1) کسی نے کانٹا رکھا تم نے بھی کانٹا رکھا تو اس طرح ہر طرف کانٹے ہی کانٹے ہوجائیں گے،اور تم کانٹے اٹھانے والے بنو۔(2) خلقِ خدا سے جدا ہوکر اللہ اللہ کرنا جواں مردی نہیں،جواں مردی یہ ہے کہ درمیان میں رہو جفااور ظلم برداشت کرو۔
تاریخِ وصال: 18/ربیع الثانی 725ھ مطابق 4/اپریل 1325ءبروز بدھ ،واصل باللہ ہوئے۔مزار مبارک دہلی میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذ ومراجع: اقتباس الانوار۔بہار چشت۔ضیائے حرم۔مجلہ معارفِ اولیاء۔
مفکرِ اسلام شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کا خراجِ عقیدت:
فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا ۔۔۔۔ بڑی جناب تری، فیض عام ہے تیرا
ستارے عشق کے تیری کشش سے ہیں قائم ۔۔ نظام مہر کی صورت نظام ہے تیرا
نہاں ہے تیری محبت میں رنگِ محبوبی ۔۔۔۔۔ بڑی ہے شان، بڑا احترام ہے تیرا