شیخ الاسلام حضرت خواجہ سید نصیر الدین محمود چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: سید نصیرالد ین محمود۔لقب: چراغ دہلی۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: حضرت خواجہ سیدنصیر الدین چراغ دہلی بن سید یحیٰ بن سید عبداللطیف یزدی۔علیہم الرحمہ۔آپ کاخاندانی تعلق حسنی ساداتِ کرام سے ہے۔آپ کےجد امجد خراسان سے لاہورتشریف لائے،اور پھر لاہور سےہجرت کرکےاودھ مستقل سکونت اختیار کرلی۔(خزینۃ الاصفیاء:219)
چراغ دہلی کی وجہ تسمیہ:لقب ’’چراغ دہلی‘‘کی وجہ بعض سیرت نگاروں نے یہ لکھی ہے کہ ایک دن چند درویش سیروسیاحت کرتےہوئےحضرت سلطان المشائخ قدس سرہٗ کی خدمت میں پہنچے اور آپ کےگرد حلقہ بناکر بیٹھ گئے۔ اسی اثناء میں حضرت خواجہ نصیر الدین محمود تشریف لائے اور کھڑےہوگئے۔ حضرت سلطان المشائخ نے فرمایا بیٹھ جاؤ آپ نےعرض کیا کہ درویش بیٹھے ہوئےہیں انکی طرف پشت ہوتی ہے۔ حضرت اقدس نےفرمایا چراغ کےلیے پشت اور منہ نہیں ہے۔ آپ حضرت محبوب الہی کا حکم مان کر بیٹھ گئے۔ اُسی دن سے آپکے آگے اور پیچھے کی سمت برابر ہوگئی۔ یعنی سامنےاور پیچھےکی طرف یکساں دیکھ سکتے تھے اور اُسی روز سے آپ کا لقب چراغ دہلی ہوگیا۔ ایک اور کتاب میں اس لقب کی وجہ یہ درج کی گئی ہے کہ ایک رات حضرت سلطان المشائخ کے عرس کے موقع پر بادشاہِ وقت نے حسد کی بنا پر بازار میں سارا تیل ضبط کرلیا اور حضرت شیخ نصیر الدین محمودنے تمام چراغوں کو پانی سے روشن فرمایا۔ اُسی روز سے آپ کا لقب چراغ دہلی ہوگیا۔(اقتباس الانوار:482)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 673ھ،مطابق 1274ء کو’’فیض آباد‘‘ یوپی(ہند) میں ہوئی۔
تحصیلِ علم:آپ کی عمر شریف نو سال کی تھی کہ والد گرامی کا انتقال ہوگیا،آپ کی تعلیم وتربیت کی ساری ذمہ داری آپ کی والدہ محترمہ پر آگئی۔آپ کی والدہ محترمہ سیدہ زمانہ اور عارفہ وقت تھیں،انہوں نے آپ کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی۔علوم ِ دینیہ مولانا عبد الکریم شیروانی سے حاصل کیے،ان کے وصال کےبعد مولانا سید افتخار الدین گیلانی سے تکمیل فرمائی۔آپ علیہ الرحمہ تمام علوم ظاہرہ کے ماہر اکمل تھے۔
بیعت وخلافت: سلسلہ عالیہ چشتیہ میں قطب الوقت،محبوب الہی،حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء بدایونی علیہ الرحمہ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے،اور مجاہدات وریاضات کےبعد خلافتِ عالیہ سےمشرف کیے گئے۔
سیرت وخصائص: پیشوائے مشائخِ کبار،مستغرق در بحر اسرار،سلطان الاصفیاء،چراغِ شریعت وطریقت،چراغِ چشت اہل بہشت،صاحبِ مقاماتِ مسعود،حضرت خواجہ سید نصیر الدین چراغ محمود چشتی دہلویرحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ کا شمار سلسلہ عالیہ چشتیہ بہشتیہ،اور ہندوستان کے اکابر اولیاء میں ہوتا ہے۔حضرت محبوب الہی علیہ الرحمہ کےبعد آپ ہی کانام نامی اسم گرامی آتا ہے۔آپ نے سلسلہ عالیہ چشتیہ کے فروغ میں بڑا کردار ادا کیا۔نوجوانی میں ہی ترک و تجرید کے آثار ظاہر ہونے لگے تھے محاسنِ اخلاق اور مجاہدٔہ نفس کی روشنیاں ظاہر ہونے لگیں سنِ بلوغت کے بعد ایک نماز بھی جماعت کے بغیر ادا نہ کی اور ہمیشہ روزہ رکھتے تھے۔(خزینۃ الاصفیاء:219)
آپکی شان بہت بلند،علم بے پایاں اور احوال (پوشیدہ) کے مالک تھے اور ابتدائے سلوک سےلےکر انتہا تک مسلسل ریاضت و مجاہدات میں مشغول رہے۔تسلیم ورضا میں آپ کا ثانی نہیں تھا۔ آپ حضرت سلطان المشائخ کے بزرگ ترین خلیفہ ہیں اور آپ کے وصال کے بعد دہلی میں آپ سجادۂ خلافت پر متمکن ہوکر ایک جہان کے لیے منبع رشد و ہدایت بنے رہے۔ اور بے شمار بزرگوں کو آپکے فیض صحبت سے مرتبہ تکمیل وارشاد حاصل ہوا۔
مرآ ۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلی قدس سرہٗ نے پچیس سال کی عمر میں مجاہدہنفس شروع کیا اور ساری عمر سخت ریاضت و مجاہدہ میں گذاری۔ آپ سات سال تک ایک درویش کے ساتھ اس علاقے کےجنگلوں میں مجاہدی کرتےرہے اور اکثر اوقات آپ سنبھالو اور کریل کے پتوں سے روزہ افطار فرماتے تھے۔ اکتالیس سال کی عمر میں اپ اودھ سے دہلی پہنچے اور حضرت سلطان المشائخ قدس سرہٗ کی خدمت میں حاضر ہوکر شرف بیعت حاصل کیا۔ اور مدت دراز تک حضرت شیخ کی خدمت میں کمر بستہ رہے۔ حضرت شیخ نصیر الدین قدس سرہٗ اپنے شیخ کی محبت میں اس قدر بے اختیار تھے کہ اپنے ارادہ اور اختیار کو بالکل ترک کر کے حضرت شیخ کی ذات بابرکات کے سواہر مطلب و مقصد سے فارغ ہوگئے تھے۔ چنانچہ روایت ہے کہ ایک دفعہ جب حضرت شیخ نصیر الدین کو حضرت خواجہ قطب الدین بختیار قدس سرہٗ سے باریابی نصیب ہوئی (یعنی انکی روحانیت سے) تو فرمان ہوا کہ جو کچھ مانگتے ہو مانگو۔ آپ نے درخواست کی کہ ہمارا پیر قطب جہاں بن جائے۔ فرمان ہوا کہ تمہارے پیر کو ہم نے قطب ِجہان بنادیا اور یہ فرمان تین مرتبہ ہوا۔(اقتباس الانوار:483)۔حضرت محبوب الہی علیہ الرحمہ کے وصال کےبعد ان کے صدقے ووسیلے سے مقام ولایت وقطبیت کےمقام ِ رفیع پر آپ فائز ہوئے۔
حضرت شیخ مزامیر کےساتھ قوالی نہیں سنتے تھے:حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: سیرالاولیا میں ہے کہ شیخ نظام الدین اولیاء کی محفل سماع میں مزامیر (باجے) وغیرہ نہ ہوتے تھے اور نہ ہی تالیاں بجائی جاتی تھیں، اگر آپ سے کوئی کسی کے متعلق یہ کہتا کہ فلاں باجے وغیرہ سنتا ہے تو آپ اسے منع فرمادیتے اور فرماتے کہ باجے وغیرہ سننا شریعت میں ناجائز اور ممنوع ہیں۔ خیرالمجالس میں ہے کہ ایک شخص نے شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی سے آکر پوچھا کہ یہ کہاں جائز ہے کہ محفل سماع میں دف،بانسری،ستار، باجے وغیرہ بجائے جائیں اور صوفی ناچیں اور رقص کریں، آپ نے جواب دیا کہ باجے وغیرہ تو بالاتفاق اور بالاجماع ناجائز و گناہ ہیں، اگر کوئی طریقت سے نکل جانا چاہے تو شریعت میں رہنا ضروری ہے اور اگر شریعت سے بھی نکلنا چاہے تو پھر کہاں جائے گا؟ اولاً تو سماع ہی زیر بحث ہے اور علماء کا اس میں اختلاف ہے، اگر چند شرائط کے ساتھ جائز بھی کرلیا جائے تب بھی ہمہ قسم کے باجے وغیرہ بالاتفاق ناجائز و حرام ہیں۔(اخبار الاخیار:219/خزینۃ الاصفیاء:221/تذکرہ اولیائے بر صغیر پاک وہند:173)
حضرت محبوب الہی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’’قوالی کے جائز ہونے کے لئے چند چیزیں ضروری ہیں۔ سنانے والا، سننے والا،جو چیز سنائی جارہی ہے اور آلۂ سماع ،قوالی سنانے والا مرد ہو، بچہ اور عورت نہ ہو۔ سننے والا یاد حق سے غافل نہ ہو اور جو چیز سنائی جارہی ہے وہ فحش اور مسخرہ پن نہ ہو اور آلۂ سماع میں ہے جیسے چنگ اور رباب یعنی آلات موسیقی وغیرہ ایسی کوئی چیز درمیان میں نہ ہو۔ جب یہ شرطیں پائی جائیں تو قوالی حلال ہے‘‘۔(شریعت وطریقت:43۔بحوالہ سیر الاولیاء ص ۴۹۱' ۴۹۲)۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 18/رمضان المبارک 757ھ،مطابق 10/ستمبر1356ء،بروزجمعۃ المبارک ہوا۔آپ کامزار پرانوار دہلی میں مرجعِ خلائق ہے۔جب آپ کے وصال کا وقت قریب آیا توآپ نے فرمائی کہ مجھے دفن کرتے وقت حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین محبوب الہی کا خرقہ میرے سینہ پر رکھ دینا اور میرے پیر و مرشد کا عصا میرے پہلو میں رکھنا۔ حضرت شیخ کی تسبیح میری انگشت شہادت پر ہونی چاہیے اور چوبیں نعلین بغل میں رکھی جائیں۔ آپ کے خدام نے اسی طرح کیا۔(خزینۃ الاصفیاء:225)
ماخذ ومراجع:اقتباس الانوار۔اخبار الاخیار۔سیر الاولیاء۔خزینۃ الاصفیاء۔تذکرہ اولیائے برصغیر پاک وہند۔