گیسودَراز،
سیّدمحمد
کنیت: ابوالفتح۔
اَلقاب: صدرالدین،ولی
الاکبر،الصادق،اور ’’خواجہ بندہ نواز گیسودراز‘‘ کےلقب
سےزیادہ مشہور ہیں۔
والدِ ماجد :
آپ
کے والدِ ماجد سیّدیوسف حسینی حضرت خواجہ نظام
الدین اولیاء محبوبِ الٰہی سے بیعت
تھے،اور حضرت خواجہ نصیرالدین محمودکےروحانی فیوض سےبھی مستفیدہوئےتھے۔ سیّدراجہ
کہلاتھے۔آپ ہروقت عبادت وریاضت میں مصروف رہتے تھے۔اپنےنفس کےساتھ جہاد
کی وجہ سے دکن میں ’’راجوقتال‘‘ مشہورہوئے۔
نسب:
حضرت
سیّدمحمدگیسودراز کا سلسلۂ نسب حضرت امام زین العابدین
کے توسّط سے مولائے کائنات حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ سے جاکر
ملتا ہے۔اس لحاظ سےآپ حسینی سیّد ہیں۔
’’گیسودَراز‘‘
کہلانےکی وجہِ تسمیہ:
آپ ایک دن اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ اپنے پیر و مرشد شیخ نصیر الدین محمود چراغ دہلوی کی پالکی اٹھائے دہلی کے پُر رونق بازار سےگزر رہے تھے۔ آپ کے ’’گیسو‘‘ (زلفیں) پالکی کے نیچے پھنس گئے۔ آپ ادب و احترام کے پیشِ نظر ان بالوں کو نکالنے کی بجائے پالکی کے ساتھ ساتھ دوڑتے رہے، اور ایک لمبا فاصلہ طے کرگئے۔ حضرت شیخ چراغ دہلوی کو آپ کی اس کیفیت کا علم ہوا تو آپ نہایت خوش ہوئے اور حضرت گیسو دراز کی اس جاں نثاری اور ادب پر یہ شعر کہا:
ہر کہ مرید سیّد گیسو دراز شد
واللہ خلاف نیست کہ اوعشق بازشد
اُسی
دن سے آپ ’’گیسو دَراز‘‘ کے لقب سے مشہور
ہوگئے۔
ولادت:
آپ
کی ولادتِ باسعادت 4؍ رجب المرجب 720ھ مطابق 9؍ اگست1320ء،بروز جمعۃ المبارک دہلی
میں ہوئی۔
تحصیلِ
علم:
آپ
کی ابتدائی تعلیم وتربیت آپ کے والدِ ماجداورناناکےزیرِسایہ ہوئی۔آپ نےقرآن شریف
حفظ کیا،اس کےعلاوہ خلدآبادکےقیام کےزمانےمیں آپ نے عُلوم ِ دینیہ کی تحصیل
شروع کردی تھی۔ جب آپ اپنی والدۂ محترمہ کےہمراہ دہلی آئےتوآپ نےعلومِ
ظاہری حاصل کرنے میں کافی محنت و کوشش کی۔آپ کومولاناشرف الدین کیتھلی،مولاناتاج
الدین بہادر اورقاضی عبدالمقتدر سےعلومِ متداولہ کی بہت سی کتابیں پڑھیں۔ علوم ِ
دینیہ کی تحصیل سےانیس سال کی عمرمیں فراغت پائی۔ علوم ِ دینیہ کی تکمیل
کےبعدعبادت وریاضت اور تزکیۂ نفس کی طرف متوجہ ہوئے۔
بیعت
و خلافت:
آپ
16؍ رجب 736ھ کو شیخ الاسلام حضرت خواجہ نصیرالدین
چراغ دہلوی کےدست ِحق پرست پربیعت ہوئےاور کچھ مدّت کےبعدخرقۂ خلافت
سےسرفرازہوئے۔
سیرت
وخصائص:
امام
العاشقین،زبدۃ العارفین،قدوۃالسالکین،برہان الواصلین،شیخِ کامل، عارف باللہ حضرت خواجہ سیّدمحمد گیسودرازبندہ
نواز۔ آپ سیادتِ علم وولایت کےجامع تھے۔ آپ
اعلیٰ شان کے مالک تھے۔آپ احوالِ قوی، مشرب وسیع، بلندہمت، عارفانہ کلام،
صوفیانہ احوال اور شیریں مقال رکھتےتھے۔ مشائخ ِچشت
اہلِ بہشت میں آپ کامشرب خاص،اور رموزِحقیقت کےبیان میں آپ
کاطریقہ مخصوص ہے۔ آپ زہدوتقویٰ،تحمل وبردباری،سخاوت وفیاضی،عطا وبخشش، قناعت
وتوکل،ترک وتجرید، عبادات ومجاہدات میں یگانۂ عصرتھے۔ آپ کواپنےپیرومرشد شیخ الاسلام
حضرت نصیرالدین محمودچراغ دہلوی سے والہانہ محبّت تھی۔ حضرت چراغ دہلی رحمۃ اللہ علیہ جوحکم فرماتے تھے،آپ اس
کوبجالاتے۔آپ پانچوں وقت کی نمازباجماعت اداکرتےتھے۔ روزے پابندی سےرکھتےتھے۔تمام
سنن ونوافل اداکرتے تھے۔ کم سونا، کم کھانا، کم پینا،اور ہروقت ذکروفکر،مراقبہ
ومشاہدہ،اور مریدین کو وعظ ونصیحت میں ہمہ وقت مصروف رہتے تھے۔
آپ
کو تمام علوم پر مہارتِ تامّہ حاصل تھی۔ قرآن وحدیث اورتصوف وفقہ پر آپ
درس دیا کرتے تھے۔آپ نے مختلف موضوعات پر عربی اور فارسی زبان میں قریباً
ایک سو پانچ کتب تصنیف فرمائی ہیں،اور کچھ کتب کے حواشی اور شروح بھی
تحریر فرمائی ہیں،جیسے ’’شرحِ رسالۂ قشیریہ‘‘، ’’شرح فقہ الاکبر‘‘ اور قرآنِ مجید کے پانچ
پاروں کی تفسیر بھی لکھی ہے۔آپ کے ایک مرید نے آپ کے ملفوظات ’’جوامع
الکلم‘‘ کے نام سے جمع کیے ہیں۔مشائخِ
چشتیہ میں ان ملفوظات کی بہت اہمیت ہے۔ آپ کے نزدیک شریعت کی پاس داری
سب سے مقدم ہے۔
آپ
اپنے ملفوظات میں فرماتے ہیں:
’’یہ عقیدہ نہ رکھوکہ شریعت،طریقت اورحقیقت ایک
دوسرےسےجداہیں(فی زمانہ جس طرح جاہل پیرکہتے پھرتےہیں) بلکہ ایک ہیں۔دیکھو بادام
کےاندر تین چیزیں ہیں: پوست،مغزاورروغن،تینوں ایک دوسرےسےجدانہیں بلکہ ایک دوسرے
کاخلاصہ ہیں۔یعنی پوست کاخلاصہ مغزہےاورمغزکاخلاصہ روغن،اسی طرح شریعت کاخلاصہ
طریقت اورطریقت کاخلاصہ حقیقت ہے۔‘‘
آپ
کے نزدیک وقت سے زیادہ کوئی چیز قیمتی نہ تھی۔اس لیے آپ وقت کی بہت قدر کرتے
تھے،اپنے مریدین کو بھی اسی کی تلقین کرتے تھے کہ تمھارا ایک لمحہ بھی غفلت میں نہ
گزرے،بلکہ اللہ جَلّ شَانُہٗ کی یاد میں گزرے۔
وصال:
آپ
نے16؍ ذیقعدہ 825ھ مطابق1422ء کواس عالم سےپردہ فرمایا۔ بَہ وقتِ وفات آپ
کی عمرایک سوپانچ سال تھی۔
مزارِ
پُر اَنوار:
آپ
کا مزار گلبرگہ(دکن،انڈیا) میں قبلۂ حاجاتِ خلائق ہے۔
مآخذومراجع:
تذکرۂ اولیائے پاک وہند۔
خزینۃ الاصفیا۔
تذکرہ بزرگانِ چشت۔