حضرت مولانا حکیم عبد الماجد بد ایونی رحمۃ اللہ علیہ
مولانا شاہ عبد الماجد قادری بد ایونی رحمۃ اللہ علیہ کی کیف بار اور ولولہ انگیز خوش خطابت سے معمور تقریری وموعظہ کی یاد دلوں میں اب بھی باقی ہے، آپ بد ایوں کے مشہور عثمانی خاندان کے گوہر شب چراغ تھے، 4؍شعبان المکرم 1204ھ میں ولادت ہوئی، تاج الفحول مولانا شاہ محب رسول عبد القادر بد ایونی قدس سرہٗ کے زیر سایہ تربیت اور پرورش پائی، حضرت مولانا الحاج شاہ عبدالمجید قادری مقتدری اور مولانا مفتی محمدی ابراہیم قادری بد ایونی سے ابتدائی درسیات پڑھیں، اور شاہ محب احمد بد ایونی قدس سرہٗ سے درس نظامی پڑھ کر 1320ھ میں سندِ فراغت حاصل کی1321،22ھ میں دہلی میں قیام کر کے حکیم اجمل خاں دہلوی نے دستخط کر کے مہر لگائی، دھلی کی اقامت کے دوران زینت محل وغیرہ میں آپ کی تقریریں ہوئیں، یہاں عیسائیوں آریوں، غیر مقلدوں اور قادیانیوں سے آپ کے مناظرے ہوئے۔۔۔۔ دہلی سے واپس آکر والد بزرگوار کے قائم کردہ جامعہ شمسیہ کی ترقی کی اسکیم بنائی، چندہ کی فراہمی کے لیے اسفار کیے، نواب مزمل اللہ خاں رئیس بھیکم پور علی گڑھ، نواب سر حافظ احمد سعید خاں نواب چھتاری نے چندہ میں کافی رقم دی، اہلیان بمبئی وحیدر آباد نے بڑ ھ چڑھ کر حصہ لیا، مسٹر نگرام کلکڑ بد ایوں اور مسٹر لارڈ مسٹن گورنر مسٹن گورنر صوبہ یوپی نے وسط شہر میں خوش نما قطعہ آراضی مع عمارت دوامی پٹہ پر مدرسہ کے لیے دینا منظور کیا، مولوی ظہور حسین صاحب (ٹونک والا) نے علوہتمی سے شمس العلوم کا سری بقلک مینارہ اور دروازہ تعمیر کرایا، کتب خانہ کی خوشنما عمارت تیار ہوئی، دار الحدیث عثمانیہ کا نقشہ و تخمینہ تیار کر کے شاہ دکن کی خدمت میں پیش کردیا گیا، افسوس ہے کہ اسی زمانہ مسجد مچھلی بازار کان پور کا حادثہ اور خلافت کا مسئلہ پیش آگیا اور مولانا عبد الماجد کی توجہ مدرسہ کی تعمیر و ترقی کی طرف سے ہٹ کر ملکی معاملات کی طرف مبذول ہوگئی ورنہ یہ مدرسہ باعتبار وسعت وعمدگی تعلیم ہندو پاک میں معیاری اور سب سے بڑا جامعہ ہوتا، مدرسہ کو ریاست رام پور سے مستقل ماہانہ امداد ملتی تھی۔
مولانا کی ملکی وقومی خدمات تادیر دلوں کو رُلائے گی، مولانا شاہ محمد عبد الباری فرنگی محلی نے حفاظت کعبہ کے لیے جب ‘‘خدام کعبہ’’ کے نام سے مجلس قائم کی تو سب سے پہلے بد ایوں حضرت مولانا شاہ عبد المقتدر کی خدمت میں پہنچے اور تعاون وہمدردی کی درخواست کی، مولانا عبد الماجد بحکم پیر و مرشد خُدام کعبہ کی خدمت پر مامور ہوئے۔ 1919،22ھ میں لالہ لاج پت رائے اور شردھا نند کی کوششوں سے ملکانوں کی ارتداد کی مہم شروع ہوئی تو دیگر علمائے اہل سنت کے ساتھ آپ نے بھی رمضان المبارک میں جبکہ گرمی شباب پر ہوتی ملکانوں کو ارتداد سے بچانے کے لیے پیدل سفر کیے، عمر کا بیشتر حصہ سفر میں گذرا،
پیر ومرشد حضرت مولانا شاہ عبد المقتدر بد ایونی قدس سرہٗ کی معیت و ہمرکابی میں بغداد مقدس کا سفر کیا وفد خلافت کے ساتھ حجاز مقدس حاضر ہوئے، خلافت وکانگریس کے وفد میں موتی لعل نہر، حکیم اجمل خاں مولانا محمد علی جوہر اور مسٹر گاندھی کے ساتھ پورے ہندوستان کا دورہ کیا، آپ کے وعظ کا عجب حال تھا، نہایت ہی کیف بار اور وجد آگیں تقریر کرتے تھے، جوش تقریر میں عمامہ سر سے اُتر جاتا تھا، کان پور کے پیرڈ میدان کے رحبی شریف کے جلسہ کا آپ ہی کے ہاتھوں قیام ہوا، جہاں بھی ہوتے اس جلسہ میں ضرور تشریف لاتے، مولانا کے مواعظ کا ابتدائی دور تھا، کہ مراد آباد میں حضرت صدر الافاضل بریلوی اور مولانا تھانوی کے درمیان مباحثہ تصفیہ کے لیے طے پایا، فاضل بریلوی نے حضرت مولانا شاہ عبد المقتدر بد ایونی رحمۃ اللہ علیہ نے شوکت مذہب اہلسنت کے لیے شرکت کی درخواست کی حضرت نے آپ کو اور حضرت مولانا شاہ محب احمد قدس سرہٗ کو شرکت کے لیے بھیجا، وہاں بڑے بڑے علمائے اہل سنت تشریف فرماتھے، دس10بجے دن میں مولانا سید محمد فاخر کی تقریر کے بعد مولانا عبد الماجد صاحب کا وعظ شروع ہوا، پہلے دیر تک منبر پر دوزانو بیٹھ کر دعا مانگی پھر کھڑے ہوکر آہستہ آہستہ خطبہ شروع کیا، مجمع سے آواز بلند کرنے کی درخواست ہوئی، ابھی دوچارہی جملے کہے تھے کہ بحر فصاحت موج آفریں ہوا، طبیعت روانی پر مائل ہوئی، جوش خطابت میں عباکے دامن لہرانے لگے، تھوڑی دیر میں عمامہ کے بل کھل گئے، اتنا مؤثر اور دل نشین وعظ تھا، کہ ہر طرف سے مرحبا صل علی ، جزاک اللہ کی صدا آرہی تھی، کوئی بے خودی میں اشک بارتھا، کسی طرف سے آہ وبکاکا شور تھا،مسئلہ علم غیب پر کلمہ الہی اور حدیث رسالت پناہی کے دلائل کے انبار پیش کرتے جارہے تھے مجمع بے خود دو ساکت تھا، کہ مولانا نے ایک بجے دھوپ کی تمازت اور پسینے سے شرابور ہونے کی وجہ سے دعا پر تقریر ختم کی، مجمع کےاصرار پر ظہر بعد پھر چار گھنٹہ تک تقریر فرمائی، 1931ء میں بمقام لکھنؤ مسلم کانفرنس کا جلسہ تھا، اس میں شرکت کے لیے لکھنؤ گئے، راجہ صاحب سلیم پور کے مہمان ہوئے، نو9بجے شب رخصت ہوتے ہوئے مولانا حسرت موہانی مرحوم سے فرمایا ‘‘خدا حافظ’’ پھر اپنے ایک مُرید مولوی محمد نذیر صاحب کے یہاں جو صدر میں رہتے تھے اُن کے یہاں گئے، گیارہ بجے نماز عشاء پڑھی، اور دیر تک تلاوت قرآن پاک کی، اور اورادو وظائف سے فارغ ہوکر فرزند ارجمند حضرت مولانا عبد الواحد صاحب سے فرمایا، تم تنہا ہوگھبرانا نہیں، یہ کہہ کر سینے سے لگایاا ور فرمایا، آج روح بے چین ہے، دست وقےبار بار ہورہا ہے، تازہ وضو کرادو، نقاہت واناتوانی بے حد فزوں تھی، مولانا عبد الواحد صاحب کے کاندھے پر سر رکھ دیا اور یا غفور یا رحمان کہتے ہوئے دو شنبہ کی رات میں 3بجے 3؍شعبان المعظم 1350ھ موافق 14؍دسمبر 1931ء کو واصل بحق ہوئے اور اس طرح عمر بھر کی بیقراری کو قرار آگیا، نو9بجے دن میں نعش بذریعہ موٹر روانہ ہوکر5بجے شام بد ایونی پہنچی 9؍بجے شب میں اسی جگہ پر غسل دیا گیا جہاں آپ کے مرشدان عظام کا غسل میت ہوتا تھا، ایک بجے شب میں مولانا قطب الدین عبد الوالی فرنگی محلی کے اصرار پر آخری زیارت کرائی ، صبح کے وقت جنازہ نانخانہ میں پہنچایا گیا توچند قطرے خون کے ناک سے جاری ہوئے، درگاہ قادری کی حاضری کے وقت تک بوقت رونمائی ناک سے تازہ خون اُپھن اُپھن کر بہہ رہا تھا، یہ مولانا کی اس دعا کا اثر تھا جو آپ اپنے والد ماجد کی طرح شہادت کی محافل میں شہید ہونے کے لیے مانگا کرتے تھے۔۔۔۔۔دس بجے دن میں عید گاہ شمسی میں حضرت شیخ الاسلام مولانا شاہ عبد القدیر بد ایونی کی اقتداء میں نماز جنازہ ادا ہوئی، درگاہ قادری میں اپنے مرشد حضرت مولانا شاہ عبد المقتدر قدس سرہٗ کے پائیں دفن کیے گئے، شکیل بد ایونی مرحوم کے والد ماجد مولانا جمیل احمد سوختہ مرحوم نے قطعۂ تاریخ وفات کہا ؎
شیخ کل حضرت عبد الماجد |
مقتدر عالم دیں، نیک مزاج |
یک بیک ہوگئے واصل بخدا |
ہوگئی علم کی دنیا تاراج |
رہبر دین، شہ دیں تھے حضور |
آپ تھے ملت حق کے سرتاج |
کہیئے یہ آپ کی تاریخ جمیل |
’’ گل ہوا ہائے چراغ دین ‘‘ آج |
(حیات طیّبہ، اکمل التاریخ، معارف، صدق جدید)