حضرت مولانا مفتی عبدالجلیل رضوی بہاری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:مفتی عبدالجلیل ۔لقب: فقیہ العصر،رضوی،بہاری۔والدکااسم گرامی:مولاناسخاوت علی۔آپ کےوالدماجدمولاناسخاوت علی علیہ الرحمہ بہترین فارسی داں اور اپنے زمانے کےمشہور میلاد خواں تھے۔
تاریخ ِولادت:حضرت مولانا عبدالجلیل رضوی15/شوال المکرم 1352ھ،مطابق/ یکم فروری 1934ء کو ایک اعلیٰ گھرانے میں پیداہوٖئے۔
تحصیل علم:مولانا مفتی عبدالجلیل جب سخن آموزی کی منزل عبور کرچکے تو اپنے والد گرامی سے بسم اللہ خوانی کی رسم ادا کر کے ابتدائی تعلیم تا قرآن شریف کی تعلیم مکمل کر کے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے متعدد مدارس اسلامیہ کا سفر کیا۔ پھر جامعہ نعیمیہ مراد آباد تشریف لے گئے، خصوصیت کے ساتھ مولانا الحاج محمد یونس اشرفی مفتی حبیب اللہ نعیمی بہاری اور مولانا طریق اللہ قادری کے سامنے زانوئے ادب تہہ کر کے فراغت حاصل کی۔مفتی حبیب اللہ نعیمی بہاری کی دور بین نگاہوں نے مولانا عبدالجلیل کی ذہانت و فطانت کا جائزہ لیا اور دور طالب علمی میں دارالافتاء کی ذمہ داری آپ کے دوش ناتواں پر ڈال دی جسے مولانا عبدالجلیل بحسن وخوبی انجام دیتے رہے۔ اور زمانۂ طالب علمی کی تربیت آپ کی پوری زندگی پر اثر انداز اور پوری زندگی مسائل کی جانکاری کے لیے مرجع خلائق بنے رہے۔
بیعت وخلافت : حضور مفتیِ اعظم ہند شاہ مصطفیٰ رضاخان نوری علیہ الرحمہ کےدستِ حق پرست پربیعت ہوئے،اور15/ربیع الاول 1392ھ میں تمام سلاسل کی خلافت اورعملیات کی اجازت سےنوازا۔آپ کاحلقہ ارادت بہت وسیع ہے۔
سیرت وخصائص: عالمِ جلیل،فاضل ِنبیل،فقیہ العصر،خلیفۂ مفتی اعظم ہند،جامع شریعت وطریقت حضرت علامہ مولانا مفتی عبدالجلیل رضوی بہاری رحمۃ اللہ علیہ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ ایک متحرک شخصیت کےمالک تھے،ہروقت دین کی اشاعت میں کوشاں نظرآتے۔آپ نےدینی مدارس کےذریعے اہل سنت وجماعت کےفروغ میں بڑاکرداراداکیا۔آپ نے1956ءمیں "جامعہ اسلامیہ نوریہ"کی بنیادرکھی تھی،آج الحمدللہ ایک تناوردرخت کی شکل میں موجودہے،اورآپ کاعلمی ورحانی فیضان تقسیم ہورہاہے۔
مولانا عبدالجلیل علیہ الرحمہ میانہ قد، انتہائی حسین تھے اور چہرۂ بارعب کہ بڑے سے بڑے لوگوں پر ان کا ایک دبدبہ طاری رہتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود چہرے پر ایک مسکراہٹ قائم رہتی، اور اتنی سنجیدگی طاری رہتی کہ لوگ ادب کے دائرے سے باہر جانے کی جرأت نہیں کرتے۔آپ کا اخلاق بڑاوسیع تھا جو بھی ان سے ملاقات کےلیے آیا متاثر ہوئے بغیر نہیں گیا اور ہر کوئی یہی کہتا خواہ بڑا ہو یاچھوٹا اپنا ہو یا پرایا۔فقیہ العصر مفتی عبدلجلیل علیہ الرحمہ ہم سے زیادہ محبت کرتے تھے اور اہم سے زیادہ کسی دوسرے سے اتنی محبت نہیں کرتے۔اس قدر ہر ایک کے دلوں میں ان کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور خیالات اتنے بلند کہ مولانا عبدالجلیل جو فرماتے سننے والے یہ سمجھتے کہ گویا یہ میرے دل کی بات ہے۔
مولانا مفتی عبدالجلیل علیہ الرحمہ کو کتابوں کے مطالعہ کا بے حد شوق تھا اور نظر بڑی محققانہ تھی کتابوں کی کثیر تعداد ان کی ذاتی ملکیت میں تھی۔ مطالعہ کتب کا حال ایسا کہ کوئی مسئلہ در پیش ہوا ، تو تحقیق کا دروازہ کھلاہوتا کتابوں کا انبار سامنے ہوتا اور مسائل حل ہوتے ہر مسئلہ پر باریک نظر تھی۔ دلائل سامنے لاتے اور تشنگان علم وفن کی خوب خوب سیر یابی ہوتی، عربی وفارسی کی بہترین صلاحیت تھی۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے ریاضی میں کافی ادراک عطا فرمایا تھا۔ ریاضی کا وہ مسئلہ جس کاحل ہونا ہر ایک سے مشکل ہوتا آپ اسے منٹوں میں حل کردیتےتھے۔
ہرجگہ شریعت مطہرہ کا خیال مقدم ہوتا،اورکوئی بات جو شریعت کے خلاف ہو برداشت نہیں کرتے تھے اور ہم عصر علماء میں اپنے زہد وتقویٰ کےلحاظ سے ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔اپنےپرائے آپ کےزہدوتقویٰ سےمتأثرتھے۔آپ جہاں بھی تشریف لےجاتےنمازکی امامت آپ کرتےتھے۔آپ کی موجودگی میں کوئی بھی آگےنہیں بڑھتاتھا۔حضورمفتی اعظم ہند شہزادہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ آپ کی دینی خدمات کوقدرکی نگاہ سےدیکھتےتھے۔تقریباً آپ چوبیس دینی مدارس کی سرپرستی فرماتےتھے۔اسی طرح اہل سنت کی کئی تنظیموں کی سرپرستی،ومعاونت ،درس وتدریس،افتاء ،وعظ ونصیحت،مریدین کاتزکیہ وغیرہ آپ کےاہم مشاغل تھے۔الغرض آپ نےایک عملی زندگی گزاری،اپنےوقت کوصحیح مصرف لاکراللہ جل شانہ اور اس کےحبیبﷺ کی بارگامیں سرخروہوئے۔آپ کی زندگی آج کےنوجوان علماء کےلئے مشعل ِراہ ہے۔
تاریخِ وصال: اس تاریخ ساز شخصیت کا وصال 2/جمادی الثانی 1409ھ،مطابق 11/جنوری 1989ء بروز جمعرات شب 9بج کر 40 منٹ پر ہوا۔
ماخذومراجع: مفتیِ اعظم ہند اور ان کےخلفاء۔