اعجاز ولی خاں بریلوی، فقیہ المفخم، مفتی مولانا، رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی: مفتی اعجاز ولی خاں رضوی۔لقب: فقیہ المفخم،استاذالعلماء۔سلسلۂ نسب اس طرح ہے: استاذ العلماء فقیہ المفخم مولانا مفتی محمد اعجاز ولی خاں رضوی بن مولانا سردار ولی خاں (متوفی ۶؍ صفر ۱۳۹۵ھ؍ ۱۸؍ فروری۱۹۷۵ء بمقام پیر جو گوٹھ سندھ) بن مولانا ہادی علی خاں بن مولانا رضا علی خاں (جد امجد امام احمد رضا خاں قادری بریلوی)۔علیہم الرحمۃ والرضوان۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 11/ربیع الثانی 1332ھ مطابق 20/مارچ 1914ء کوبریلی شریف میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری فاضل بریلوی قدس سرہٗ سے مفتی محمد اعجاز ولی خاں نے قرآن مجید شروع کیا، اور حافظ عبدالکریم قادری بریلوی سے مکمل کیا۔پھر درسی کتابیں متوسطات تک برادر معظم مولانا مفتی تقدس علی خاں رضوی علیہ الرحمۃ شیخ الحدیث جامعہ راشدیہ پیر گوٹھ سندھ،مولانا مختار احمد سلطان پوری اور مولانا الشاہ محمد حسنین رضا خاں بریلوی سے پڑھیں۔ شرح جامی حضور مفتی اعظم علامہ مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی سے اور تفسیر جلالین حضرت مولانا سردار علی خاں علیہ الرحمۃ سے پڑھیں۔
حضرت مفتی اعجاز ولی خاں نے 1352ھ؍ 1929ء میں حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ سے سند حدیث حاصل کی بعد ازاں حجۃ الاسلام مولانا محمد حامد رضا بریلوی قدس سرہٗ سے بھی سند حدیث حاصل کی۔ پھر مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے صدر الشریعہ مولانا امجد علی رضوی اعظمی علیہ الرحمۃ کی خدمت میں مدرسہ سعیدیہ دادوں میں حاضر ہوئے اور تحصیل علوم کے بعد حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ سے سند حاصل کی۔
بیعت وخلافت: حضرت مفتی محمد اعجاز ولی خاں علیہ الرحمہ سلسلۂ قادریہ میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری فاضل بریلی قدس سرہٗ سے بیعت ہوئے اور حضور مفتی اعظم علامہ مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلی قدس سرہٗ سے سلسلۂ قادریہ رضویہ میں اجازت وخلافت سے مشرف ہوئے۔
سیرت وخصائص: استاذالعلماء،رئیس الفقہاء،مرجع الفضلاء،سندالاتقیاء،جامع علوم عقلیہ ونقلیہ حضرت علامہ مولانا مفتی اعجاز ولی خاں رضوی قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ خاندانِ اعلیٰ حضرت مجدد اسلام کےعظیم فرد اور فقیہ العصر تھے۔مفتی محمد اعجاز ولی خاں نے تکمیل علوم کے بعد این، بی ہائی اسکول بریلی میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا،پھر کچھ عرصہ دار العلوم منظر اسلام اور کچھ عرصہ دارالعلوم مظہر اسلام (مسجد بی بی جی صاحبہ) بریلی میں پڑھاتے رہے۔1945ء میں مفتی اعجاز ولی خاں مدرسہ منہاج العلوم پانی پت متصل مزار مولانا سید غوث علی شاہ پانی پتی قدس سرہٗ تشریف لےگے، اور ایک سال فرائض تدریس انجام دینے کے بعد دار العلوم منظر اسلام بریلی میں چلے آئے۔
تقسیم ملک کے بعد 20/دسمبر 1947ء کو پاکستان آکر جامعہ محمدی شریف جھنگ میں 1951ء تک شیخ الحدیث رہے۔ بعد ازاں کچھ عرصہ دارالعلوم اہلِ سنت وجماعت جہلم میں رہے، جون 1954ء میں شیخ الحدیث والفقہ کی حیثیت میں جامعہ نعیمیہ لاہور تشریف لے آئے اور تقریباً چھ سال تک بحسن و خوبی کام کیا۔ مفتی محمد اعجاز ولی خاں 1960ء میں جامعہ نعمانیہ لاہور میں شیخ الحدیث مقرر ہوئے، 1973ء میں جامعہ نعمانیہ لاہور کی جانب سے جمعیۃ علماءِ پاکستان سے وابستگی پر اعتراض کیا گیا تو مفتی اعجاز ولی خاں نے استعفیٰ دے دیا،اور جامعہ نظامیہ لاہور میں شیخ الحدیث مقرر ہوگئے، افسوس کہ مفتی محمد اعجاز ولی خاں رضوی جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور میں صرف دو دن تشریف لائے گزرے تھے کہ مرض وفات لاحق ہوگیا، اور جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور کے طلبہ آپ سے مستفیض نہ ہوسکے۔
تحریکِ پاکستان میں کردار:حضرت مفتی محمد اعجاز ولی خاں علیہ الرحمۃ 1937ء ہی سے تحریک مسلم لیگ کی حمایت و اعانت فرماتے رہے۔ 1940ء میں جب لاہور میں قرار دادِ پاکستان منظور ہوئی تو مفتی محمد اعجاز ولی خاں نے اس کی حمایت میں دارالافتاء رضوی بریلی سےفتویٰ جاری کیا۔ 1945ء اور 1946ء میں مشرقی پنجاب کا دورہ کر کے پاکستان کے لیے فضا ہموار کی۔ 1953ء میں تحریک ختم نبوت میں حصہ لینے کی بنا پر ایک سودن تک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند رہے۔
قومی سیاست میں کردار: حضرت مفتی محمد اعجاز ولی خاں ابتداء ہی سے جمعیت علماءِ پاکستان کے معاون رہے۔ حضرت علامہ ابو الحسنات قدس سرہٗ کے دور میں مجلس عاملہ کے رکن اورحضرت علامہ عبدالحامد بدایونی کے دورِ صدارت میں مغربی پاکستان کے صدر رہے۔ حضرت خواجہ محمد قمر الدین سیالوی کے دور صدارت میں خازن رہے۔ مئی 1971ء میں جمعیت علماءِ پاکستان صوبۂ پنجاب کے صدر مقرر کیے گئے، اورجمعیت علماء پاکستان سےوابستگی کی بنا پر منصب شیخ الحدیث سے استعفیٰ دے دیا۔(تذکرہ اکابر اہل سنت:65)
چند یادگاریں: 1954ء میں حضرت داتا گنج بخش قدس سرہٗ کے مزارِ انوار کے قریب جامعہ گنج بخش قائم کیا۔ غالباً 1956ء میں جامعہ مسجد محلہ اسلام پورہ میں خطیب مقرر ہوئے اور وہاں دارالعلوم حامدیہ رضویہ قائم کیا۔ مفتی محمد اعجاز ولی خاں نےگنج بخش کے نام سے ایک ماہ نامہ بھی جاری کیا جو ایک عرصے تک جاری رہنے کے بعد بند ہوگیا۔
علم وفضل: مفتی محمد اعجاز ولی خاں حسنِ اخلاق،ایثار وقربانی،حق گوئی،صاف دلی،بےنفسی،علم پروری،قوتِ حافظہ،مسائل فقہیہ کے استحضار، صلابت رائے اور تاریخ گوئی میں اپنی مثال آپ تھے۔ بےشمار علماءِ کرام نے مفتی محمد اعجاز ولی خاں سے اکتسابِ فیض کیا۔
تصانیف:۱۔ قانون میراث۲۔ تسہیل الواضح خلاصہ النحو الواضح۳۔ تنویر القرآن (تفسیر قرآن برحاشیہ کنز الایمان)۴۔ ترجمہ مکتوبات شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہٗ ۵۔ ترجمہ کشف الاسرار، مختلف کتب پر مقدمہ اور بے شمار فتاویٰ ہیں۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال پرملال 24/شوال المکرم 1393ھ مطابق 20/نومبر1973ء برزمنگل ہوا۔نماز جنازہ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا سید ابو البرکات رضوی نے پڑھائی، میانی صاحب بہاول پور روڈ لاہور میں مولانا غلام محمد ترنم قدس سرہٗ کے سرہانے آخری آرام گاہ بنی۔حضرت مولانا محمد ابراہیم خوشتر صدیقی رضوی نے تاریخی وصال کہی۔
؎ رخصت ہوا جہان سے یہ کون باکمال۔۔۔۔۔بوجھل ہوئی زمیں تو فلک غم سے ہے نڈھال
عقبیٰ کی فکر، دین کا جس کو رہا خیال۔۔۔۔۔۔’’از عاقبت بخیر1393ھ ہے اس کا سنِ وصال
ماخذومراجع: تذکرہ اکابر اہل سنت۔ مفتیِ اعظم اور ان کے خلفاء۔