مفتی محمد امین قادری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: مفتی محمد امین قادری۔لقب: شاہین ِ ختمِ نبوت۔سلسلہ نسب: مولانا مفتی محمد امین قادری بن محمد حسین بن محمد ابراہیم واڈی والا۔ آپ کا نسبی تعلق’’ کتیانہ میمن‘‘جماعت سے ہے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 22/رجب المرجب 1392ھ مطابق 7/نومبر 1972ء کو ’’کھارا در‘‘ کراچی پاکستان میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: میٹرک کتیانہ میمن اسکول ککری گراؤنڈ کھارادر سے کی۔ بی کام سندھ مسلم کامرس کالج کراچی اور ایم اے اسلامیات کراچی یونیورسٹی سے کیا۔دعوت اسلامی کے ماحول نے متاثر کیا تو اس میں شامل ہوگئے پھر دینی تعلیم کا شوق پیدا ہوا تو مولانا محمد جاوید میمن مینگھرانی سے ابتداء کی پھر نور مسجد کاغذی بازار میں مولانا محمد عثمان برکاتی سے رات میں تعلیمی سفر جاری رکھا۔ اکثر کتابیں وہیں پڑھیں اس کے بعد دارالعلوم امجدیہ میں محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ اعظمی مدظلہ العالی(مبارکپور) شارح بخاری علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی اور امیر دعوت اسلامی مولانا محمد الیاس قادری زید مجدہ اور دیگر صد ہا علماء کرام کی موجودگی میں آپ کی دستارِ فضیلت ہوئی۔
بیعت وخلافت: آپ 1985ء کو جامع مسجد گلزار حبیب میں سلسلہ قادریہ عطاریہ میں امیر دعوت اسلامی مولانا محمد الیاس عطار قادری سے دست بیعت ہوئے۔ شیخ العرب والعجم محمد بن علوی مالکی مکی، شیخ زکریا بخاری مدنی ، شیخ ابو بکر صدیق الجزائری، شیخ حبیب العالی یمنی کے علاوہ ہندو پاک کے کئی علماء و مشائخ نے خلافتیں سندیں اور اورادو ظائف کی اجازتیں عطا فرمائیں۔ قائد اہل سنت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی سے بہت عقیدت رکھتے تھے۔(انوار علمائے اہل سنت سندھ:117)
سیرت وخصائص: مفتیِ اہل سنت،محسن ِملت،پروانۂ شمعِ رسالت، شاہینِ ختمِ نبوت، حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امین قادری۔ آپ جہدِ مسلسل کےذریعے دینِ متین کی خدمت کرنےوالے انسان تھے۔آپ کاکردار اس افرا تفری اور نفسا نفسی کےدور میں قابلِ تحسین اور قابل ِ تقلید ہے۔قلیل عرصے میں بہت بڑا کام انجام دیا۔زمانہ ٔ طالب علمی سے ہی دین کاجذبہ رکھتےتھے۔دن جیسے جیسے گزرتے گئے اس میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔درس وتدریس،وعظ ونصیحت،اور تصنیف وتالیف آپ کامقصدِ حیات تھا۔ہمہ وقت کسی نہ کسی دینی کام میں مصروف نظر آتے۔اسی طرح خوش مزاجی، باوقار، اور ملنسار طبیعت ، ناصحانہ اندازِ گفتگو ، تلقین آمیز تقاریر ، جمعہ کے خطبات میں مسائل پر گہری نظر ، درس و تدریس ، افتاء کا منصب ، احیاء سنت کی عالمگیر تحریک دعوت اسلامی سے وابستگی ، دین متین کے لئے جذبہ قربانی سے سرشاری ،کتب بینی کا جنونی شوق ، فرائض و سنن پر مداومت، یہ وہ صفات اور حالات تھے جنہوں نے مرحوم کو محبوب ِعام و خاص کردیا تھا ۔ اکابرین بزرگانِ دین سے کئی و ظائف کی اجازت بھی حاصل تھی جن میں اکثر آپ کے معمولات میں رہے۔ آپ پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کا بہت آسان انداز میں جواب دیتے مسائل کا حل چاہنے والوں کا اکثر اوقات تانتا بندھا ررہتا تھا۔ علمی مذاکرات ، حج اور عمرہ تربیتی پروگرامز اور دیگر اہم دینی موضوعات پر تقاریر کیلئے مدعو کئے جاتے۔ آپ کی تقاریر تحقیقی اورپر مغز ہوتیں۔ بیک وقت تشنگانِ علم کو سیراب اور متلا شیانِ علم کو مالا مال کرتیں۔(شاہینِ ختمِ نبوت:2)
درس و تدریس: دوران تعلیم ہی رات میں تدریس کا مشغلہ جاری رکھا۔ نور مسجد(کاغذی بازار) سے تدریس کا آغاز کیا۔ بعد میں انوار مدینہ مسجد ، اسماعیل اور آرائیں مسجد (جمشید روڈ) میں فرائض تدریس انجام دیتے رہے، اس کے علاوہ آپ نے دارالعلوم غوثیہ فاروق آباد پرانی سبزی منڈی کراچی میں کئی سال تک تدریس کے ساتھ فتاویٰ نویسی کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔اپنے گھر کے قریب جامع مسجد اسماعیل گیگا جمشید روڈ کراچی میں جمع کو خطابت فرماتے تھے۔ مرکز فیضان مدینہ سبزی منڈی میں کئی مرتبہ اور دعوت اسلامی کے سالانہ مرکزی اجتماع ملتان شریف میں درس قرآن و حدیث دیا۔
سفر حرمین شریفین: آپ نے تین بار حج بیت اللہ اور کئی بار عمرے کی سعادت حاصل کی، اس طرح کئی بار روضۂ رسول ﷺ کی حاضری کی سعادت حاصل کی1990ء میں مفتی وقار الدین قادری (رئیس الافتاء دارالعلوم امجدیہ کراچی) کی رفاقت میں بغداد شریف،کربلا معلیٰ، اور نجف اشرف میں مولائے کائنات امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰ ، سید الشہداء سید نا امام حسین ، سید التابعین امام اعظم ابو حنیفہ ت اور سرکار غوث اعظم محبوب سبحانی قطب ربانی شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی ٗ مع دیگر مزارات مقدسہ پر حاضری کی سعادت اور انوار و برکات کی دولت سے مشرف ہوئے۔
عقیدہ ختم نبوت کےتحفظ میں شاندار خدمات: آپ کی زندگی کا اہم منفرد اور دلچسپ کارنامہ ہے ختم نبوت کے حوالے سے تقریباً ایک صدی کے تناظرمیں علماء و مشائخ اہل سنت احناف نے جو گراں قدر کام کیا ہے ۔ گردشِ زمانہ کےپیشِ نظر ان کی دوبارہ شاعت نہ ہوسکی۔اس لیے دیگر اہم کتب کی طرح ان کےنایاب ناپید ہونے کاخطرہ پیدا ہوگیا تھا۔اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطاء فرمائے شاہینِ ختم نبوت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امین قادری کوانہوں نے تمام نادر و نایاب کتب و رسائل کو جمع و تدوین کا منفرد کام سر انجام دیا۔یہ وہ عظیم و منفرد کام ہے جو کہ مفتی امین کو ہمیشہ زندہ رکھے گا۔، جب کام سامنے آئے گا تو آپ کی محنت شاقہ، کھوجنا، تلاش ، جستجو ، ذوق و شوق کا اندازہ ہوگا کہ آپ نے کہاں کہاں اور کس قدر مسافت کے سفر اختیار کئے، کن کن لائبریریوں میں راتیں جاگ کر اجالا کیا، کن کن شخصیات سے رابطہ کرکے خانہ تلاشی کا کام کیا، قلمی و بیاض سے کیسی کیسی تحریریں برآمد کیں۔اس حوالے سے مفتی صاحب خود رقم طراز ہیں کہ:
”آج سے تقریباً تین سال قبل عزیزی توفیق قادری ضیائی حنفی نے ایک ملاقات میں فقیر سے کہا کہ ختم نبوت کے موضوع پر علمائے اہل سنّت کی کتب کو شائع کیا جائے۔ یہ تقریباً سوا صدی پر محیط علماء و مشائخ اہل سنّت کی علمی جدوجہد پر مشتمل منتشر کام کو یکجا کرنا تھا، بزرگوں کی دعاؤں اور سرکار علیہ الصلوۃ والسلام کے وصف خاص ختم نبوت کے ادنیٰ فدائیوں میں اپنا نام لکھوانے کی غرض سے کمر ہمت باندھی‘‘۔(روشن دریچے:38
اس عظیم الشان کام کے لیے آپ نے پاکستان بھر کی بیشتر لائبریریوں کی خاک چھانی اور بہت کم وقت میں عقیدۂ ختم نبوت کے حوالے سے علماء اہل سنّت کی کتابوں، مضامین اور تحریری کام کو جمع کرنے میں کامیاب ہوئے۔ مفتی صاحب نے عقیدۂ ختم نبوت سے متعلق مواد کو کئی جلدوں میں جمع کیا ہے اور ابتدائی چھ جلدوں پر مقدمہ مدینہ شریف میں بیٹھ کر مکمل کیا۔ ابھی کچھ جلدیں ہی زیور طباعت سے آراستہ ہوئی تھیں کہ آپ فانی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ آپ کے بعد اس مشن کو ”ادارہ تحفظ عقائد اسلام“ نے جاری رکھا۔ الحمدللہ 2013ء تک اس ادارہ نے’’ انسائیکلوپیڈیا عقیدۂ ختم نبوت‘‘ کی پندرہ جلدیں شائع کر دی ہیں ۔15/جلدیں کے اس مجموعے میں کل تیس (30) علماء اہل سنّت کی باسٹھ (62) کتابوں اور رسائل کو 7674 (سات ہزار چھ چوہتر) صفحات میں ایک جگہ جمع کر کے شائع کیا گیا ہے، ابھی مزید کئی جلدوں پر کام جاری ہے۔اس کے علاوہ مفتی صاحب نے پہلی بادارالعلوم امجدیہ میں عقیدۂ ختم نبوت کے سلسلے میں 15/ روزہ تربیتی کورس شیخ الحدیث علامہ منظور احمد فیضی کے ذریعےحضرت مفتی محمد ظفر علی نعمانی کی نگرانی میں کروایا۔ کورس کے اختتام پر اسناد بھی جاری کی گئیں۔ آپ ہر سال 7/ستمبر کو عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے سلسلے میں اکابرین امت کی مدلل تحریروں سے مزین پوسٹر بھی شائع کرتے رہے۔
تصنیف و تالیف: آپ نے دارالعلوم امجدیہ میں دوران تعلیم سالنامہ ’’رفیق علم‘‘ کا اجراء کروایا۔ امجدیہ کے پچاس سال پورے ہونے پر ’’رفیق علم کا گولڈن جوبلی‘‘ نمبر شائع کروانے میں بھی کامیاب ہوئے۔’’وفا کے پیکر‘‘ (تحریک پاکستان میں علمائے اہل سنت کا کردار)۔اردو زبان میں بیس حصوں پر مشتمل فقہ حنفی کا مشہور انسائیکلو پیڈیا یعنی بہار شریعت کے مکمل بیس حصے کمپوز کروا کر ایک کمپیوٹر سوفٹ ویئر سی ڈی تیار کرائی جو ایک ادارے کے زیر نگرانی خوبصورت کتابی شکل میں پر نٹ ہوکر مارکیٹ میں دستیاب ہے۔امام احمد رضا فاضل بریلی کےفتا ویٰ رضویہ کی سوفٹ ویئر سی ڈی بنا نے کے لئے اکثر جلدوں کی کمپوزنگ مکمل کروائی جو مصنف جامع الاحادیث حضرت علامہ حنیف صاحب دام ظلہ العالیٰ کے زیر نگرانی تحریج اور تسہیل کے مراحل سے گزر دخراجِ تحسین وصول کرچکی ہے۔(شاہینِ ختمِ نبوت:3)۔آپ نے ایک شادی کی جس سے ایک بیٹی تولد ہوئی۔آپ کے وصال کے پندرہ دن بعد آپ کے گھر ایک بیٹے کی ولادت ہوئی جس کا نام محمد علقمہ رکھا گیا۔
تاریخِ وصال: 18 ذوالقعدہ 1426ھ ،20/دسمبر 2005ء،بروز بدھ،وقتِ نماز مغرب فقط چھتیس سال کی عمر میں انتقال کیا۔میوہ شاہ قبرستان میں تدفین ہوئی۔
ماخذ ومراجع: انوار علمائے اہل سنت سندھ۔روشن دریچے۔شاہین ختم نبوت۔