حسن سخی
سلطان منگھو پیربابا، خواجہ حافظ
نام: حسن
لقب: سخی
خطاب: سلطان
عرف: منگھو پیر بابا۔
نسب:
حضرت حافظ حاجی حسن سخی
سلطان المعروف منگھو پیر بابا نجیب
الطرفین سیّد ہیں: والدِ ماجد کی طرف سے حسینی اور والدۂ ماجدہ کی طرف سے حسنی سیّد ہیں۔
زیارتِ
نبیﷺ اوربرِّ صغیر:
آپ تیرھویں صدی عیسوی میں بخار ا سے برِّ
صغیر تشریف لائے۔ آپ نے تاتاریوں کے لشکر کے خلاف جنگ میں حصّہ لیا، جس نے اُس ملک
پر حملہ کیا تھا۔ اس کے بعد آپ حجازِ مقدس زیارت کے لیے چلے گئے۔ اسی دوران جب آپ
مدینۂ منوّرہ میں قیام پزیر تھے تو آپ خواب میں نبیِ اکرم حضرت سیّدنامحمدمصطفیٰﷺ
کی زیارت سے مشرف ہوئے تو حضور علیہ الصلاۃ
والسلام
نےآپ
کو حکم دیا کہ
’’ہندوستان میں اجودھان جاکر اپنی خدمات
بابا فرید گنج شکر کو پیش کرو۔‘‘
بیعت و خلافت:
حضورنبیِ اکرمﷺ کے حکم پر، حضرت منگھو پیر اجودھان
(جس کا موجودہ نام پاک پٹن شریف ہے) پہنچے اور حضرت بابا فرید
گنج شکرکے شاگردوں اور مریدوں میں شامل ہوگئے۔
کراچی
آمد:
بیعت و خلافت کا شرف بخشنے کے کچھ دنوں بعد
حضرت بابا فرید گنج شکرنے حضرت منگھو پیر کو اپنا خلیفہ مقرر کیا اور اپنے خلافت نامے میں ہدایت کی کہ
اس جگہ جائیں جو اَب کراچی کہلاتی ہے
اور وہاں مقیم ہوجائیں اور اپنا مشن، تبلیغِ
اسلام بنائیں اور اسلامی تعلیمات کو علاقے میں عام کریں۔ حضرت بابا فرید کی حیاتِ
مبارک 1175ء سے 1265ء تک ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ آپ نے آخری
سولہ یا چوبیس سال پاک پٹن میں گزارے۔ حضرت منگھو پیر ایک غار میں رہ کر روحانیت،
عرفانِ الہٰی کو حاصل کرنے کے لیے وظائف اور دعائیں کیا کرتے تھے۔ وہ علاقہ غیر
آباد بنجر تھا۔ بعد میں آہستہ آہستہ علاقہ آباد ہوتا گیا اور علاقےکے لوگوں کو آپ کی
روحانی و علمی صلاحیت کا علم ہوتا گیا ۔ یہ ایک عام سی بات ہے، خدا کے نیک
بندے غیر آباد علاقوں میں قیام کرتے ہیں جو آہستہ آہستہ آباد ہوتے
جاتے ہیں۔
حضرت
منگھو پیر نے دعاؤں اور تبلیغ سے ایک کم عرصے میں بہت کام کیا۔ وہ چھوٹی سی پہاڑی
جس کے غار میں آپ قیام پذیر ہوئے تھے اور اپنا مشن عبادت و تبلیغ شروع
کیا تھا وہاں بے شمار لوگ آباد ہوتے گئے اور علاقہ منگھو بستی یا اورنگی وادی کے
نام سے مشہور ہوگیا۔
ترجمانوں
کا خیال ہے کہ محمد بن قاسم کے کچھ سپاہی وقتی
طور پر اس علاقے میں رہائش پذیر ہوئے اس
لیے کہ اس وقت کے قبروں کے ڈیزائن کے آثار موجود ہیں، جو ایسے نشانات رکھتے
ہیں جو چوکنڈی، ٹھٹھہ اور سہون شریف کے قبروں پر ملتے ہیں۔
وجہِ شہرت ’’منگھو پیر‘‘:
حضرت
منگھو پیر کو اس نام سے لوگ پیا رو محبّت اور
عقید ت سے یاد کرتے ہیں اس لیے کہ وہاں تالاب میں کئی مگر مچھ موجود ہیں۔ منگھار
میچ کے معنی مگر مچھ کے ہیں اور منگھو پیر کے معنیٰ ہیں مگر مچھ والے پیر۔ اس
تالاب میں تقریباً ۱۵ مگر
مچھ پائے جاتے ہیں جبکہ بیان یہ کیا جاتا ہے کہ کبھی اس تالاب میں ۱۰۰ مگر مچھ ہوا کرتےتھے، اس تالاب میں
مگر مچھوں سے متعلق مختلف روایتیں وغیرہ ملتی ہیں۔ ایک سمجھ میں آنے
والی یہ بات بھی ہے کہ دریائے حب میں طغیانی آنے سے مگر مچھ یہاں آگئے اور تالاب
میں ایک چشمہ ہے جہاں سے پانی آتا ہے، زائرین اور عقیدت مند حضرت منگھو پیر بابا کی نسبت کااحترام کرتے
ہوئے، ان مگر مچھوں کو خوراک مہیا کرتے ہیں۔
ٹھنڈے
اور گرم پانی کے چشمے:
یہاں
ٹھنڈے اور گرم پانی کے گندھک ملے ہوئے چشمے ہیں، جن میں زخم کی شفایابی کی تاثیر
ہے خاص کر جلدی امراض کے لیے مفید ہیں۔ اسی کے قریب کوڑھ کا سینی ٹوریم بھی واقع
ہے۔ مختلف عقیدے کے لوگ اس مزارِ مبارک پر حاضری دیتے ہیں اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے بعد چشموں
پر جاکر نہاتے ہیں اور مگر مچھوں کو گوشت ڈالتے ہیں۔
ایک
مرید کی کرامت:
حضرت
منگھو پیربابا کے ایک مرید، جن کانام حضرت خاکی
شاہ بخاری ہے، جو بعد میں آپ کے خلیفہ بنے اور منگھو پیر باباکے مزار کے
احاطے ہی میں حضرت خاکی شاہ بخاری کا مزار واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں ایک ہندو
شہزادی کوڑھ میں مبتلا تھی اور حضرت منگھو پیر نے اپنے مرید خاکی شہ کو ہدایت کی کہ وہ اس کا علاج دعا ؤں سے
کریں جو کامیاب رہا۔ ہندو راجہ اس کرامت کو دیکھ کر مسلمان ہو گیا اور اپنی بیٹی کی شادی حضرت
خاکی شاہ سے کردی۔
بعض ہم
عصر بزرگانِ دین:
1.
حضرت
بابا فرید گنج شکر (جو منگھو پیر بابا کے پیر و مرشِد بھی
تھے)
2.
حضرت
بہاؤ الدین زکریا ملتانی
3.
حضرت
عثمان مروندی عرف لال شہباز قلند
4.
حضرت
جلال الدین بخاری
یہ تمام بزرگان ایک
دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب یہ تمام بزرگان حضرت منگھو پیر سے ملنے آئے اور
آپ سے فرمایا کہ آپ ان کے ساتھ حج پر چلیں۔ حضرت منگھو پیر نے فرمایا کہ ان
کی وفات کا وقت قریب ہے اور انھوں نے اپنا مشن مکمل کرلیا ہے، جو حضرت نبی پاک ﷺ
کی ہدایت کے مطابق اسلام کی تبلیغ کا مشن تھا اور جو ہدایت آپ کو آپ کے پیر و مرشِد
حضرت بابا فرید گنج شکرنے دی تھی۔ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ وہیں رہیں ۔
حضرت
منگھو پیر بابا کے متعلق تاریخ معلومات:
حضرت منگھو پیر کے بارے میں تاریخی
معلومات مندرجۂ ذیل کتابوں میں ملتی ہیں:
1. ’’تاریخ البرہانی‘‘، مصنّف
برہان الدین عربی زبان میں ہے اور الازہر یونیورسٹی میں موجود ہے۔
2. ’’تحفۃ الکرام‘‘، مصنّف مؤرخِ
سندھ میر علی شیر قانع ٹھٹوی۔
3.
سفر
نامۂ ابنِ بطوطہ
وصالِ پُرملال:
8؍ ذی الحج کا دن تھا کہ آپ نے وفات پائی اور 8 تا 9 ذی الحج کو ہر سال
آپ کا عرسِ مبارک منایا جاتا ہے۔
مزارِ
مبارک: منگھو
پیر روڈ، کراچی۔
ماخذ:
تذکرہ
اولیاءِ سندھ۔
