عبدالحق
محدث دہلوی، شیخِ محقق
شاہ
نام: عبدالحق۔
کنیت: ابوالمجد۔
اَلقاب: شیخِ محقق، محقق علی الاطلاق، خاتم المحدثین، افضل
المحدثین، امام الہند۔
تاریخِ ولادت: یکم محرم الحرام958ھ مطابق جنوری 1551ء، بروز منگل۔
مقامِ ولادت: مقام دہلی (ہند) میں ہوئی۔
نسب:
آپ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے:
شیخ عبدالحق محدث دہلوی بن سیف الدین بن سعداللہ بن
فیروز بن ملک موسیٰ بن ملک معز الدین بن آغا محمد ترک بخاری رَحِمَہُ اللہُ تَعَالٰی۔
خاندانی پس منظر:
شیخِ محقق حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی کے اَجداد کا وطن بخارا تھا۔ سب سے پہلے آغا محمد ترک
سلطان علاء الدین خلجی کے زمانے (1296ء) میں ترکِ وطن کر کے دہلی آئے،ان کے ساتھ
اعزہ و احباب اور مریدین کی ایک بڑی تعداد بھی واردِ ہندوستان ہوئی۔
شاہانِ دہلی اس خاندان کی ہمیشہ تعظیم و توقیر کرتےاور شاہانہ عنایتوں سے نوازتے
رہتے اور یہ خانوادہ دہلی میں علوم و معارف کی شمعیں روشن کرتا رہا۔(محدثین
عظام حیات وخدمات:621)
اسی طرح آپ کا ننھیال بھی علم وتقویٰ میں اپنی مثال آپ تھا۔
شیخ کی والدۂمحترمہ مولانا زین العابدین المعروف بہ شیخ ادھنؔ دہلوی کی بیٹی
تھیں۔ حضرت
شیخِ محقق کے والدِگرامی حضرت شیخ
سیف الدین فرماتےتھے: حضرت شیخ ادھن بڑے دانش مند، اور عابد و زاہد تھے۔بے حدخشوع
وخضوع، خاکساری،ادب وتہذیب اور وقار ودبدبہ والے بزرگ تھے۔میں نے کوئی ایسا نہیں
دیکھا جس کا حالِ ظاہر وباطن یک ساں ہو،سوائے شیخ ادھن کے۔الغرض یہ کہ حضرت شیخِ محقق کے ددھیال اور ننھیال
دونوں علم وفضل، تقویٰ ودیانت میں ممتاز تھے۔ ان کا دینی احساس بھی بیدار تھا،اپنے
دامن کو دنیا کی آلائشوں سے پاک وصاف رکھا، اور اپنے دیگر معاصرین کی طرح دنیوی
عزت وحشمت کی خاطر علم ودیانت کو بےآبرو نہیں کیا۔ (شیخ
عبد الحق محدث دہلوی، ص91)
تحصیلِ علم:
حضرت شیخِ محقق نے ابتدائی تعلیم کا آغاز
اپنے والد شیخ
سیف الدین کی
آغوشِ شفقت میں کیا۔ شیخ اتنے
ذہین اور طباع واقع ہوئے تھے کہ صرف تین ماہ میں قرآنِ حکیم مکمل کرلیا اور ایک
ماہ کی قلیل مدت میں لکھنا سیکھ لیا، پھر فارسی ادبیات اور عربی کتابیں پڑھنی شروع
کیں۔ فارسی میں گلستاں، بوستاں، دیوانِ حافظ، ابتدائی عربی،میزان،مصباح،کافیہ کا
درس والد صاحب سے لیا۔
حضرت شیخِ محققخود فرماتے ہیں:
میں نے قلیل عرصے میں تمام کتابوں پر عبور حاصل کرلیا اور ادب و
عربیت، منطق وکلام کی کتابوں پر مکمل دست گاہ
ہوجانے کے بعد سات آٹھ برس بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ عرصے تک بعض ماور اء لنہری
علما سے اس طرح درس لیا کہ شب و روز میں صرف دو تین ساعت کے لیے مطالعے، غور و فکر
اور مشغولیت سے فارغ رہتا۔
(اخبار الاخیار، ص291)
اَساتذۂ کرام:
حضرت شیخِ محقق نے حضرت شیخ عبدالوہاب متقیسے حدیث اور تصوف کا درس
لیا،اور سند حاصل کی۔
حضرت شیخِ محقق نامور اساتذہ یہ ہیں:
1.
شیخ سیف الدین
2.
شیخ محمد مقیم
3.
شیخ عبدالوہاب متقی
4.
قاضی علی بن جار اللہ
5.
شیخ ابی الحزم مدنی
6.
شیخ عبدالوہاب
7.
شیخ محمد بہنسی
8.
شیخ حاجی نظر بدخشی
9.
سیّد جعفر سمرقندی۔ (شیخ
عبدالحق محدث دہلوی، 99)
شوقِ مطالعہ و کتب بینی:
حضرت شیخِ محققاپنی کتب بینی کا حال
بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’مطالعہ کرنا میرا شب وروز کا مشغلہ تھا ۔ بچپن ہی سے میرا یہ حال
تھا کہ میں نہیں جانتا تھا کہ کھیل کود کیا ہے؟آرام وآسائش کے کیا معانی ہیں ؟ سیر
کیا ہوتی ہے ؟بارہا ایسا ہوا کہ مطالعہ کرتے کرتے آدھی رات ہوگئی تو والد ِ محترم
سمجھاتے : ’’بابا! کیا کرتے ہو؟ ’’یہ سنتے ہی میں فوراً لیٹ جاتا اور جواب دیتا
:’’سونے لگا ہوں‘‘ پھر جب کچھ دیر گزر جاتی تو اٹھ بیٹھتا اور پھر سے مطالعے میں
مصروف ہوجاتا۔ بسا اوقات یوں بھی ہوا کہ دورانِ مطالعہ سر کے بال اور عمامہ وغیرہ
چراغ سے چھو کر جھلس جاتے لیکن مطالعے میں مگن ہونے کی وجہ سے پتانہ چلتا‘‘۔
(اشعۃ اللمعات،جلد اوّل ،مقدمہ ، ص72)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
میرے والدین ہر چند کہتے تھے کہ تھوڑی دیر کے لیے محلے کے لڑکوں کے
ساتھ کھیل لو اور وقت پر سوجاؤ میں کہتا تھا کہ آخر کھیلنے سے مقصد دل کا خوش کرنا
ہی تو ہے۔ میری طبیعت اسی سے خوش ہوتی ہے کہ کچھ پڑھوں یا لکھوں۔ عام طور پر ماں
باپ بچوں کو پڑھنے اور مکتب جانے کی تاکید اور تنبیہ کیا کرتے ہیں، لیکن اس کے
برعکس مجھے کھیل کود کی ترغیب دیتے تھے۔(اخبار الاخیار، ص302)
بیعت
وخلافت:
سلسلۂ عالیہ قادریّہ میں اپنے والدِ گرامی سے بیعت ومجاز ہوئے۔
آپ فرماتے ہیں:
والدم
را برمن حق پدری، واستادی، ودوستی،وپیری جمع است۔
پھر آپ بعمر 27سال،6؍شوّال
985ھ کی صبح حضرت سیّد موسیٰ پاک شہیدسے سلسلۂ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے اور
خرقۂ خلافت حاصل کیا۔ان کے علاوہ، آپ کو حضرت شیخ باقی باللہسے سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ کی اجازت حاصل
ہوئی۔شیخ عبدالوہاب متقینے آپ کو سلسلۂ قادریہ
جیلانیہ متقیہ کے ساتھ قادریہ،شاذلیہ،مدینیہ اور چشتیہ کاخرقۂ تصوف پہنایا۔(شیخ
عبدالحق، ص95)
سیرت
وخصائص:
محقق
علی الاطلاق،
شیخ المحققین، خاتم المحدثین، افضل المحدثین، امام الہند، برکت الہند،
محسن الامّت، فخرِ
ملّت، نابغۂ روزگار، عالم وعارف، فقیہ، محدث، محقق، مدقق، حضرت شیخ عبدالحق محدث
دہلوی کی ثقاہت،فقاہت،علمی دیانت اور فضیلت کانہیں
انکار کرےگا مگر اندھا متعصب اور جاہل۔ تمام طبقات میں آپ کی ذات مُسَلَّم
ہے۔آپ ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے سب سے پہلے علم ِ حدیث حرمین شریفین سے حاصل
کرکے،اس سے خطۂ ہندوستان کو منور کیا،اور اس علم
کو عام کیا۔حدیث کی شروحات فارسی زبان میں تحریر کرکے اور ان کی وسیع پیمانے پر
طباعت کرواکرپورےخطے میں عام کروائیں،تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ علمِ
حدیث سےفیض یاب ہوں۔صِغرسِنی میں ہی آپ کی شہرت عام ہوگئی تھی۔ تکمیلِ علم کے بعد آپ نے ہندوستان کی
راجدھانی فتح پوری سیکری کا قصد کیا، جو اس وقت علما و
فضلا کا مرکزتھا۔ شیخ کے تعلقات ملک
الشعراء فیضی سے تھے چناں چہ شیخ جب فتح پور سیکری پہنچے تو آپ کا شایانِ شان
استقبال کیا گیا اور دربار شاہی میں خوب پذیرائی ہوئی۔
خود فرماتے ہیں:
’’جب اللہ کے فضل و کرم
سے مجھے علم کا خاصہ حصہ مل گیا تو بعض اہلِحقوق نے مجھے اہلِ دنیا کی طرف بلایا اور میں بادشاہ وقت اور امراء
کے پاس گیا انہوں نے میری طرف بہت توجہ کی اور عزّت سے پیش آئے۔‘‘
(المکاتیب والرسائل، ص 279)
یہ وہ دور تھا جب اکبر کے الحادی رجحانات شروع
ہوچکے تھے اور علمائے سُوء کا ایک بہت بڑا گروہ اس کےگرد جمع ہوگیا تھا، جن
کی مدد سے اکبر اپنی لادینی تحریک کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ شیخ کو
بھی آلۂ کار بنانے کی کوشش کی گئی مگر وہ عالم ربانی جس نے بچپن سے لے کر
فتح پور سکری پہنچنے تک خالص دینی ماحول میں تعلیم و تربیت پائی تھی ،جنہیں قدرت
نے علم کی اشاعت اور حق کی حمایت کے لیے پیدا کیا تھا وہ بھلا ایسے ملحدانہ ماحول
میں رہنا کیوں کر پسند کرسکتے تھے۔اس درباری ماحول میں بہت جلد ان کی طبیعت
اچاٹ ہوگئی۔اگر زمانہ سازی پر ان کی طبیعت ذرا بھی راضی ہوجاتی تو دولت و ثروت
اوردنیاوی جاہ و حشمت ان کے قدم چومتی، لیکن ان کا مذہبی شعور بیدار تھا
اوروہ کسی قیمت پر اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے کے لیے تیار نہ تھے۔ اکبر کے سیاسی
اقتدار نے اتنی قوت پالی تھی کہ اس کے خلاف انفرادی جدوجہد کامیاب نہیں ہوسکتی تھی۔
اس پُر آشوب ماحول میں آپ نے ترکِ وطن کا ارادہ کرلیا اور حجازِ مقدس کی راہ لی۔
آپ فرماتے ہیں:
996ھ میں جذبہ غیب سے پیدا ہوگیا اور دل پر وحشت طاری ہوگئی
دیوانگی کی حالت میں سفر کا ارادہ کرنے کے علاوہ میرے لیے کوئی اور چارہ
نہ رہا۔ (مقدمۂ زاد المتقین)
مکۂ مکرمہ میں اس وقت حضرت شیخ عبدالوہاب متقی کا فیض عام تھا،آپ ان کی خدمت میں پہنچے۔
آپ فرماتے ہیں:
’’تمام اہلِ حرمین اور کل مشائخِ یمن، اور مشائخ مصر و شام سے جس نے حضرت کو دیکھا ہے ان کا معتقد ہے
اور ان کی ولایت اور عُلوِشان کا قائل ہے۔‘‘ (اخبار الاخیار، ص263)
شیخ عبدالوہاب کی علمی و روحانی تعلیم و تربیت نے شیخ عبدالحق کی ذات
کو علم و عمل، زہد و ورع کا روشن مینار بنادیا۔ آپ نے قیامِ حجاز کے دورانِ متعدد حج کیے اور مکے سے مدینۂ منوّرہ کا
سفر بھی کیا۔ وہ حضرت رسالت مآبﷺ سے بےکراں محبت رکھتے تھے۔ یہی عشق رسول ﷺان کا
سرمایۂ حیات تھا۔ چناں چہ جب دیارِ حبیب میں پہنچے تو برہنہ پا ہوگئے۔ مدینۂ
منورہ میں کبھی جوتیاں نہ پہنیں۔ اپنے جذبۂ عقیدت و محبت کو سلکِ نظم
میں پروکر بارگاہِ رسالت ﷺ میں ایک قصیدہ پیش کیا۔
بیا اے دل قدم نہ
برسرِکوئے وفا آنگہ۔۔۔۔ زِراہِ صدق جاں راخاک راہِ آں کف ِپاکُن
خرابم
درغمِ ہجرِ جمالت یا رسول اللہ۔۔۔۔۔۔ جمالِ خود نُما رحمے
بجان زارِ شیدا کن
سرکارﷺ کی نظرِ کرم:
حضرت شیخِ محققرسول اللہﷺکے عاشقِ صادق تھے۔ہروقت آپﷺکی محبت میں تڑپتے رہتے تھے، اور میرے آقا ﷺاپنے محبین پر خاص کرم فرماتے
ہیں۔ حضرت شیخِ محقق نے چار بار زیارتِ
رسولﷺ کا شرف حاصل کیا۔
حضرت شیخِ محقق نے 21؍ ذی الحجہ 998ھ
کو ایک خواب دیکھا جو اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ
ایک تخت پر بیٹھے ہوئے حدث شریف کا درس دے رہے ہیں اور جمال و جلال کے وہ اَنوار
ان کے چہرۂ مبارک سے چمک رہے ہیں جن سے زیادہ تصور ہی نہیں کیے جاسکتے۔‘‘
اُسی شب یہ خواب بھی دیکھا کہ حضرت امام حسین اعداء ِدین سے لڑنے کے
لیے لشکر تیار کر رہے ہیں۔ شیخ عبدالحق کی پوری زندگی حقیقت میں اسی خواب کی
تعبیر بن گئی وہ آخری سانس تک حدیث کی نشرو اشاعت میں سرگرم اور اعدائے دین کے
خلاف نبرد آزمائی میں مصروف رہے۔
مراجعتِ
ہندوستان:
شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے جن پریشان کن حالات میں ہندوستان
چھوڑا تھا اور حجازِ مقدس کی علمی و روحانی فضاؤں میں انہیں اطمینانِ خاطر نصیب
ہوا اور ان کی علمی و روحانی شخصیت کی
تعمیر و تشکیل ہوئی انہوں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ شہرِ امن ہی کو اپنا مسکن بنا لیں
گے مگر رہبر کامل شیخ عبدالوہاب متقی نے علوم و معارف کی تمام وادیوں کی سیر کرادی
اور مردِ کامل بنا دیا تو ہندوستان لوٹ جانے کا حکم دیا۔
آپ فرماتے ہیں:
میرے
دل میں حضرت غوثِ اعظم کی زیارت کااشتیاق تھا کہ یہاں سے بغداد جاؤں گا،لیکن شیخ
نے اس سےبھی منع کردیا،اور فرمایا: اب تمہیں یہاں رہنے یا وطن اصلی کے علاوہ دوسری
جگہ جانے کی اجازت نہیں۔ حضرت غوث اعظم تمہارے ساتھ ہیں جس جگہ بھی رہو ان سے
محبت اور اعتقادکے ساتھ ان کی طرف توجہ رکھو ان کی پیروی کی کوشش کرو، ان کے حکم
پر چلو ۔اور شیخ عبدالوہاب نے بوقتِ روانگی حضرت
غوثِ پاک کا ایک پیراہن مبارک عطا کیا اور فرمایا: ’’آپ بے کار نہ بیٹھیے گا اِنْ شَآءَ اللہُ تَعَالٰی اس طرف سے امدادِ اَنوار
مسلسل ہوتی رہے گی۔
شیخ
عبدالحق کا مدرسۂ علم و ارشاد:
شیخ
حجازِ مقدس سے جب ہندوستان وارد ہوئے تو یہاں کی فضا پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوچکی
تھی۔ اکبر اور اس کے حاشیہ نشینوں
نے اپنے الحادی مشن نام نہاد دینِ الٰہی کی اشاعت کھلم کھلا شروع کردی تھی۔ اسلامی
شریعت اور دینی روایات کا برملا مذاق اڑایا جاتا۔ اکبر کو ’’ظِلِّ اِلٰہ‘‘
کہنے والوں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا:
’’مرتبۂ
سلطانِ عادل عنداللہ زیادہ از مرتبۂ مجتہداست۔‘‘
اس محضر کی رو سے اکبر کو
مَعَاذَ اللہ پیغمبر کا درجہ دینے کی
ناپاک جسارت کی گئی۔ قرآن و سنّت کے اَحکام سے بے اعتنائی عام ہونے لگی تھی۔ عوامی
زندگی اور مدارس و خانقاہ اس تحریک کے مضر اثرات سے محفوظ نہ رہ سکے۔ صوفیا نے
شریعت کو طریقت سے علیحدہ کرکے اپنے غیر شرعی اعمال کا جواز تلاش کرلیا۔ علمائے
سوء نے فقہ کو اپنی بہانہ جو فطرت کا آلہ بنایا،اور حیلہ بازی کا وہ دور شروع ہوا
کہ بقول ملا عبدالقادر بدایونی: ’’حِیَلِ بنی اسرائیل پیشِ آں شرمندہ‘‘ ۔ (منتخب التواریخ، ج2
ص203)
شیخ نے انہیں روح فرسا حالات سے متاثر ہوکر ہندوستان چھوڑا تھا کیوں
کہ اس فتنےکے تدارک کی قوت ان کے اندر موجود نہ تھی،مگر اب وہ علومِ دینی کا بے کراں
سرمایہ اپنے سینے میں لےکر لوٹے تھے،اور فتنوں کی مدافعت کی بھرپورتوانائی ان کے
اندر پیدا ہوچکی تھی جسے بروئے کار لاکر اُنھیں علمِ نبوّت کی اشاعت، باطل کی
تردید اور دین حق کے احیاء کا کام کرنا تھا۔چناں چہ دہلی واپس آکر 1000ھ میں حلقۂ
درس قائم کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دین ِالٰہی مسلم معاشرےکو اپنی لپیٹ میں لینے کے
لیے زورمار رہا تھا۔ اکبر کے زیرِ اثر علمائے سوء اور مفاد پرست صوفیوں کا ایک ایسا گروہ پیدا
ہوگیا تھا جو دین کی حقیقی روح کو ختم کردینے کے لیے آمادہ تھا ایسے نازک اور پُر
آشوب ماحول میں حضرت شیخ نے ایسا مدرسہ قائم کیا، جس نے صرف شریعت و سنّت کی حقیقی
روح کو اجاگر ہی نہیں کیا بلکہ باطل پرستوں کی ایسی سرکوبی کی کہ دوبارہ پنپنے کا
موقع بھی نہ ملا۔ دوسری درس گاہوں کے
برخلاف اس مدرسےمیں قرآن و حدیث کو تمام علومِ دینی کا مرکزی نقطۂ نظر قرار دے کر
تعلیم دی جاتی تھی ۔ فنِ حدیث میں شیخ کی خدمات و کمالات کا دائرہ کافی وسیع ہے ان
کا سب سے بڑا اور اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ہندوستان میں علمِ حدیث لا کر،
اُسے غیر معمولی فروغ دیا۔ چوں کہ شیخ کے زمانے میں حدیث شریف سے غفلت برتی
جارہی تھی اور دین کی اصل سے بے اعتنائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ دین کی حقیقی
روح ماند پڑنے لگی۔ اپنے وقت میں شیخ نے پوری قوت کے ساتھ حدیث و سنّت کی تعلیم کا
بیڑا اُٹھایا اور سنّت ِرسول ﷺکے ذریعے عروقِ مردہ میں اسلامی معاشرے
کی روح ڈال دی۔
آپ زندگی بھر کتاب و سنّت کی تعلیم دیتے رہے اور پورے ہندوستان میں
آپ کی درس گاہ امتیازی شان کی حامل تھی، جہاں صدہا طالبِ علم بَہ یک وقت تعلیم
پاتے اور شیخ کے علاوہ متعدد باصلاحیت علما مدرس تھے اس طرح شیخ کے ہزاروں ایسے
باکمال مخلص تلامذہ پیدا ہوگئے جنہوں نے شیخ کی تحریکِ احیائے شریعت و سنّت کو آگے
بڑھایا۔شیخ اپنے مدرسےمیں صرف عالم ہی پیدا نہ کرتے تھے بلکہ وہ ایسے مردِمجاہد
تیار کرتے جو باطل کے خلاف صف آراء ہوسکیں اور دین و شریعت کی بقا و تحفّظ کے لیے
پوری عمر سرگرمِ عمل رہیں۔حضرت شیخ کی عبقری شخصیت مرجعِ خلائق بن گئی تھی۔ آپ کے
علمی و روحانی کمالات سے مستفیض ہونے کے لیے صرف عوام اور طلبہ ہی نہیں، علما و
مشائخ، امراء و سلاطین بارگاہِ عالی میں حاضر ہوکر سرنیاز خم کرتے اور قدم بوسی کی
سعادت حاصل کرتے۔ بادشاہِ ہندوستان شاہجہاں زیارت کے لیے حاضر ہوا اور نیازمندی کا
اظہار کیا۔ 1028ھ میں جب وہ کشمیر کی مہم پر روانہ ہونے لگا تو شیخ سے دعاؤں کا
طالب ہوا۔
اس مختصر تذکرے میں حضرت محقق کی سیرتِ پاک کا احاطہ ناممکن ہے۔
تصانیف:
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی صرف بلند پایہ مدرس اور روحانی مربی ہی
نہ تھے بلکہ وہ اپنے زمانے کے بڑے باکمال صاحبِ قلم مصنّف بھی تھے اور انہوں نے
عمر بھر درس و تدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف کا شغل بھی جاری رکھا۔ جس طرح وہ
ہندوستان کے عظیم محدث ہیں، اسی طرح وہ ممتاز مصنّف بھی ہیں۔ ان کی تصانیف کی
تعداد ایک سو سے زیادہ بتائی جاتی ہے؛ جو حدیث، تفسیر، عقائد، تصوف و اَخلاق، فقہ،
اعمال و اوراد، منطق و فلسفہ، تاریخ، سیرو
تذکرہ، نحو و ادب کا احاطہ کرتی ہیں۔بالخصوص علم ِ حدیث کے حوالےسےجو خدمات ہیں وہ
رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔ آپ کی تعلیمات آپ کی کتب سے عیاں ہیں۔آپ کی کتب
سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ فی زمانہ اکابرین کےنقشِ قدم پر کون عمل پیرا ہے۔
تصانیفِ شیخِ محقق حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی کی ایک نامکمل فہرست
حسبِ ذیل ہے:
1) اجازۃ
الحدیث فی القدیم والحدیث
2) اجوبۃ
اثنا عشر فی توجیہ الصلاۃ علٰی سیّد البشر
3) احوال
ائمۃ اثنا عشر خلاصۃ
اولاد سیّد البشر
4) اخبار
الاخیار فی احوال الابرار
5) آداب
الصالحین
6) آداب
اللباس
7) آداب
المطالعۃ والمناظرۃ (مثنوی)
8) اسمآء
الاستاذین
9) اسمآء
الرجال والرواۃ المذکورین فی کتاب المشکٰوۃ
10) اشعۃ اللمعات فی شرح المشکٰوۃ
11) افکار الصافیۃ فی ترجمۃ کتاب الکافیۃ
12) انتخاب المثنوی المولوی المعنوی
13) انوار الجلیۃ فی احوال مشائخ الشاذلیۃ
14) بناء المرفوع فی ترصیص مباحث الموضوع
15) تحصیل التعرّف فی معرفۃ الفقہ والتصوّف
16) تحصیل الغنآئم والبرکات بہ تفسیر سورۃ
والعادیت
17) تحقیق الاشارۃ الٰی تعمیم البشارۃ
18) ترجمۃ الاحادیث الاربعین فی نصیحۃ الملوک
والسلاطین
19) ترجمۃ زبدۃ الآثار منتخب بہجۃ الاسرار
20) ترغیب اہل السعادات علٰی تکثیر الصلاۃ علٰی
سیّد الکائنات
21) تسلیۃ المصاب لنیل الاجر والثواب
22) تعلیق الحاوی علٰی تفسیر البیضاوی
23) تکمیل الایمان وتقویۃ الایقان
24) تنبیہ العارف بما وقع فی العوارف
25) توصیل المرید الی المراد بہ بیان
26) الاحزاب والاوراد
27) جامع البرکات منتخب شرح المشکٰوۃ
28) جمع الاحادیث الاربعین فی ابواب علوم الدین
29)
جواب بعض کلمات شیخ احمد سرہندی
30) حاشیۃ الفوائد الضیائیۃ
31) حسن الاشعار فی جمع الاشعار(دیوان)
32) درۃ البھیۃ فی اختصار الرسالۃ الشمسیۃ
33) درۃ الفرید فی قواعد التجوید
34) ذکر ملوک (تاریخ سلاطین ہند)
35) رسالۂ شبِ برات
36) رسالۂ صلاۃ الاسرار
37)
رسالۂ عقدِ انامل
38)
رسالۂ نورانیہ سلطانیہ
39)
رسالۂ اقسام حدیث
40)
رسالۂ وجودیہ
41)
رسالۂ وظائف
42) زاد المتقین
43) زبدۃ الآثار منتخب بہجۃ الاسرار
44) شرحِ سفرالسعادت
45)
شرحِ شمسیہ
46)
شرح صدور تفسیر اٰیت النور
47)
شرح فتوح الغیب
48) شرح القصیدۃ الجزریۃ
49) صحیفۃ المودّۃ
50) فتح المنّان فی تائید مذھب النعمان
51) فصول الخطب
52) فھرس التوالیف (تالیف قلب الالیف)
53) لمعات التنقیح فی شرح مشکٰوۃ المصابیح
54) ما ثبت بالسُّنّۃ فی ایّام السَّنۃ
55) مدارج النبوۃ
56) مرج البحرین
57) مطلب الاعلٰی فی شرح اسمآء اللہ
58) مطلع الانوار البھیۃ فی الحلیۃ النبویۃ
59) نکات الحق والحقیقت
60) نکات العشق والمحبّت
61)
وصیت نامہ
62) ھدایۃ المناسک الٰی طریق المناسک
پی
ایچ ڈی مقالہ:
شیخِ محقق حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی کی شخصیت و خدمات پر محترم ڈاکٹر محمد یونس
قادری زِیْدَ
مَجْدُہٗ نےجامعہ
کراچی (شعبۂ سیاسیات) سے ایک پی ایچ ڈی مقالہ(PhD Thesis) تحریر فرمایا، جس کا عنوان
ہے:’’شیخ عبدالحق محدث دہلوی موضوعاتی مطالعہ‘‘۔
ڈاکٹر موصوف نے یہ مقالہ پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری زِیْدَ مَجْدُہٗ کی زیرِنگرانی2001ء میں مکمل کیا، جو مکتبۃ
الحق، کراچی سے 23؍ ربیع الاوّل 1428ھ مطابق 12؍ اپریل 2007ء کو شائع ہوا۔
تاریخِ
وصال: 21؍ ربیع الاوّل 1052ھ مطابق 19؍ جون 1642ء، بروزِ جمعرات۔
نمازِ
جنازہ:
حضرت شیخِ محقق کی وصیت کے مطابق آپ کی
نمازِ جنازہ آپ کے بڑے صاحبزادے شیخ نورالحق مشرقی دہلوینے پڑھائی۔
تدفین:
حضرت شیخِ محقق نے دہلی میں کنارۂ حوضِ شمسی کے قریب ایک مقبرہ
تعمیر کروایا تھا، اُسی مقبرے میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔
مآخذ
ومراجع:
1.
محدثینِ عظام حیات وخدمات۔
2.
شیخ عبد الحق محدث دہلوی موضوعاتی مطالعہ۔
3.
زاد المتقین۔
4.
اخبار الاخیار۔
5.
منتخب التواریخ۔

