حضرت شاہ نیازاحمد بریلوی رحمتہ اللہ علیہ
نام ونسب:اسم گرامی:راز احمد۔تخلص:نیازاحمد۔اب اسی تخلص سےمعروف ہیں۔والدکااسم گرامی:شاہ محمدرحمت اللہ ہے۔آپ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ قدیمہ میں صاحبِ ارشادتھے۔حضرت خواجہ فخرالدین دہلوی علیہ الرحمہ سےخاص تعلق تھا۔خواجہ صاحب آپ کابےحدادب کرتےتھے۔ آپ والدکی طرف سے علوی سیدہیں اوروالدہ کی طرف سے حسینی ورضوی ہیں۔آپ کی والدہ محترمہ مولانا سعدالدین کی صاحبزادی تھیں،اورمولاناسعدالدین حضرت شیخ کلیم اللہ شاہ جہاں آبادی علیہ الرحمہ کےخلیفہ تھے۔آپ کے اجدادشاہان بخاراسے تھے۔آپ کے اجدادمیں حضرت شاہ آیت اللہ علوی تاج و تخت چھوڑکرملتان تشریف لائے۔ان کے پوتے شاہ عظمت اللہ ملتان سے سرہند میں آکررہنے لگے۔وہاں سے حضرت شاہ رحمت اللہ علوی دہلی تشریف لائے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1173ھ میں سرہندمیں ہوئی۔
تحصیل ِ علم: آپ کی والدہ ماجدہ جو رابعۂ عصر تھیں نے اپنی نظروں میں بٹھایا اور اپنی زیر نگاہ تربیت دی پھر ظاہری و باطنی علوم کے لیے حضرت شاہ فخر الدین رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پیش کیا حضرت مولانا فخر قدس سرہ نے بھی شاہ نیاز کو بڑی توجہ اور شفقت سے زیور تعلیم سے آراستہ کیا آپ سترہ سال تک ظاہری اور باطنی علوم کی تحصیل میں مصروف رہے آپ کو معقول منقول فروغ و اصول حدیث و تفسیر فقہ و منطق جیسے علوم مروجہ میں درجۂ کمال تک پہنچادیا۔آپ کےنانامولانا سعدالدین ایک جیدعالم دین تھے۔ان سےبھی تحصیلِ علم کیا۔
بیعت وخلافت: آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں حضرت خواجہ فخرالدین دہلوی علیہ الرحمہ کےحق پرست پر بیعت ہوئے۔آپ کی طرف سےخلافت بھی ملی۔حضرت خواجہ صاحب کےمحبوب اوررازاداں خلیفہ تھے۔حضر ت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سےایک بزرگ حضرت سید عبداللہ بغدادی علیہ الرحمہ نے حضر ت غوث الاعظم کےحکم سے آپ کوخلافت عطافرمائی۔
سیرت وخصائص:عارف اسرارربانی،محبوب حضر ت محبوب ِسبحانی ،حضرت شاہ نیازاحمدقادری نظامی بریلوی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ صاحبِ علم وکرامات بزرگ ،اوربڑے صاحب راز ونیاز اور مالک سوزو گداز تھے ۔عشق و محبت میں اپنی مثال آپ تھے ۔علوم ظاہر و باطنی میں یگانہ روزگار تھے۔طالبان حق کو اللہ تک رسائی کرانا ان کے کمالات میں شامل تھا۔ آپ کی خانقاہ فیوض ربانی کا خزینہ اورانوار سبحانی کا مطلع تھا۔ ہزاروں سحر زدہ دل آپ کی دل جوئی سے خدا رسیدہ بن گئے اور سینکڑوں بے خبر اللہ کی معرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
ہروقت عشقِ الٰہی میں سرشاررہتےتھے۔عجزوانکساری اور حضرت مولانافخرالدین فخرجہاں کے وابستگان سے لگاؤاورمحبت کی یہ حالت تھی کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا فخرالدین جہاں کی پالکی اٹھانے والوں میں سے ایک کہاری آپ کی خانقاہ میں آیا،آپ اس کو لینے کی غرض سے خانقاہ کے صحن تک تشریف لے گئے،اس کہاری کے ہاتھوں کو بوسہ دیااورنہایت عزت کے ساتھ اس کو اپنی مسندکے پاس بٹھایا،اس کو نذرپیش کی اور رخصت کیا۔اسی طرح آپ خاندان رسالت کابڑااحترام کرتے تھے۔ایک مرتبہ ایک مجلس وعظ میں آپ رونق افروز تھے۔آپ کی نگاہ ایک صاحب پرپڑی جو سیدتھے۔وہ نہایت شکستہ حال تھے اورسب سے پیچھے بیٹھے ہوئےتھے۔آپ ان کو دیکھتے ہیں اٹھے اوراپناسران کے قدموں پر رکھ دیا،پھرحاضرین سے مخاطب ہوکرفرمایاکہ:"سب لوگ گواہ رہیں کہ اگرخداکے یہاں مجھ سے یہ سوال ہوگاکہ تواس مجلس وعظ میں گیاتھاتومیں یہی عرض کروں گاکہ میں نے وہاں بھی تیرے رسول کی اولادکے قدموں پر سررکھاتھا"۔
آپ رات کوبارہ بجے کے قریب اٹھتے،وضوکرتے اورتہجدپڑھتے۔تہجد سے فارغ ہوکرخاندانی وظیفہ پڑھتے۔بعدازاں بارہ تسبیح ضرب کی اداکرتے۔صبح کی نماز پڑھ کر تھوڑی دیرآرام کرتے۔ فنِ شاعری میں خاص مہارت تھی۔آپ کاکلام مقبولِ عام اورپرتاثیرہے۔آپ کو صوفی شعراء کی بزم میں ایک خاص درجہ حاصل ہے۔آپ کا تخلص"نیاز"ہے۔دو دیوان،ایک فارسی زبان میں،اوردوسرااردوزبان میں آپ کی شاعری کی یادگارہیں۔آپ کاکلام فصاحت تام حقائق و معارف کا آئینہ ہے۔ایک مرتبہ جب آپ نے اپنی ایک غزل حضرت مرزاجان جاناں مظہرشہیدرحمتہ اللہ علیہ کو سنائی توحضرت مرزاصاحب پر وجدانی کیفیت طاری ہوگئی۔
بعدازوصال بیعت: ایک انگلستانی کابل سے آپ سےبیعت ہونے کی غرض سے بریلی آیا۔شہرسے باہردریاکے کنارے اس کی ایک شخص سے ملاقات ہوئی۔باتوں باتوں میں اس ولایتی نے اپنے آنے کی وجہ ظاہرکی۔اس شخص نے یہ سن کرکہاکہ:"جس شخص کے پاس تم جاتے ہو،وہ نیازاحمدمیں ہی ہوں"۔وہ شخص وہیں بیعت سے مشرف ہوا،پھراس شخص سے فرمایاکہ تم خانقاہ چلو،میں بھی وہیں آتاہوں، وہ شخص جب خانقاہ میں آیاتودیکھاکہ آپ کی (حضرت شاہ نیازرحمتہ اللہ علیہ کی)سوم کی فاتحہ ہورہی ہے،اب اس شخص کومعلوم ہواکہ آپ نے اس کو وصال کے بعد بیعت کیاہے۔(تذکرہ اولیائے پاک وہند،ص321)
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 6/جمادی الثانی 1250ھ،مطابق اکتوبر/1834ءکوہوا۔آپ کامزار بریلی میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذمراجع: تذکرہ اولیائے پاک وہند۔