شیخُ الاسلام حضرت غوث بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب:اسمِ گرامی: بہاؤالدین زکریا۔کنیت:ابومحمد،ابولبرکات۔القاب:شیخ الاسلام،الشیخ الکبیر،غوث العالمین،بھاؤالحق ِّوالدّین،اسدیہاشمی،قرشی،ملتانی۔پورانام اسطرح ہے:شیخ الاسلام غوث العالمین حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ۔
سلسلہ نسب اسطرح ہے:حضرت شیخ الاسلام بہاؤالدین زکریا ملتانی بن شیخ وجیہ الدین بن کمال الدین،بن جلال الدین،بن علی قاضی،بن شمس الدین،بن شیخ حسین خوارزمی ،بن مطوف،بن حزیمہ،بن تاج الدین المطوف،بن عبدالرحیم،بن عبدالرحمن،بن ھباء ،بن اسد،بن ہاشم،بن عبدِ مناف۔الیٰ آخرہِ ۔علیہم الرحمۃ والرضوان۔آپ قریشی ہاشمی ہیں۔والدہ کی طرف سے سلسلۂ نسب مولا علی تک منتہی ہوتا ہے۔آپ کے اجداد مکۃ المکرمہ سے ہند تشریف لائے تھے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت شبِ قدر،شبِ جمعہ،/27رمضان المبارک 566ھ،مطابق جون/1171ء ،کو"کوٹ کروڑ" موجودہ "کروڑ لعل عیسن"(ضلع لیہ،پنجاب،پاکستان) میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: سات سال کی کم عمری میں قرآنِ مجید قرأتِ سبعہ عشرہ سے حفظ کرلیا۔اس کے بعد درسی کتب کی طرف متوجہ ہوئے۔12 سال کی عمر میں والدِ ماجد کاانتقال ہوگیا۔لیکن آپ نے تعلیم کاسلسلہ نہ روکا ۔مزید حصولِ علم کے لئے آپ خراسان ،نجف اشرف،بغداد،مکہ المکرمہ تشریف لے گئے۔وہاں سات سال درس وتدریس میں مشغول رہے،بعدازاں بخارا آگئےاوروہاں علم کی تکمیل کی،وہاں آپ "بہاء الدین فرشتہ"کےنام سے مشہورہوئے۔ مدینہ منورہ پہنچ کرآپ نے شیخ کمال الدین محمد یمنی سے جن کاشمارمحدثین کبارمیں تھا،درس حدیث لیااوراجازت نامہ بھی حاصل کیا۔آپ نے مدینہ منورہ میں پانچ سال عبادت وریاضت میں گزارے۔آپ کا شمار اپنے وقت کے اکابرعلماء وفقہاءومحدثین ومفسرین میں ہوتا تھا۔مولانا جامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:"تکمیلِ علوم کے بعدپندرہ سال تک تدریس کرتے رہے۔روزانہ ستر عالم وفاضل (مختلف علوم وفنون میں) آپ سے علمی پیاس بجھاتے تھے۔(نفحات الانس: 436)
بیعت وخلافت: آپ شیخ المشائخ شیخ شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمہ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔سترہ روز کے مجاہدہ کےبعدرسول اللہ ﷺکےحکم سے خرقۂ خلافت سے نوازے گئے۔
سیرت وخصائص: شیخ الاسلام والمسلمین،غوث العالمین،بہاؤالحق والدین ،قطب الاولیاء،قدوۃ الصلحاء،تاجدارِ ملتان، حضرت غوث بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ۔ آپ مادر زاد ولی تھے۔آپ کے والدِماجد جب قرآن شریف پڑھتےاورآپ آوازسنتےتوآپ فوراًدودھ پیناچھوڑدیتے تھےاورقرآن شریف سننے میں محو ہوجاتے تھے۔آپ نے اسلام کی اشاعت کے لئے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ برصغیر پاک وہند میں اشاعتِ اسلام کا سہرا صوفیاء کرام کے سر ہے جن کی مساعیِ جمیلہ سے کفر و شرک کے مستحکم قلعے نیست و نابود ہو گئے۔ہند کے بُت کدوں کی رونق ماند پڑنے لگی۔شمعِ توحید فروزاں ہونے سے کفر کی تاریکی چھٹ گئی اور دیارِ ہند میں ہر سو صدائے لا الٰہ الا اللہ گونجنے لگی۔اس خطۂ ارض میں قدم رنجہ فرمانے والے صوفیاء عظام نے اپنے اعلیٰ کردار کے ذریعے یہاں کے باسیوں کے دل موہ لیے اور وہ جو ق در جوق دولتِ اسلام سے بہرہ ور ہونے لگے۔
یہ انہی بزرگانِ دین کے قُدوم میمنت لزوم کا اثر ہے کہ آج یہاں کروڑوں مسلمان موجود ہیں۔حضرت شیخ الاسلام نے اپنی زندگی تبلیغِ اسلام کے لئے وقف کردی تھی۔ آپ جب ملتان تشریف لائے تو سب سے پہلے آپ نے ایسی جگہ کا انتخاب کیا۔جوصدیوں سے ہنود کامرکزتھی۔وہ قلعہ کہنہ قاسم باغ پر واقع برصغیر کے تاریخی مندر"پرہلاد جی "کے سامنے تھی۔ جو ہندو بھی پوجا پاٹ کر کے مندر سے نکلتا اور آپ کے نورانی چہرے کو دیکھتا توضرور متأثر ہوتا اور آپ کی پرکشش شخصیت، آپ کے اعلیٰ اخلاق اور آپ کی دل موہ لینے والی گفتار کے باعث حلقہ بگوشِ اسلام ہو جاتا۔ آہستہ آہستہ مندر کی رونقیں ماندپڑگئیں۔بالآخر ویران ہی ہوگیا،اور آج کل اس کے چند آثار کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا۔قریب ہی حضرت کا مزار اور مسجد ہے،اور مسجد کی دیوار تو مندر کی دیوار سے بالکل متصل ہے ،جہاں ہروقت قال اللہ اور قال رسول ﷺکی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔اس سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ برصغیر میں اسلام کی نشرواشاعت کرنے والی اولیاء اللہ کی پاکیزہ جماعت ہے۔
آپ نے اس جگہ "مدرسہ بہائیہ" کی بنیاد رکھی۔جس میں اس وقت تمام مروجہ علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ساتھ دنیا کی اہم زبانیں بھی سکھائیں جاتی تھیں۔جس علاقے میں مبلغین کو بھیجنامقصود ہوتا تھا پہلے اس کو اس علاقے کی زبان وثقافت کی مکمل تعلیم دی جاتی تھی،پھر اس علاقے کی طرف تاجر کی صورت میں روانہ کردیاجاتا تھا۔سامانِ تجارت ،اور مکمل سفری اخراجات،اور ان کی حفاظت کا مکمل بندوبست حضرت شیخ الاسلام خود کرتے تھے۔اور آپ ان کو روانہ کرتے وقت یہ نصیحتیں کرتے تھے۔"سامان کم منافع پر فروخت کرنا۔ لین دین میں اسلامی تعلیمات کو سامنے رکھنا ۔ ناقص چیزوں کو فروخت نہ کرنا ، بلکہ فقراء اور مساکین کو مفت دے دینا ۔خریداروں سے خندہ پیشانی سے پیش آنا۔ جب تک لوگوں کا اعتماد حاصل نہ ہو، ان پر اسلام پیش نہ کرنا۔"اس طرح علمائے ربانیین سوداگروں کے لباس میں سامانِ تجارت لے کر روانہ ہوتے اور انڈونیشیا،ملائیشیا،جاوا، سماٹرا، فلپائن،برما،سندھ،افغانستان دکن،بنگال،بلوچستان،کشمیر،اور چین وغیرہ تک پہنچ کر دوکانیں کھولتے اور دیانتداری سے لین دین کرتے اور ساتھ ہی لوگوں پر اسلام پیش کرتے جس کا خاطر خواہ نتیجہ نکلتا اور لوگ ان کے حسنِ اخلاق ، ان کی خدا ترسی، دینداری، دیانت داری اور معاملات میں صفائی ستھرائی دیکھ کر گرویدہ ہو جاتے اوربالآخر اسلام قبول کر لیتے ۔ آج مشرقِ بعیدکے چھوٹے چھوٹے جزیروں میں جو کروڑوں مسلمان نظر آتے ہیں، یہ انہی تاجر مبلغین کی سعیِ مشکور کا نتیجہ ہیں۔
اسی طرح سیاست سے گہری دلچسپی تھی۔تمام معاملات پر نظر رکھتے تھے۔آپ کے زمانے میں ملتان پر اسماعیلیوں اور قرامطہ کی حکومت تھی۔لوگوں کو اپنے مذہب کی طرف راغب کرتے تھے۔مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں کے خیرخواہ تھے۔حضرت شیخ الاسلام نے ان کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کیا۔بالآخر نتیجہ ان کے اقتدار ختم ہونے کی صورت میں ظاہر ہوا،اور اسلامی حکومت کی راہ ہموار ہوئی۔الغرض حضرت شیخ الاسلام کےتبلیغی کام کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔
آپ کا معمول تھا عصر کی اذان سنتے ہی مسجد میں تشریف لا کر عصر باجماعت ادا فرماتے تھے۔ اس کے بعد منبر پر تشریف لے جاتے۔ قرآن وحدیث کا وعظ فرماتے ۔ اس موقعہ پر دور ونزدیک کے لوگ کام چھوڑ کر جوق در جوق آتے اور وعظ سنتے ۔ تاثیر اس قدر تھی کہ اگر غیر مسلم شریکِ درس ہوتا توبغیر اسلام قبول کیے نہ رہتا۔اور مسلمان سنتا ، ضرور متأثر ہوتا تھا اور برے کاموں کو چھوڑ کر زہد و تقویٰ اور نیک اعمال اختیار کرتا تھا۔
حضرت شیخ الاسلام ہمیشہ لوگوں کو یہ وصیت فرماتے تھے: "ہرآدمی پر لازم ہے کہ وہ مکمل سچائی اورخلوص کے ساتھ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے ،ہرماسواکاخیال دل سے نکال دے۔اللہ تعالیٰ سے رسائی کا ایک ہی طریقہ ہے کہ کہ اپنے حال کو درست کرلو۔اپنے اقوال وافعال کو سنتِ مصطفیٰﷺ سے مزین کرلو۔تمام معاملات میں بارگاہِ صمد جل جلالہ سے استعانت حاصل کرو۔اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہو۔تاکہ تمہیں نیک اعمال کرنے کی توفیق حاصل ہو"۔
وصال:بروز منگل 7/صفرالمظفر661ھ،مطابق دسمبر/1262ء،کوسجدے کی حالت میں ہوا۔آپ کامزار مدینۃ الاولیاء ملتان میں منبعِ انواروبرکات ہے۔
ماخذومراجع: صوفیائے پنجاب۔الاوراد۔نفحات الانس۔تذکرہ علمائے ہند۔تذکرہ اولیائے پاک وہند۔