بانیِ سلسلہ سہروردیہ شیخ عبد القاہر ابو نجیب سہروردی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی: شیخ عبدالقاہر۔ کنیت:ابونجیب۔لقب: بانیِ سلسلہ عالیہ سہروردیہ۔ضیاءالدین سہروردی۔پورانام اس طرح ہے: عبدالقاہرابونجیب ضیاءالدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: شیخ ابو نجیب عبد القاہر بن عبد اللہ بن محمد بن محمد عمویہ عبد اللہ بن سعد بن حسین بن قاسم بن نضربن قاسم بن سعد بن نضربن عبد الرحمٰن بن قاسم بن محمد بن ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہم۔شیخ الشیوخ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمہ آپ کےبھتیجےاورخلیفۂ اعظم ہیں۔(یادگارِسہروردیہ:110)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت بروزپیر17/محرم الحرام 487ھ،مطابق 5/فروری 1094ءکوبمقام"سہرورد"عراق عجم میں ہوئی۔(ایضاً)
تحصیلِ علم: عفوانِ شباب میں ہی سہرورد سے تشریف لا کر بغداد میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ علوم ظاہری جامعہ نظامیہ بغداد شریف میں تحصیل فرمائے۔امام اسعد یمنی رحمۃ اللہ علیہ سے فقہ واصول فقہ و علم کلام پڑھا۔ علامہ ابو الحسن رحمۃ اللہ علیہ سے نحو و ادب کی تعلیم حاصل کی۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ ،اور خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اور امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ سے حدیث شریف سنی۔ صاحب " نفحات الانس" کے مطابق افریقہ کا سفر کیا۔اسکندریہ میں شیخُ الحدیث سے بخاری شریف سنی امام واحد ی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر آپ کو زبانی یاد تھی۔مزید بر آں جامع بغداد میں محدث عراق شیخ ابو علی محمد بن سعید بن سیقان، اور ابو محمد عبد الخالق بن طاہر الشافعی المتوفیٰ 541 ہجری سے بھی علم حدیث حاصل کیا۔
بیعت وخلافت: حضرت امام احمد غزالی علیہ الرحمہ کےدستِ حق پرست پربیعت ہوئے،اورخلافت ملی۔اپنےچچاحضرت شیخ وجیہ الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ نےبھی خلافت سےسرفرازفرمایا۔علامہ جامی علیہ الرحمہ کےبقول حجۃ الاسلام حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ سےبھی آپ کوخرقۂ خلافت حاصل تھا۔(نفحات الانس:367) بانیِ سلسلہ عالیہ قادریہ حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادرجیلانی رضی اللہ عنہ کی صحبت بھی حاصل ہوئی۔(یاگارِ سہروردیہ:108)
سیرت وخصائص: بانیِ سلسلہ عالیہ سہروردیہ،عارفِ حقائق صمدانیہ،صاحبِ فیوضاتِ کثیرہ،حضرت شیخ عبدالقاہرابونجیب ضیاءالدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ سلسلہ عالیہ سہروردیہ کے بانی ہیں جسے آپ کے بھتیجے اور خلیفہ اعظم حضرت شیخ الشیوخ شہاب الدین عمر سہروردی رحمۃ اللہ علیہ نے آسمانِ شہرت تک پہنچایا۔حضرت شیخ الاسلام شیخ الشیوخ نےاس سلسلہ کی ترویج وترقی اورنشاہِ ثانیہ میں اہم کرداراداکیا۔اس لئےوہی بانیِ سلسلسہ سہروردیہ معروف ہیں۔ابتداً درس وتدریس میں مصروف رہتےتھے۔پھرعلومِ باطنی کی طرف متوجہ ہوگئے،اور درس و تدریس کا سلسلہ ترک کر کے فقراء کی صحبت اختیار کی۔سخت چِلِّے اور مجاہد ے کئے سخت ریاضتیں کیں۔
آپ کاشمار اپنےوقت کےجیدمشائخ اورکاملین میں ہوتاتھا۔علم وعمل میں بےمثال تھے۔جب سیدناغوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی رضی اللہ عنہ نےارشادفرمایا: "میراقدم ہرولی اللہ کی گردن پرہے"تواس وقت آپ حضرت غوث الاعظم کی مجلس وعظ میں موجودتھے۔آپ کےعلاوہ اس وقت اس مجلس میں پچاس نامورمشائخ بھی موجودتھے۔سب نےاپنی گردنیں جھکالیں،اورحضرت محبوب سبحانی کےقدم مبارک کوبوسہ دیا،اوراپنےسروں پررکھدیا۔جن حضرات نےایساکیاان کانام آج تک روشن ہے۔(ایضاً)
جامعہ نظامیہ بغداد:یہ جامعہ اُس وقت پوری دنیاکی عظیم اورشہرہ آفاق اوردنیاکی واحدیونیورسٹی تھی۔اس یونیورسٹی سےبڑےبڑےفضلاءپیداہوئے۔
حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ،اوران کےبعدحضرت غوث الاعظم اس کےاستادومنتظم اعلی تھے۔حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کےبعدخلیفۂ بغدادنےحضرت ابونجیب سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کواس یونیورسٹی کاپرنسپل مقررکیا۔اس سےمعلوم یہ ہوا کہ ہمارےمشائخ تمام علوم کےجامع ہوتےتھے۔(اخبارالصالحین:166)
ایک دن آپ حرم شریف میں مراقبہ کئے بیٹھے تھے آپ کے بھتیجے اور خلیفہٗ اعظم شیخ الشیوخ حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہروردی رحمۃ اللہ علیہ بھی آپ کے پاس حاضر تھے تو اسی اثنا میں حضرت خضر علیہ السلام تشریف لائے مگر شیخ نےکچھ تو جہ نہ فرمائی اور مراقب رہے۔حضرت خضر علیہ السلام کچھ دیر کھڑے رہے اور پھر چلے گئے۔جب آپ مراقبہ سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا:"اے بیٹا تجھے کیا معلوم اس وقت میں اپنے خالق سے مشغول تھا اگر وہ وقت فوت ہوجاتا تو پھر مجھے کہاں ملتا۔خواجہ تو پھر مل جائیں گے۔یہی باتیں ہورہی تھیں کہ حضرت خضر علیہ السلام پھر تشریف لے آئے۔ شیخ نے کھڑے ہو کر استقبال کیا اور اپنے پاس بٹھایا۔ اسی طرح کئی بار آپ حضرت خضر علیہ السلام کا شرف نیاز حاصل کر کے رموز باطن اور علوم طریقت سے بہرہ مند ہوئے۔(تذکرہ غوث العالمین )
کرامت:حضرت شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ سےمنقول ہے کہ ایک دن تین یہودی اور تین عیسائی حضرت شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔شیخ نے ان کو اسلام کی دعوت دی لیکن انہوں نے انکار کردیا آپ نے ان میں سے ہر ایک کو ایک لقمہ دیا۔ ابھی لقمہ ان کے پیٹ میں نہیں پہنچاتھا کہ وہ سب ایمان لے آئے اور کہنےلگے کہ جونہی لقمہ ہمارے حلق کے اندر گیا سوائے اسلام کے ہر دین کی محبت ہمارے دل سےجاتی رہی۔(یادگارسہروردیہ:112)
حضرت شیخ اپنےمریدین کوبدعقیدہ،بدعمل دوستوں کی صحبت سےدوررہنےکی تلقین کرتےتھے۔اسی طرح سالکین کوشیطان کےمکائد وفسادات سےپہلےہی مطلع فرمادیتےتھے۔آپ کا اثر علماء ظاہر اور درویشوں تک ہی محدود نہ تھا۔ بلکہ خلیفہء وقت اور سلاطین بھی احترام کرتے اور بات مانتے۔جب الراشد باللہ ابو جعفر منصور خلیفہ ہوا تو آپ نے اسے ووعظ و نصیحت فرمائی اور عدل و انصاف اور خدا ترسی کی ترغیب دلائی۔آپ کی کتاب"آداب المریدین" مسائلِ طریقت پرایک جامع ونافع کتاب ہے۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 12/جمادی الثانی563ھ،مطابق مارچ/1163ءکوبغدادمیں ہوا۔
ماخذومراجع: نفحات الانس۔ یادگارسہروردیہ۔اخبارالصالحین۔تذکرہ غوث العالمین۔