حضرت معروف کرخی
نام ونسب: اسمِ گرامی: معروف۔ کنیت: ابو المحفوظ۔ لقب: اسد الدین۔ والد کا نام: فیروز تھا، پہلےمذہب نصاریٰ رکھتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد ان کا نام’’ علی‘‘ رکھا گیا، دادا کا نام مرزبان کرخی تھا۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت تقریباً 135ھ/752ء کو ’’کرخ‘‘ عراق میں ہوئی۔
تحصیل علم:آپ کاوالدنصرانی تھا۔جب اس نے آپ کو معلم کے پاس بھیجا اور معلم نے آپ کو کہا کہ کہو ’’ثالث ثلاثہ‘‘تو آپ نے اس وقت انکار کر کے کہا کہ میں ’’ھواللہ احد‘‘ کہتا ہوں ،ہر چند اس نے آپ کو بڑی فہمائش کی مگر بے سود اور آپ اس کے پاس سے بھاگ کر حضرت امام علی رضا کے پاس آگئے اور ان کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے،چند روز کے بعد جب اپنے گھر میں واپس آئے تو باپ نے پوچھا کہ تم نے کون سا دین اختیار کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ’’دینِ اسلام‘‘۔آپ کے والدین سنتے ہی مسلمان ہو گئے۔ پھر حضرت داؤد طائی (شاگرد حضرت امام اعظم ) کی خدمت میں رہ کر ان سے علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل فرمائی۔اسی طرح شہزادۂ رسول ﷺ حضرت امام علی کی خدمت میں ایک عرصے تک رہے، ان سے علوم ِ نبوت کا کثیر حصہ لیا۔
بیعت و خلافت: آپ حضرت داؤد طائی سے بیعت ہوئے، اور خرقۂ خلافت سے مشرف ہوئے۔حضرت داؤد طائی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے شاگرد رشید ہیں۔ان کےعلاوہ حضرت امام علی سے خرقہ خلافت حاصل کیا، شیخ فرقد سنجی ،ابو العباس محمد سماک،شیخ شیران المانی، خواجہ شمس الدین سجا وندی سے بھی بہرہ مند ہوئے۔۔
سیرت و خصائص: آپامام الصدیقین، شمس العارفین، سلطان المتعبّدین، رئیس السّالکین، سیّد الاولیا، عمدۃ الاتقیا، مقتدائے صدرِ طریقت، رہنمائے راہِ حقیقت، مہبطِ انوارِ الٰہی، مصدرِ اسرارِ نا متناہی، کرامات و ریاضات میں مشہور، اور فتوٰے و تقوٰے میں آیتِ عظیم تھے، مقامِ شوق و اُنس میں درجہ اعلیٰ رکھتے تھے، آپ حضرت خواجہ شیخ داوٗد طائی کے مرید و خلیفہ اکبر و جانشینِ اعظم تھے۔ آپ اہل سنت وجماعت کے عظیم شیخ ِ طریقت اور سلسلہ عالیہ قادریہ کے ’’نویں‘‘ امام ہیں۔ شیخ ابو الحسن قرشی فرماتے ہیں: میں چار شخصوں کو مشائخ کرام میں سے جانتا ہوں کہ وہ اپنی قبروں میں زندوں کی طرح تصرّف کرتے ہیں۔ شیخ معروف کرخی ، شیخ عبد القادِر جیلانی، سوم شیخ عقیل منبجی ، شیخ حیات بن قیس۔۔ شیخ عبدالرحمن بن محمد زہری فرماتے ہیں: حضرت معروف کرخی کے مزار کی حاضری قضائے حاجات کے لئے مجرب ہے اور جو کوئی ان کے مزار کے پاس سو مرتبہ سورہ ٔاِخلاص کی تلاوت کرے پھر اللہ تعالیٰ سے سوال کرے تو اللہ اس کی حاجت کو پورا فرمادے گا ۔(مناقب معروف الکرخی و اخبارہ ،ص۲۰۰)
حضرت امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین محدث ،آپ کی خدمت میں آیا جایا کرتے اور آپ سے روحانی حاصل کرتے تھے،اور حضرت سری سقطی آپ کے خلیفۂ اعظم تھے۔۔
خاتم المحدثین، امام المحققین، علامہ ابن عابدین شامی’’فتاویٰ شامی‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’وَمَعْرُوفِ الْكَرْخِي بْنِ فَيْرُوزَ، مِنْ الْمَشَايِخِ الْكِبَارِ، مُجَابِ الدَّعْوَةِ، يُسْتَسْقَى بِقَبْرِهِ وَهُوَ أُسْتَاذُ السِّرِّيِّ السَّقَطِيِّ مَاتَ سَنَةَ (200)۔
ترجمہ: اور شیخ معروف کرخی بن فیروز اولیاء کبار ، اورمستجاب الدعوات، آپ کی قبر(کی برکت) سے بارش طلب کی جاتی ہے۔آپ شیخ سری سقطی کے استاد ہیں، سن 200ھ میں آپ کا وصال ہوا۔ (فتاویٰ الشامی، جز1،ص،58، دار الفکر بیروت)
مشہور کرامت: حضرت شیخ یحیی بن سلیمان فرماتے ہیں: کہ مجھے ایک حاجت تھی اورمیں کافی تنگدست تھا۔ حضرت معروف کرخی کی قبرِ اَنور پر میری حاضری ہوئی،میں نے تین بار سورۂ اخلاص کی تلاوت کی اور اس کا ثواب آپ اور تمام مسلمانوں کی ارواح کو پہنچایا،پھر اپنی حاجت بیان کی۔ جوں ہی میں وہاں سے واپس گیا میری حاجت پوری ہو چکی تھی۔(الروض الفائق فی المواعظ والرقائق، ذکر معروف کرخی)
وصال: بروز جمعۃ المبارک 2؍محرم الحرام 200ھ/14 اگست؍ 815ء کو ہوا۔ آپ کا مزار شریف بغدادِ معلی میں زیارت گاہِ خلائق ہے۔حضرت خطیب بغدادی فرماتے ہیں:’’آپ کی قبرمبارک حاجتیں اور ضرورتیں پوری ہونے کے لئے مجرب ہے‘‘۔ (شریف التواریخ، جلد اول)
تلامذہ: حضرت امام احمد بن حنبل،امام یحی بن معین محدث، شیخ قاسم بغدادی()
خلفاء: حضرت شیخ سری سقطی،شیخ عثمان مغربی، شیخ حمزہ خراسانی، شیخ علی رودباری()